قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
سرو کو صدقے میں آزاد کیا کرتے ہیں
زلف شب رنگ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
شب تاریک میں فریاد کیا کرتے ہیں
نگۂ یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
دیکھ کر برق کو فریاد کیا کرتے ہیں
کوچۂ یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
جا کے گل زار میں فریاد کیا کرتے ہیں
گھر جو بے یار ہے ویراں تو تصور میں مدام
خانۂ دل کو ہم آباد کیا کرتے ہیں
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں
گزرے ہیں کوچۂ کاکل سے صبا کے جھونکے
نکہت گل کو جو برباد کیا کرتے ہیں
ہوتے ہیں جاتے ہی مکتب میں پری رو خوں ریز
کیا یہ جلادوں کو استاد کیا کرتے ہیں
پھونک دیں نالۂ سوزاں سے اگر چاہیں قفس
ہم فقط خاطر صیاد کیا کرتے ہیں
ہوتی ہے آفت خط قہر خدا سے نازل
یہ صنم ہم پہ جو بیداد کیا کرتے ہیں
ملک الموت اگر کہیے انہیں تو ہے بجا
قتل بے تیغ پری زاد کیا کرتے ہیں
تو وہ صیاد ہے جو وار کے تجھ پر لاکھوں
طائر روح کو آزاد کیا کرتے ہیں
انتقام اس کا کہیں لے نہ فلک ڈرتا ہوں
جھوٹے وعدوں سے جو وہ شاد کیا کرتے ہیں
تیرا دیوان ہے کیا سامنے ان کے ناسخؔ
جو کہ قرآن پہ ایراد کیا کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |