قبول کیجیے انکار کا مقام نہیں
قبول کیجیے انکار کا مقام نہیں
یہ جام مے ہے پری وصل کا پیام نہیں
عجیب ہے یہ سراپا کمر کا نام نہیں
کچھ ان کی بے دہنی میں مجھے کلام نہیں
ہے کون شیخ و برہمن جو دل سے رام نہیں
تمہارا دیر سے کب تا حرم خرام نہیں
لیا جو مول زلیخا نے ماہ کنعاں کو
کہا جمال نے صاحب ہوں میں غلام نہیں
بہک نہ جاؤں جو پی جاؤں بحر مے ساقی
سواری ہیچ ہے جب ہاتھ میں لگام نہیں
اٹھا لے ہاتھ جفا و ستم سے اے ظالم
خدا کے پاس بھی اس سے بڑا سلام نہیں
صفیں ہیں جام کی مے خانہ اپنی مسجد ہے
بجز شراب کی بوتل کے یاں امام نہیں
جو ایک بوسۂ لب لوں ہزار شکر کروں
ترے رقیب سا میں بھی نمک حرام نہیں
میں آپ کرتی ہوں خدمت کہا زلیخا نے
تری غلامی کے لائق کوئی غلام نہیں
وظیفہ ہے ترے حسن و ادا و غمزے کا
کسی بشر کی زباں پر کسی کا نام نہیں
مرے گناہوں کو اور کس سے بخشواؤں میں
شفیع جز ترے یا سید انام نہیں
فراق میں نہیں پیتا میں آب تک مے کیا
الٰہی بندہ ترا شارب مدام نہیں
چلے نہ جائے وہ گھر کو اسی بہانے سے
سنا دو میرے جنازے کو اذن عام نہیں
ہجوم و یاس و الم دل کو میرے گھیرے ہیں
کہ منتظر ہے جماعت مگر امام نہیں
کب آنے پاتا ہے رندوں میں نام زاہد کا
ہماری بزم میں بولے کباب خام نہیں
نہ پھول جاؤ نسیمؔ ان کے پھول پھینکے پر
گلوں کی مہر و محبت کو کچھ قیام نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |