قاسم کی شادی اس دم رچائی
قاسم کی شادی اس دم رچائی
جس دم کہ شہ سے کچھ بن نہ آئی
دلہن سمیں نے ایسی بنائی
وہ بزم جن نے ساری رلائی
بھائی نہ تھے جو ہوتے براتی
بزم عروسی رونق بھی پاتی
سو تو جلائی ہر اک نے چھاتی
آگے ہی جا جا گردن کٹائی
دولھا اگر تھا ظاہر نویلا
لیکن نہایت بیکس اکیلا
بابا کا مرنا اس طور جھیلا
طاقت سے آگے ایذا اٹھائی
دل کے الم سے رخ زرد جوں زر
آنسو کا سہرا چہرے کے اوپر
جوں پارۂ ابر رومال سب تر
غم کی نہ دل میں مطلق سمائی
بابا موا تھا ہو کرکے مسموم
شفقت عنایت غیروں سے معلوم
اب جو چچا ہے سو بھی ہے مظلوم
ڈھونڈے ہے اپنے غم سے رہائی
دولھا گدازاں ہووے نہ کس مس
نے کوئی غم خوار نے کوئی مونس
دولہن جلے تھی جوں شمع مجلس
ایسی لگن تھی یہ کب دھرائی
دلہن کو روتی لاکر بٹھایا
دولھا بھی کڑھتا پاس اس کے آیا
مرآت و مصحف لاکر دکھایا
اک دم بھی فرصت ہرگز نہ پائی
چاہا مبارز دشمن نے آکر
غیرت سے طاقت مطلق نہ لاکر
اٹھتے ہی واں سے جی کو چلا کر
سر پر اٹھائی ساری لڑائی
اک زخم سا زخم آخر اٹھایا
دیکھا چچا نے طاقت نہ لایا
گھوڑے سے گرتے چھاتی لگایا
نازک وہ پیکر بے جان پائی
مر جو گیا وہ جا الضرورت
کچھ اور ہوگئی مجلس کی صورت
بڑھتی چلی پھر دل کی کدورت
اس پر کہ گھر کی سب تھی صفائی
آرائش بزم کیا کہیے بارے
آہوں کے شعلے گل ریز سارے
گرتے تھے آنسو جیسے ستارے
چھوٹے تھی منھ پر سب کے ہوائی
کس پردگی کے معجر بہ سر تھا
سینے میں کس کے اس دم جگر تھا
بزم عروسی ماتم کا گھر تھا
اچرج ہوئی ہے یہ کدخدائی
القصہ اکثر بیکس بچارے
جور و ستم سے دشمن نے مارے
باقی جو ہیں اب کتنے دکھارے
پانی کی ان کو ہے گی منائی
اصغر پیاسا مرنے لگا جب
مردم حرم کے گریاں ہوئے سب
لاچار ہو شہ آپھی اٹھا تب
اک چلو پانی کرنے گدائی
لائے سو اس کو خوں میں ڈبو کر
ایسے گہر کو یوں بیٹھے کھو کر
رکھا جو سب میں گودی سے رو کر
چھوٹے بڑے کی چھاتی بھر آئی
گردن کٹائی اکبر نے جب کی
تر چشم ہے گی ہر خشک لب کی
عالم سیہ ہے آنکھوں میں سب کی
دیتا نہیں کچھ اس بن دکھائی
اس واقعے نے شہ کو کھپایا
آتش نے غم کی سینہ جلایا
خود کو بخود پھر ہرگز نہ پایا
دشوار کاٹی اس کی جدائی
افراط غم سے بس تنگ آکر
جینے سے بیٹھا دل کو اٹھاکر
وعدے پہ آخر میداں میں جاکر
خنجر کے کارن ضربت اٹھائی
واماندگاں سب کہتے تھے رو رو
وارث نہیں اب جز عابدیں سو
بیمار ایسا دیکھیں تو کیا ہو
پھر لاعلاجی پھر بے دوائی
سر دے کے شہ تو چھوٹا الم سے
عزت تھی ساری اس کے ہی دم سے
وابستہ خواری اب ہے گی ہم سے
موت اس کی آئی ہم کو نہ آئی
تھی چشم ہم کو جن سے وفا کی
آخر انھوں نے ایسی جفا کی
یارب برائی ہم نے وہ کیا کی
کرتی نہیں جو امت بھلائی
اپنا کیا تھا حیدر نے جس کو
جانی خصومت ہم سے ہے وس کو
ہم غم زدہ اب دیں دوش کس کو
کی آشنا نے یہ بے وفائی
چھوڑا مدینہ جس کے بھروسے
نیکی نہ دیکھی اس زشت خو سے
مارے گئے مل اس مردہ شو سے
بیٹے بھتیجے خویش اور بھائی
دنیا کی خاطر دیں ان نے چھوڑا
ابن علی سے سر رشتہ توڑا
یک بار ادھر سے منھ اپنا موڑا
تھا آشنا سو نکلا دغائی
تالیف جس کی کی تھی نبیؐ نے
ایذا اٹھائی اس سے علیؓ نے
بیٹے سے اس کے اب ہم سبھی نے
یہ آگ گھر کو ان نے لگائی
جانوں سے مارا خیمہ جلایا
پانی کے بدلے لوہو چٹایا
سر اس کے اوپر کٹوا منگوایا
ناموس ساری شہ کی لٹائی
غربت میں مارا لاکر وطن سے
محروم رکھا تس پر کفن سے
ہاتھ اک پسر کے باندھے رسن سے
کی ناتواں پر زورآزمائی
اہل حرم کو لوٹا لٹایا
ہر پردگی کو سب میں پھرایا
اونٹوں کے اوپر ظاہر بٹھایا
خوش کی ہماری یہ بے ردائی
اب شام کو ہم جاتے ہیں سارے
شب کر دکھایا دن کو ہمارے
کیا پیش آوے واں پہنچے بارے
طالع میں اپنے ہے نارسائی
جاتے تھے کہتے یوں وے گرفتار
نے کوئی ہمدم نے کوئی غم خوار
آگے سبھوں کے عابد ہو بیمار
چوٹ ان کے دل پر ہر گام کھائی
پامال کریے اس کام جاں کو
دیجے ریاست سگ زادگاں کو
چپ میرؔ نالاں رکھ لے زباں کو
کہیے سو کیا اب یہ بھی خدائی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |