Jump to content

قاسم کی شادی اس دم رچائی

From Wikisource
قاسم کی شادی اس دم رچائی
by میر تقی میر
313542قاسم کی شادی اس دم رچائیمیر تقی میر

قاسم کی شادی اس دم رچائی
جس دم کہ شہ سے کچھ بن نہ آئی
دلہن سمیں نے ایسی بنائی
وہ بزم جن نے ساری رلائی

بھائی نہ تھے جو ہوتے براتی
بزم عروسی رونق بھی پاتی
سو تو جلائی ہر اک نے چھاتی
آگے ہی جا جا گردن کٹائی

دولھا اگر تھا ظاہر نویلا
لیکن نہایت بیکس اکیلا
بابا کا مرنا اس طور جھیلا
طاقت سے آگے ایذا اٹھائی

دل کے الم سے رخ زرد جوں زر
آنسو کا سہرا چہرے کے اوپر
جوں پارۂ ابر رومال سب تر
غم کی نہ دل میں مطلق سمائی

بابا موا تھا ہو کرکے مسموم
شفقت عنایت غیروں سے معلوم
اب جو چچا ہے سو بھی ہے مظلوم
ڈھونڈے ہے اپنے غم سے رہائی

دولھا گدازاں ہووے نہ کس مس
نے کوئی غم خوار نے کوئی مونس
دولہن جلے تھی جوں شمع مجلس
ایسی لگن تھی یہ کب دھرائی

دلہن کو روتی لاکر بٹھایا
دولھا بھی کڑھتا پاس اس کے آیا
مرآت و مصحف لاکر دکھایا
اک دم بھی فرصت ہرگز نہ پائی

چاہا مبارز دشمن نے آکر
غیرت سے طاقت مطلق نہ لاکر
اٹھتے ہی واں سے جی کو چلا کر
سر پر اٹھائی ساری لڑائی

اک زخم سا زخم آخر اٹھایا
دیکھا چچا نے طاقت نہ لایا
گھوڑے سے گرتے چھاتی لگایا
نازک وہ پیکر بے جان پائی

مر جو گیا وہ جا الضرورت
کچھ اور ہوگئی مجلس کی صورت
بڑھتی چلی پھر دل کی کدورت
اس پر کہ گھر کی سب تھی صفائی

آرائش بزم کیا کہیے بارے
آہوں کے شعلے گل ریز سارے
گرتے تھے آنسو جیسے ستارے
چھوٹے تھی منھ پر سب کے ہوائی

کس پردگی کے معجر بہ سر تھا
سینے میں کس کے اس دم جگر تھا
بزم عروسی ماتم کا گھر تھا
اچرج ہوئی ہے یہ کدخدائی

القصہ اکثر بیکس بچارے
جور و ستم سے دشمن نے مارے
باقی جو ہیں اب کتنے دکھارے
پانی کی ان کو ہے گی منائی

اصغر پیاسا مرنے لگا جب
مردم حرم کے گریاں ہوئے سب
لاچار ہو شہ آپھی اٹھا تب
اک چلو پانی کرنے گدائی

لائے سو اس کو خوں میں ڈبو کر
ایسے گہر کو یوں بیٹھے کھو کر
رکھا جو سب میں گودی سے رو کر
چھوٹے بڑے کی چھاتی بھر آئی

گردن کٹائی اکبر نے جب کی
تر چشم ہے گی ہر خشک لب کی
عالم سیہ ہے آنکھوں میں سب کی
دیتا نہیں کچھ اس بن دکھائی

اس واقعے نے شہ کو کھپایا
آتش نے غم کی سینہ جلایا
خود کو بخود پھر ہرگز نہ پایا
دشوار کاٹی اس کی جدائی

افراط غم سے بس تنگ آکر
جینے سے بیٹھا دل کو اٹھاکر
وعدے پہ آخر میداں میں جاکر
خنجر کے کارن ضربت اٹھائی

واماندگاں سب کہتے تھے رو رو
وارث نہیں اب جز عابدیں سو
بیمار ایسا دیکھیں تو کیا ہو
پھر لاعلاجی پھر بے دوائی

سر دے کے شہ تو چھوٹا الم سے
عزت تھی ساری اس کے ہی دم سے
وابستہ خواری اب ہے گی ہم سے
موت اس کی آئی ہم کو نہ آئی

تھی چشم ہم کو جن سے وفا کی
آخر انھوں نے ایسی جفا کی
یارب برائی ہم نے وہ کیا کی
کرتی نہیں جو امت بھلائی

اپنا کیا تھا حیدر نے جس کو
جانی خصومت ہم سے ہے وس کو
ہم غم زدہ اب دیں دوش کس کو
کی آشنا نے یہ بے وفائی

چھوڑا مدینہ جس کے بھروسے
نیکی نہ دیکھی اس زشت خو سے
مارے گئے مل اس مردہ شو سے
بیٹے بھتیجے خویش اور بھائی

دنیا کی خاطر دیں ان نے چھوڑا
ابن علی سے سر رشتہ توڑا
یک بار ادھر سے منھ اپنا موڑا
تھا آشنا سو نکلا دغائی

تالیف جس کی کی تھی نبیؐ نے
ایذا اٹھائی اس سے علیؓ نے
بیٹے سے اس کے اب ہم سبھی نے
یہ آگ گھر کو ان نے لگائی

جانوں سے مارا خیمہ جلایا
پانی کے بدلے لوہو چٹایا
سر اس کے اوپر کٹوا منگوایا
ناموس ساری شہ کی لٹائی

غربت میں مارا لاکر وطن سے
محروم رکھا تس پر کفن سے
ہاتھ اک پسر کے باندھے رسن سے
کی ناتواں پر زورآزمائی

اہل حرم کو لوٹا لٹایا
ہر پردگی کو سب میں پھرایا
اونٹوں کے اوپر ظاہر بٹھایا
خوش کی ہماری یہ بے ردائی

اب شام کو ہم جاتے ہیں سارے
شب کر دکھایا دن کو ہمارے
کیا پیش آوے واں پہنچے بارے
طالع میں اپنے ہے نارسائی

جاتے تھے کہتے یوں وے گرفتار
نے کوئی ہمدم نے کوئی غم خوار
آگے سبھوں کے عابد ہو بیمار
چوٹ ان کے دل پر ہر گام کھائی

پامال کریے اس کام جاں کو
دیجے ریاست سگ زادگاں کو
چپ میرؔ نالاں رکھ لے زباں کو
کہیے سو کیا اب یہ بھی خدائی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.