قاتل عالم سے کیا یارانہ ہے
Appearance
قاتل عالم سے کیا یارانہ ہے
دل چراغ گور کا پروانہ ہے
ہر مکاں میں جلوۂ جانانہ ہے
عاشقوں کا ہر جگہ افسانہ ہے
چھین لے گا بہر زلف عنبریں
یہ دل صد چاک رشک شانہ ہے
لوگ کہتے ہیں جسے پیر مغاں
یار کا کیا جلوۂ مستانہ ہے
حلقۂ اعدا میں ہے وہ سیم بر
گنج ہے جس جا وہاں ویرانہ ہے
جس جگہ چلتے تھے کل جام شراب
آج واں الٹا ہوا پیمانہ ہے
بیعت دست سبو سے یہ کھلا
سب سے بہتر مشرب رندانہ ہے
کیوں نہ پھانسے دولت دنیا ہمیں
ہے وہاں پر دام جس جا دانہ ہے
مرد آخر بیں کے آگے منعموں
کثرت ہستی بھی اک ویرانہ ہے
کام کیا ہے اس کو ملک و مال سے
پاس جس کے ہمت مردانہ ہے
ہجر میں اشک مسلسل زاہدا
عاشقوں کا سبحۂ صد دانہ ہے
منتہیؔ زیر قدم اس یار کے
سر کٹانا سجدۂ شکرانہ ہے
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |