Jump to content

فیلا لوجیا

From Wikisource
فیلا لوجیا
by محمد حسین آزاد
319404فیلا لوجیامحمد حسین آزاد

لغات اور زبانوں کی فلسفی تحقیقات کے اصول

یہ ایک قدیم فن فلاسفۂ یونان کا ہے۔ اس سے مختلف زبانوں کی اصلیں اور ان کاتعلق ایک دوسرے سے معلوم ہو جاتا ہے۔ عرب اور فارس جہاں سے پہلے ہمیں علوم کے ذخیرے ملے، ان میں اس کے اصول و فروع کا پھیلاؤ بہت نہیں ہو اور جس قدر ہوا گُم ہو گیا۔ اب جو کچھ ہے انگریزی میں ہے۔ وہ اسے فلولوجی کہتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی رسالہ اس کا ترجمہ ہو تو امید نہیں کہ ہم وطن بھائیوں کا دل روشن کر سکے۔ کیونکہ انگریزی کے مصنف کئی کئی زبانوں کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ ہر زبان کی طاقت اس میں خرچ کرتے ہیں اور انگریزی، یونانی، لاطینی، عبرانی وغیرہ پر بنیاد رکھتے ہیں۔ یہاں ان طرفوں میں اندھیرا ہے۔ ہم لوگوں کو کچھ نظر نہیں آتا۔ اس لئے میں فارسی اور سنسکرت لفظوں کے چقماق سے آگ نکالوں گا۔ امید ہے کہ کچھ نہ کچھ اجالا ہوگا۔

ایشیائی زبانوں میں تحقیقات فلولوجی کا ابھی تک رواج نہیں ہوا۔ اہل یورپ نے اسے یونان سے لیا تھا۔ اسی واسطے علم مذکور کا نام فلولوجی چلا آتا ہے۔ (فلسفۃ اللسان) اب میرے دوست مجھے چند منٹ کے لئے ا جازت دیں کہ اول چند مطالب بیان کروں جن سے معلوم ہو کہ زبان جس سے تقریر یا گویائی مراد ہے وہ کیا شے ہے؟ وہ اظہار خیال کا وسیلہ ہے کہ متواتر آوازوں کے سلسلے میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں تقریر یا سلسلۂ الفاظ یا بیان یا عبارت کہتے ہیں۔ اسی مضمون کو شاعرانہ لطیفہ میں ادا کرتا ہوں کہ زبان (خواہ بیان) ہوائی سواریاں ہیں جن میں ہمارے خیالات سوار ہو کر دل سے نکلتے ہیں اور کانوں کے رستے اوروں کے دماغوں میں پہنچتے ہیں۔ اس سے رنگین تر مضمون یہ ہے کہ جس طرح تصویر اور تحریر قلم کی دستکاری ہے، جو آنکھوں سے نظر آتی، اسی طرح تقریر ہمارے خیالات کی زبانی تصویر ہے جو آواز کے قلم نے ہوا پر کھینچی ہے۔ وہ صورت ماجرا، کام، مقام اور ساری حالت کانوں سے دکھاتی ہے۔ خیالات کا مرتبہ زبان سے اول ہے۔ لیکن جب تک وہ دل میں ہیں ماں کے پیٹ میں ادھورے بچے ہیں۔ تقریر میں آکر پورے ہوتے ہیں اور تحریر کا لباس پہن کر بھرپور۔ لوگ جو خیالات سے مطلب نگاری اور نکتہ پردازی میں جان کھپاتے ہیں اس نکتہ کو انہی کا دل جانتا ہے۔ دنیا میں اظہار مراتب کی کارروائی تین طرح سے ہو سکتی ہے۔ اشارات، تقریر، تحریر۔ ان میں زبان یعنی تقریر اپنی توضیح کی زیادتی اور محنت کی کمی سے اول نمبر ہوگئی ہے اور حق پوچھو تو کارروائی کے لئے سب برابر ہیں۔ اب یہ کہو کہ زبان کیونکر پیدا ہوئی؟ سبحان اللہ! ہر مذہب کی کتاب یہی خبر دیتی ہے کہ ہماری زبان خاص خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے، یہ ہمیں ساتھ لے کر بہشت میں جائے گی اور اسی کے ذریعے سے ہم اہل جنت سے باتیں کریں گے۔1 لیکن غور کر کے دیکھو تو صانع مطلق نے اپنی صنعت کاملہ سے انسان ایک ایسا طلسم قدرت بنایا ہے کہ وہ خود زبان پیدا کر سکتا ہے اور یہ راز خیال کو وسعت دینے سے کھلتا ہے۔ ہے انسان صانع قدرت کا ایک صندوق سربستہ و لیکن یہ نہیں کھلتا کہ اس میں بولتا کیا ہے راہِ تہذیب کے مسافرو! ذرا ابتدائے آفرینش کی طرف مڑ کر نگاہ کرو کہ انسان پیدا ہوا ہے۔ اس میں دل ہے، دماغ ہے، خیالات ہیں اور سب طرح کی ضرورتیں بھی ہیں، مگر اظہار مطلب کا اوزار نہیں۔ وہ کیونکر گزارہ کرتا ہوگا؟ اچھا آج جو انسان بے زبان ہیں اور پہلے سے سو درجے زیادہ ضرورتیں رکھتے ہیں، انہیں دیکھو کیا کرتے ہیں؟ وہ کون؟ گونگے کہ اپنے اشاروں میں دنیا کی کوئی بات نہیں چھوڑتے، سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔ اور گونگوں پر کیا منحصر ہے، تم خود اکثر نہیں بولتے، سر کو آگے کو ہلا کر ہاں ظاہر کر دیتے ہو۔ دونوں شانوں کی طرف ہلا کر نہیں اور غور کرو تو یہ طبعی حرکت ہے۔ گھوڑے، ہاتھی وغیرہ چار پائے جب مالک کا ارادہ ماننا نہیں چاہتے، تو کس طرح سر جھڑجھڑا کر سرکشی سے انکار دکھاتے ہیں۔ شوق سیاحت مجھے خود کئی ملکوں میں لے گیا جہاں میں گونگا تھا۔ کیونکہ نہ میں کسی کی سمجھتا تھا، نہ کوئی میری وہاں۔ گزارہ کا وسیلہ اشارے ہی تھے۔ انسان جوش ہائے مختلف کا تھیلا ہے۔ جب کسی بات میں ناراض یا خفا ہوتا ہوگا تو اس کی طبیعت سخت آواز نکالتی ہوگی۔ نہیں، غراتا ہوگا۔ تم جانتے ہو کہ سمجھ بھی اپنے اپنے درجہ میں ہر جاندار کو ملی ہے۔ کتّے، بلی کو دیکھو۔ جب تمہیں خوش کرنا چاہتے ہیں، تو کن کن حرکتوں اور جنبشوں سے لگاوٹ کرتے ہیں اور کیسی مہین مہین نرم نرم آوازیں سناتے ہیں۔ اسی طرح ابتدائی انسان بھی دوسرے کا غصہ دھیما کرنے کو عجز و نیاز کی حرکات کام میں لانے لگا ہوگا۔ گونگوں کو بھی دیکھ لو اپنے اشاروں کو رنگ برنگ کی آوازوں سے مدد پہنچاتے ہیں۔ تم ابھی کتّے، بلی، سانپ وغیرہ جانوروں کے ڈرانے یا ہٹانے کے لئے لکڑی کھٹ کھٹا کر کام لیتے ہو۔ کبھی دوسرے شخص کو ہوشیار یا آگاہ یا اپنی طرف متوجہ کرنے کو تالی بجاکر، چھچکار کر، کھنکھار کر آگاہ کرتے ہو۔ آواز کا سمجھ جانا جاندار مخلوق کی طبیعت میں داخل ہے۔ جو جو بولیاں بول کر آپس میں سمجھتے سمجھاتے ہوں گے، وہ تو خدا ہی جانے مگر بلی کو دیکھو، کسی ملک کی ہو، خواہ غافل سوتی ہو، خواہ کسی طرف جاتی ہو۔ جب پھِش پھِش کر کے آواز دوگے، فوراً دیکھنے لگے گی۔ کتّا کسی ولایت کا ہو جب تم چُس چُس کر کے آواز دوگے، ضرور چوکنا ہوکر دیکھنے لگے گا، بلکہ محبت کی دُم بھی ہلانے لگے گا۔ یہ عموماً بازاری کتّوں کا حال ہے اور جو تعلیم یافتہ ہیں ان کا تو کیا کہنا! جب یہ بات قرین قیاس ٹھہری کہ انسان بھی ابتدائے آفرینش میں اشاروں سے سمجھتا سمجھاتا تھا تو یہ بھی ظاہر ہے کہ سوچنے اور ایجاد کرنے کی لیاقت اسے خدا نے دی تھی۔ برس دو برس کے بچوں کو دیکھو فقط چیخیں ہی مارتے ہیں یا مُہمل آوازیں کام میں لاتے ہیں۔ جس بات کو جی چاہتا ہے یا کچھ چیز مانگتے ہیں یا نہیں کرنا چاہتے ہیں تو انگلیوں کے اشاروں سے سر کے ہلانے سے اور اُنھ اُنھ، نے نے کر کے تمہیں اپنی خواہشیں جتا دیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ کچھ کچھ اور آوازیں بھی ٹھیرا لیتے ہیں۔ مثلاً پانی کے لئے مم مم اور کھانے کو پَہ پَہ یا ہپہ وغیرہ وغیرہ۔ تم نے دیکھا! اعضائے تکلم میں ہونٹ سب سے زیادہ نرم ہیں۔ ذرا سے ارادہ میں ہل جاتے ہیں۔ انہی سے یہ صدائیں نکلی ہیں، نہ کہ مسوڑوں سے یا ناک سے یا کان سے۔ رفتہ رفتہ کچھ اور آوازیں نکالنے لگتے ہیں یا سیکھ جاتے ہیں۔ البتہ ان کے اُستاد یا رہنما بھی ہوتے ہیں۔ (وہ کون؟ یہی گھر والے) اور یہ آوازیں بھی اول ان چیزوں اور ان آدمیوں پر کام آتی ہیں جو ان کے آس پاس ہوتے ہیں۔ اسی طرح فرض کرو کہ آفرینش عالم طفولیت میں ہے اور ایک جگہ دو چار ہی آدمی رہتے ہیں۔ اس وقت ان کے کیا معاملات اور کیا سامان ہیں؟ ایک پہاڑ کے بن مانس یا صحرا کے حبشی پر خیال کرو کہ اس کے پاس ایک ہڈی ہے، وہ اس میں سے گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ فرض کرو ایک ویسا ہی جنگلی اس پر ہاتھ بڑھا کر، آنکھیں نکال کر، گردن کو اینٹھا کر غرایا تو پہلا جنگلی ضرور سمجھ گیا ہوگا کہ یہ ہڈی چھیننی چاہتا ہے۔ اگر برخلاف پہلی حالت کے اُوں اُوں کر کے، نرم نرم مہین آواز نکالی اور غریبی کا رنگ دکھا کر آنکھیں چندھیائیں اور آہستہ آہستہ ہاتھ بڑھایا تو وہ سمجھ گیا ہوگا کہ یہ بیچارا بھی بھوکا ہے۔ عاجزی سے ہڈّی مانگتا ہے۔ اور یہ حالتیں تم روز اکثر حیوانوں میں مشاہدہ کرتے ہو۔ بعد میں اس کے اس کھانے پینے کے علاوہ اور چیزوں کے لئے بھی آوازیں مقرر ہوگئی ہوں گی۔ پھر رفتہ رفتہ لفظ پیدا ہوگئے ہوں گے۔ تاریخی لطیفہ اکبر کے دربار میں گفتگو ہوئی کہ انسان کی اصلی زبان کیا ہے؟ ایک مکان عالیشان شہر سے الگ تجویز ہوا۔ چند حاملہ عورتوں کو وہاں رکھا۔ گونگی انّائیں، مامائیں، گونگے خدمتگار باہر کے لئے نوکر کئے۔ جب بچے پیدا ہوئے تو ماؤں کو الگ کر کے بے زبانوں کو گونگی انّاؤں کے سپرد کردیا۔ پرورش کی ضروریات سب حاضر اور حکم تھا کہ کوئی بولتا آدمی ان کےپاس نہ پھٹکنے پائے۔ جب بچے چار چارپانچ پانچ برس کے ہوئے تو بادشاہ خود گئے۔ بچوں کو سامنے لاکر چھوڑ دیا۔ سب جنگلی جانوروں کی طرح غائیں پائیں کرتے تھے۔ ایک بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ تم ننھے ننھے بچوں کو دیکھتے ہو؟ جو چیزیں انہیں نظر آتی ہیں اورانہی سے کام پڑتے ہیں، ان ہی کے لئے سب سے پہلے اشارے اور آوازیں بھی قرار دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اول پیاری ماں اورپیارا باپ ہوتا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے بچوں کے اعضا کا جز جز قابو میں نہیں ہوتا کہ حروف میں امتیاز اور فرق پیدا کر سکیں۔ سب سے آگے وہی ہونٹ ہیں، انہیں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور بچہ کہتا ہے مَ مَ بَ بَ۔ اس بات کو میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ اختلاف وطن اور آب و ہوا کے فرق سے طبیعتوں میں بھی فرق ہوتا ہے لیکن چونکہ انسانیت کے لحاظ سے سب ایک تھے، اس لئے دیکھو! طبیعت کے استاد نے سب کو ایک ہی نام سکھایا اگرچہ ذرا ذرا سا فرق ہوگیا ہے۔ لیکن تقریباً سب زبانوں میں ماں باپ کے نام جو بچہ سب سے پہلے سیکھتا ہے ایسے اصوات سے مرکب ہیں جن کا تلفظ ہونٹوں کی جنبش یا محض منھ کھول کر آواز نکالنے سے ہوتا ہے۔ مثلاً، انگریزی میں باپ کو پاپا کہتے ہیں، ماں کو ماما عربی میں باپ کو اب یا ابا کہتے ہیں، ماں کو ام فارسی میں باپ کو بابا کہتے ہیں، ماں کو مام اشارات میں دیکھ لو، طبیعت انسانی کا اتحاد۔ ہر ایک کے بچہ سے اشارہ کے لئے پہلے انگلی اٹھواتا ہے پھر آواز سے کہواتا ہے۔ یُہ یُہ۔ پھر پاس کے لئے یہ اور دور کے لئے وُہ ہو جاتا ہے۔ بچہ پہلے چیزوں کے نام یعنی اَسما سیکھتا ہے۔ اسی واسطے جب کوئی چیزلینی چاہتا ہے تو فقط اسی کا نام لے کر پکارتا ہے۔ بھوکا ہوتا تو دُو دُو دُو دُو کہتا ہے۔ پیاسا ہوتا ہے تو فقط مم مم کہتا ہے۔ مٹھائی کو جی چاہتا ہے تو چیجی بلکہ چی کہتا ہے۔ جب گویائی میں ذرا زور رفتار پیدا ہوتا ہے تو فعل بھی لگانے لگتا ہے، مگر غلط سلط۔ رفتہ رفتہ حروف لگا کر باتیں کرنے لگتا ہے۔ زبان کے انجان پردیسیوں کو دیکھا اور خود سیاحتوں میں تجربہ ہوا کہ غیر ملک میں جاکر لین دین، کام کاج میں پہلے فقط اسموں سے کام نکالنا پڑتا ہے۔ مثلاً روٹی چاہئے تو پیسے دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نان، یعنی پیسے موجود ہیں روٹی دو۔ دُکان دار روٹی دکھاتا ہے اور انگلی کا اشارہ کرتا ہے، یعنی ایک پَیسا یا دو پیسے۔ اسی طرح گھی، نمک وغیرہ۔ چند روز کے بعد کچھ فعل یاد ہوجاتے ہیں، حرف سیکھ لیتا ہے۔ اسی کہنے سننے میں آدھے سارے جملے جوڑنے لگتا ہے۔ باعتبار ولادت کے اشارت کا نمبر اول تھا، لیکن کلام بہت اچھی کارگزاری کرتا ہے۔ اس لئے زبان اس پر چرب ہوئی اور ادائے مطلب کا کام اٹھا لیا۔ الفاظ جن سے زبان کا کام چلتا ہے کیونکر پیدا ہوئے؟ایک گروہِ کثیر ایک ہی دادا کی اولاد ہو، لیکن جب کنبہ کنبہ ایک ایک پہاڑی یا قطعہ قطعہ زمین پر الگ الگ بستے ہوں تو ضرور ہے کہ ضرورتِ وقت یا قدرتی اتفاق ان میں نئی چیزیں پیدا کریں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر مقام میں ایک ہی چیز کا جدا جدا نام پکارا جائے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک ہی چیز کے لئے مختلف مقاموں کے نام جمع کریں تو ہر چیز کے لئے کئی کئی نام ہوں گے۔ پھر جب کہ سلطنت کا امن یا باہمی ارتباط آمدو رفت کے نَسَا جال پھیلائے اور تعلیم و تربیت عام ہو جائے تو بہت سے نام خود بخود گر جائیں گے اور ہر شے کے لئے ایک نام رہ جائے گا۔ وہ کبھی تو مناسبت کے سبب سے زیبا و برجستہ ہوگا اور کبھی جو بِنْدھ گیا وہی موتی۔ اس وقت یہ ضروری ہے کہ ہر شے کو نام خاص سے پکارنے کے لئے سب کا اتفاق ہوگا۔ اب اگر کوئی پوچھے کہ لفظ کیا شے ہے؟ تو تم کہہ سکتے ہو کہ وہ ایک زبانی تصویر ہے یا پَتَا۔ نشان ہے کسی چیز کا یا فعل کا۔ دنیا ہمیشہ ترقی کے رستہ میں رواں ہے۔ کیسی ہی ابتدائی حالت ہو، شائستگی پھیلے جائے گی۔ علوم اور فنون کی دستکاری نئی چیزیں پیدا کرے گی۔ لین دین جسے ترقی نے تجارت کا خطاب دیا ہے، ایک جگہ کی چیزیں دوسری جگہ پہنچائیں گے۔ اس سب سے بھی نئے الفاظ ہر جگہ پیدا ہوں گے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچیں گے۔ کیونکہ چیزیں اور کام نئے ہیں۔ دیکھ لو! یہی سبب ہے کہ دیہات میں الفاظ کم ہوتے ہیں، شہروں میں بہت اور شہری الفاظ کی خوش آوازی، خوش ادائی، اور لطافت گاؤں والوں کو اپنی شاگردی پر مجبور اور مشتاق کرتی ہے۔ اسی کو خاص و عام کا اتفاق کہتے ہیں اور اس سے الفاظ اور اصطلاحیں پیدا ہوتی ہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ تقریر کیونکر پیدا ہوئی؟ تم صاف کہہ دوگے کہ انسان میں جو چیخنے اور چلانے کی خاصیت ہے، وہ باہمی ضرورتوں اور آپس کے برتاؤ سے اصلاح اور ترقی کرتے کرتے تقریر ہوگئی اور رفتہ رفتہ یہ رتبہ پیدا کیا کہ جس طرح ایک مصور کامل کسی انسان یا باغ یا محل کا نقشہ کھینچ کر اس کی کیفیت آنکھوں کے رستے سمجھاتا ہے، صاحب زبان اپنے مافی الضمیر اور حرکت اعضا کے مجموعہ کو آواز کے رنگ میں کانوں کے رستے سمجھاتا ہے۔ پس گویائی گویا ایک عمدہ آلہ ادائے خیال کا ہے، لیکن نامکمل۔ کیونکہ کون سا قادر الکلام ہے جو دل کے خیال کو جوں کا توں پورا پورا اپنے لفظوں میں ادا کردے۔ عمدہ سے عمدہ کلام دل کے خیالات کی تصویر ہے لیکن ایسے پانی میں ہے جو گدلا ہے۔ یا عکس ہے ایسے آئینہ میں جو دھندلا ہے۔ تم نے خیال کیا؟ زبان یعنی تقریر گویا انسان کے دل، انسان کی خواہش اور اس کے حرکات اعضائی کا مجموعی خلاصہ ہے۔ اسی خیال سے زبان عرب کے ابتدائی محققوں میں عباد بن سلیمان ضمیری نے کہہ دیا کہ ’’الفاظ اپنے حروف، اعراب اور آوازوں کے ذریعے سے خود بخود اپنے معنی بتلاتے ہیں۔ ‘‘ مگر یہ رائے عموماً درست نہیں۔ اصفہانی نے شرح منہاج بیضاوی میں لکھا ہے کہ جمہور اہل لغت اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اگر یہی بات ہوتی تو ہر شخص ہرلفظ کے معنی سمجھتا۔ بتانے اور لغت میں دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ دوسرے اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ایک لفظ کے دو معنی ہوتے ہیں جو باہم مخالف ہیں۔ اگر الفاظ بالطبع اپنے معنوں پر دلالت کرتے تو یہ کیونکر ہو سکتا تھا۔ البتہ لفظ بھی بعض جگہ اپنے معنوں پر آپ اشارہ کرتا ہے۔ دیکھو، تندر (رعد) کو خیال کرو۔ اس لفظ میں گرج زور و شور سنائی دیتا ہے یا نہیں؟ درشت کو دیکھو۔ کرخت پر خیال کرو۔ سختی اور کھردراپن نہیں پایا جاتا؟ تیر کی ی کو مد کی کشش میں دیکھو۔ صاف نظر آتا ہے کہ کوئی تیز چیز تیز رو ہے کہ سیدھی چلی جاتی ہے۔ خُم یا خُنب بولنے میں بھی اپنی پھلاوٹ اور گلاوٹ کی تصویر دکھاتا ہے۔ یورپ کے دانا کہتے ہیں کہ پہلے طبیعت کی تاثیر نے حالت کے مناسب آوازیں نکالی تھیں۔ پھر استعمال اور تہذیب نے انہی کو لفظ بنا دیا۔ یہ رائے قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ چہچہہ بُلبُل کی آوازِ مسلسل کا نام ہوا۔ کوکو فاختہ کی آواز متواتر کا۔ غرّش جانوروں کی خفگی کی آواز۔ قہقہہ انسان کی ہنسی غوغا۔ غُلغُلہ، غُلغُل، شور و غُل انسان کا ہوا۔ کوہستان خِراسان و ایران کے کوّے دیکھے۔ چپل سے ذرا چھوٹے ہوتے ہیں اور بولنے میں صاف کلغ کلغ آواز دیتے ہیں۔ کلاغ ان کا نام ہو گیا۔ چغوک اسی آواز کے سبب سے چڑے کا نام ہوا۔ (یعنی چڑیا کا نر) تم ضرور کہوگے کہ اپنے رنگ، آواز، اور ادا کے انداز اور دل کی حالت کو ملا کر جو معنی چاہو پیدا کرلو۔ اصلی لفظ میں تو ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بھی درست ہے۔ لیکن میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ زبان انسان کی آواز، دل اور اشارات اعضائی کا مجموعہ ہے۔ اس صورت میں کسی جز کو روکنا نہیں چاہئے۔2 ولادتِ زبان کی بنیاد تم نے دیکھ لی؟ پہلے کچھ اشارے تھے۔ پھر کچھ آوازیں، پھر باہمی اتفاق سےکچھ الفاظ آپس کے سمجھنے سمجھانے کے لئے مقرر ہوگئے۔ پس جب آفرینش بڑھے اور آبادی پھیلے، تب بھی واجب ہے کہ وہی الفاظ کام میں لائیں کہ سب کی سمجھ میں آئیں اور عام فہمی کے سبب سے انہیں سب سے پہلے کام میں لائیں۔3 زبان میں کسی کو اپنی طرف سے ایک لفظ بھی ایجاد کرنے کا اختیار نہیں ہے! یہ ہوسکتا ہے کہ میں شادمی کہوں اور اس کے معنی رکھوں آدمی۔ اسے شاید میرے نوکر چاکر یا دوست آشنا سمجھنے میں بھی لگیں مگر اور سب کب مانیں گے! اور مانیں کیا؟ اگر چند لفظ ایسے تصنیف کر لوں تو کوئی میری بات بھی نہ سمجھے گا۔ اسی بنیاد پر عرب کے اہل تحقیق نے کہا ہے کہ لغت 4 وہ ہے کہ جس پر جمہور کا اتفاق ہو۔ اصطلاح وہ ہے جس پر خاص گروہ کا اتفاق ہو۔ البتہ کوئی علمی مصنف یا صاحب ایجاد قادر الکلام شخص بھی الفاظ ایجاد کر سکتا ہے۔ لیکن ان کے قیام عمر کے لئے اسے بھی جمہور کا حسن قبول حاصل کرنا پڑے گا۔ عزیزان وطن! ولادتِ الفاظ اور آفرینش زبان کے خیالات مجملاً آپ کے تصور میں آگئے ہوں گے۔ اب یہ سنئے کہ فلسفی زبان کا منصب کیا ہے؟ اس کا منصب ہے تقریر کے ہر لفظ کو کریدنا جس سے کہ زبان مرکب ہے۔ اس سے شاید تم یہ سمجھے ہوگے کہ فلسفی زبان کو اکثر زبانوں کے لفظ اور معنی خوب آتے ہوں گے۔ وہ عبارت میں مبتدا، خبر، مضاف، مضاف الیہ، صلہ، موصول، وغیرہ وغیرہ کو خوب سمجھتا ہوگا۔ نہیں! یہ تو بہت ادنی کام ہے۔ وہ لفظ کی اصل و نسل ولادت سے وقتِ موجود تک دریافت کرتا ہے۔ تم نے کسی نیاریے یا تیزابیے کو دیکھا ہے؟ جب ایک دھات کی ڈلی اس کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ اسے دیکھتا ہے اور جانچتا ہے کہ ایک مادہ ہے یا کئی مادّے گٹھے ہوئے ہیں۔ تب کبھی تیزاب سے، کبھی آنچ کے زور سے گلا کر ان کا جوڑ جوڑ کھول لیتا ہے کہ اس کی اصل کہاں پہنچی ہے۔ اسی طرح ماہر زبان ایک لفظ کو لیتا ہے، وہ تیزاب، یا آنچ کام میں نہیں لاتا، فقط عقل کے تیزاب سے حرفوں کے جوڑ بند کھولتا ہے اور معنوں کو سوچ کر اس کی ساری اصل نسل دریافت کر لیتا ہے۔ میرے دوستو! تم حیران ہوگے کہ لفظ کی ولادت اور نسل کیا؟ ہاں لفظ کی بھی ولادت اور نسل ہوتی ہے۔ اور وہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ فلسفی لفظ کے جز جز کو الگ کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وقت بوقت ان کی اصل کس کس ملک اور کس کس قوم میں می پہنچتی آئی ہے۔ ان میں کیا رشتے ہیں؟ اور کیونکر وہ رشتے پیدا ہوئے ہیں اور ملک بہ ملک ان کے معنوں یا حرفوں میں کیا تغیر پیدا ہوئے ہیں۔ پھر اور زبانوں کے لحاظ سے اپنی باتوں پر غور کرتا ہے، ان کے نتائج کو بھی جانچتا ہے اور مطابقت اور مقابلہ کرتا ہے۔ یعنی ایک زبان کے لفظ دوسری زبان سے کن کن باتوں میں متفق ہیں اور کون سی باتیں ہیں کہ ایک ہی کے لئے خاص ہیں۔ پھر ان سببوں کی جستجو کرتا ہے جو زبان میں تبدیلی کا عمل کر رہے ہیں۔ اور یہ غیر منقطع کام ہے، کبھی ترقی کے رنگ میں ہوتا ہے، کبھی تنزل میں، مگر جاری ہمیشہ رہتا ہے اور اسی کو زبان کی اصل نسل کہتے ہیں۔ اب چند مثالیں توضیح کے لئے لکھتا ہوں، گریبان کو فلسفی زبان نے دیکھا۔ بان پر جوڑ معلوم ہوا۔ اس نے گرے کو دیکھا تو فارسی قدیم میں بمعنی گلو پایا۔ سمجھ گیا کہ اس جزو لباس کا گلے پر قبضہ ہے، اس لئے اس کا نام گریبان رکھا ہوگا کہ مالکِ گلو ہے۔ سنسکرت میں دیکھا تو وہاں گریو (ग्रीवा) انہی معنوں میں آیا ہے اور بان سنسکرت میں وان (वान) ہے۔ ثابت ہو گیا کہ ایک گھرانے کی نسل ہے۔ ملک اور مدت کے انقلاب سے آواز بدل گئی۔ یہاں مر گیا وہاں جیتا ہے۔ کلابتون کو سب پہنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ فلسفی زبان اس کا بل کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کلابہ، کلاوہ (سوت کا لچھا) اکتون ترکی میں سونے کو کہتے ہیں وہی سنہرا لچھا ہوا۔ نیلوفر کو بے خبر آدمی ایک گلِ خودرو سمجھے گا۔ فلسفی زبان دیکھے گا کہ نیلو پر، نیلوفر، نیلوپل، نیلپر سب طرح مستعمل ہوا ہے۔ تب ادھر ادھر نظر دوڑائے گا، اس وقت معلوم ہوگا کہ سنسکرت میں نیل (नील) نیلا، اُت پل (उतपल) پنکھڑی ہے، یعنی نیل پنکھڑی ہے، یعنی نیلی پنکھڑی والا پھول۔ فارسی میں اَدَل بَدَل ہو کر کچھ سے کچھ ہوگیا۔ ناہار اور نہار ہندوستان میں بھی سب جانتے ہیں۔ فلسفی زبان نے دیکھا تو ن پر جوڑ معلوم ہوا۔ اہار کو دیکھا تو فارسی بلکہ سنسکرت میں بھی بمعنی خورش آیا ہے۔ سمجھ گیا کہ صبح سے جب تک کچھ نہ کھایا ہو اس وقت تک ناہار یا نہار ہے۔5 خربُزہ کو سونگھا تو بو آئی کہ مرکب ہے۔ خر کو دیکھا بمعنی کلاں بھی آتا ہے۔ بُزہ کو دیکھا تو فارسی قدیم میں بمعنی ثمر ہے۔ سمجھ گیا کہ بڑا پھل تھا، اس لئے خربُزہ نام رکھا ہوگا۔ سنسکرت میں بھی بعینہ یہی دو جُز اور یہی معنی ہیں۔ میرے دوستو! تم دل میں کہتے ہوگے کہ اس توڑ جوڑ اور لفظوں کے رگ پٹھّے چیرنے سے کیا فائدہ؟ جب ہم ایک زبان سیکھتے ہیں تو اس میں یہی غرض ہوتی ہے کہ اور کی بات سمجھ لیں اپنی بات سمجھا دیں۔ اس کے لئے اتنا کافی ہے کہ لفظوں کے معنی آگئے۔ عبارت کا مطلب معلوم ہوگیا، والسلام۔ میں بھی کہتا ہوں کہ بے شک زبان سیکھنی ہو تو اس سے زیادہ کاوش کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ذرا خیال کر کے دیکھو۔ جب تم کوئی شکل اقلیدس کی حل کرتے ہو یا ایک حساب کے سوال کا جواب نکال لیتے ہو یا ایک بچہ کوئی پہیلی بوجھتا ہے تو کیا خوشی ہوتی ہے! ہزاروں پھول، پھل، بوٹیاں، نباتات، جمادات ہیں۔ اگر ان کے مزے اور اصلی تاثیریں معلوم کر کے تمہیں خوشی حاصل ہوتی ہوگی تو لفظوں کی اصلیت دریافت کر کے بھی ضرور خوشی ہوگی۔ جن الفاظ کی توضیح میں نے بیان کی۔ انہیں سن کر کس کے دل کو فرحت نہیں ہوئی؟ البتہ بدمزہ، بےمغز سے کہ الفاظ کو فقط مُنہ کی بھاپ یا پیٹ کا سانس سمجھتے ہیں، انہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ ہونٹ سے لفظ نکلے ہوا ہوگئے۔ ان کےنزدیک کچھ بات ہی نہیں۔ الفاظ ظاہر میں ہوائی جنبشیں ہیں لیکن حقیقت میں مستقل چیزیں ہیں۔ تم ضرور پوچھوگے کہ الفاظ مستقل چیزیں کیونکر ہو سکتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ جب تمہیں کوئی چیز مثلاً چاکو یا قلم درکار ہوتا ہے، اگر ایک لڑکے سے بھی کہتے ہو تو فوراً اٹھا لاتا ہے۔ دور ہو یا پاس۔ حالانکہ تم نے فقط لفظ کہا تھا۔ چاکو یا قلم کی تصویر بنا کرنہیں دی۔ دیکھو لفظ نے اس کے دل پر اصل شے کا کام دیا۔‘‘تم لفظوں میں فقط اتنا ہی نہ سمجھو کہ براے نام خاص خاص چیزوں پر اشارے کرتے ہیں۔ غور کروگے تو پاؤگے کہ وہ بھی اور چیزوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ ترقی و تنزل کرتے ہیں، سفر کرتے ہیں اور اس میں طبیعت اور رنگ بدلتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔ ان کے حالوں، چالوں اور انقلابلوں کو دیکھوگے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح قوموں کی تاریخیں اپنے حالات و مقالات سے کملائے ہوئے دلوں کو شگفتہ کرتی ہیں، لفظوں کی تاریخیں اپنے لطف و خوبی کے ساتھ اس سے زیادہ دماغوں کو شاداب کرتی ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا فائدہ ہوگا کہ لفظوں ہی کے مقابلہ اور مطابقت میں قوموں، نسلوں اور ان کے خاندانی رشتوں کے سر رشتے نکل آئے۔ الفاظ کے تغیر طبیعت اور ان کے رنگ بدلنے پر تمہیں ضرور کھٹکا گزرے گا کہ اسما حقیقت میں اشیا کے نام ہیں۔ جب چیزیں نہیں بدلیں اور نام ان کے بدل گئے تو الفاظ اور معانی میں عجب خلط ملط پیدا ہوگا۔ میرے دوستو! یہ تغیر ضرور ہوتے ہیں اور وہ قباحت نہیں پیدا ہوتی جس کا تمہیں خطرہ ہے۔ دیکھو؟ جیب، عرب میں اول سینہ کو اور دل کو بھی کہتے تھے، پھر گریبان کو کہنے لگے کہ سینہ پر ہوتا ہے۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں کہ جَوْب بمعنی قطع ہے۔ گریبان کترا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس کا نام جیب رکھا۔ عرب کے لوگ جُبّہ یا کُرتہ کے گریبان میں ایک تھیلی ٹانک کر اس میں چیز رکھ لیا کرتے تھے۔ مدت کے بعد اسی کا نام جیب ہوگیا۔ فارس میں وہ تھیلی گریبان سے ڈھلک کر کمر کے نیچے آگئی اور نام وہی جیب رہا۔ تماشا یہ ہے کہ اب گھڑی کے شوقینوں نے چھاتی کے بائیں طرف جگہ دی اور کوٹ پتلون والوں نے کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ پھر بھی وہی جیب ہے اور عرب میں وہی گریبان ہے۔ جب عرب میں علم ریاضی کا چرچا اور علم مثلث کا یونانی سے ترجمہ ہوا تو جو خط کسی قوس یا اس کے زاویہ کا اندازہ بتائے اسے جیب کہنے لگے کیونکہ وہ بھی قوس کے لئے ایسا ہے جیسے سینہ کے لئے گریبان۔ شمع عرب میں موم کو کہتے ہیں۔ پھر موم کی شمعیں بننے لگیں۔ ان کا نام بھی شمع ہی رہا۔ فارس میں آکر چربی کے قالب میں ڈھلیں۔ یہاں شمع عام ہوگئی۔ موم کی بتی ہو خواہ چربی کی۔ عرب میں شمع وہی موم ہے۔ اسباب عربی میں جمع سبب کی ہے۔ فارسی میں اسباب خانہ داری کو کہتے ہیں۔ شراب عرب میں پینے کو اور اس چیز کو کہتے ہیں جو پینے میں آئے۔ فارس میں مرادفِ بادہ ہو گیا۔ (۱) بعض الفاظ سفر کر کے آتے ہیں اور ملک غیر میں بے عزّت ہو جاتے ہیں۔6 غلام عرب میں نو خط لڑکے کو کہتے ہیں۔ فارس میں لونڈی کا نر غلام۔ مہتر فارسی میں سردار کو کہتے ہیں۔ ہندوستان میں چوڑھا ہوگیا۔ خلفیہ کا رتبہ عرب میں نائب پیغمبر اور خلیفہ الٰہی تک پہنچا ہوا ہے۔ ہندوستان میں نائی کو کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں لفظ ایجاد نہیں ہوتے۔ نئے خیالات کے ادا کرنے میں پُرانے الفاظ مدد کرتے ہیں مثلاً، لفظ رال کا مرادف ہے۔ اب مٹی کے تیل کو بھی کہتے ہیں۔ مِداد پہلے سیاہی کو کہتے تھے، اب پنسل کو بھی کہتے ہیں۔ پہلے قلم سرمہ اور کلک فرنگی کہتے تھے یہ لفظ مر گئے۔ بوقلموں، چندسال سے فیل مرغ ( پیرو) وہاں پہنچا ہے۔ اسے بو قلموں کہتے ہیں۔ (۲) کبھی دو لفظ مرکب کرلیتے ہیں۔ مثلاً، سیب زمینی آلو کہتے ہیں۔ یہ بعینہ ترجمہ ہے پوٹے ٹو کا۔ پس معلوم ہوا کہ فرانس کے رستہ سے پہنچا ہے۔ آبجوش سوڈا واٹر کو کہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ہزاروں لفظ پیدا ہوگئے ہیں۔ (۳) کبھی مشتق کرلیتے ہیں۔ وہاں بھی اب برف کوزوں میں جماتے ہیں۔ اسے بستنی کہتے ہیں۔ (۴) کبھی جو شے آتی ہے اپنانام ساتھ لاتی ہے۔ تلگراف ایران میں تار کے پیغام کو کہتے ہیں۔ اس میں تصرف کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ہشت روز است خط نوشتہ بودم۔ جواب نیامد۔ ناچار امروز تیل زدہ ام‘‘ (آج میں نے تار دیا ہے) منات، نوٹ کو کہتے ہیں۔ روسی لفظ ہے۔ پرتغال، ایک قسم کا رنگترہ ہوتا ہے۔ اس کا پودہ پرتگال سے آیا تھا۔ وہی نام ہوگیا۔ کالسکہ، بگی کو کہتے ہیں۔ یہ بھی روسی لفظ ہے۔ ایسے سیکڑوں لفظ ایران میں زبان زد خاص و عام ہیں۔ اور اکثر چیزوں کے نام بدل گئے ہیں۔ پہلے ناموں کو سمجھو کہ مر گئے۔ چاپ چھاپے کا کام ہندوستان سے گیا۔ اسی واسطے یہ نام پایا۔ (۵) علمی الفاظ اور علمی اصطلاحیں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اکثر زندہ رہتی ہیں اور کارروائی کرتی ہیں۔ علم ہمیشہ ترقی کرتا ہے اور اصلاح پاتا ہے۔ اس لئے بعض الفاظ جلد مر جاتے ہیں۔ نئے پیدا ہو جاتے ہیں۔ آج سے ۳۰ برس پہلے کی ریاضی یا جغرافیہ کی کتاب اردو زبان میں دیکھو تو یہ تعجب جاتا رہے گا۔ (۶) خوش ایجاد نام بھی اکثر کم عمر اور نا پائیدار ہوتے ہیں۔ محمود غزنوی جب ہندوستان میں آیا اور آم کھایا تو بہت بھایا۔ مگر نام سن کر ہنسا اور کہا۔ سخت ستم ہے کہ ایسا لطیف میوہ اور نام میں یہ فحش! اسے نغزک کہنا چاہئے کہ اسم بامسمیٰ ہو۔ چنانچہ بعض فارسی کی کتابو ں میں نغزک، بعض میں انبہ لکھتے ہیں۔ امیر خسرو نے قران السعدین میں ہندوستان کےمیوؤں کی تعریف کرتے کرتے آم کے باب میں بھی چند اشعار لکھے ہیں، نغزکِ خوش مغز کن بوستاں خوب تریں میوۂ ہندوستاں نعمت خان عالی نے اپنے دوست حسن خاں کو آموں کی رسید لکھی۔ اس کی نظم میں ایک شعر ہے کہ نہیں بھولتا، انبہ فرستاد حسن خاں بمن اَنْبَتَہ اللہ نَبَاتاً حَسَنْ اکبر نے صدہا چیزوں کو ناموں کے خلعت دئے۔ کوئی باقی ہے کوئی پُرانا ہوکر پھٹ گیا۔ ایک دن اصطبل خاصہ میں گھوڑوں کے دیکھنے کو آیا۔ ہلاک خور ٹوکرے بھر بھر کر کثافتیں اٹھا رہے تھے۔ فرمایا کہ بڑی محنت کی روٹی کھاتے ہیں۔ انہیں حلال خور کہنا چاہئے۔ آج تک وہی نام چلا آتا ہے۔ ہار کو کہا کہ سنگار کی چیز اور مبارک چیز پر ہار کا نام آنا بدشگونی ہے۔ اسے پھُل مال کہا کرو۔ اور یہ سرسبز نہ ہوا۔ اسی خیال سے گھوڑے کی اندھیری کا اُجیاری نام رکھا۔ یہ پیش نہ گئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے اب ہم اندھیری کہتے ہیں اس وقت اسے بھی اندھیاری کہتے تھے۔ جہانگیر نے شراب کا نام رام رنگی رکھا، مگر رنگ نہ جما۔ جمعرات کو نام مبارک شنبہ رکھا کہ جو خوشی ہمیں ہوتی ہے اکثر اسی دن ہوتی ہے۔ پیر کا نام گم شنبہ رکھا۔ لکھتا ہے کہ مجھے جو غم یا فکر ہوتا ہے اسی دن ہوتا ہے۔ اس کا نام ایام ہفتہ سے گم ہونا چاہئے۔ محمد شاہ نے بلبل ہندوستان کا نام گلدم رکھا تھا۔ اب تک اسی طرح چلا آتا ہے۔ رنگترہ کو پہلے پہلے سنگترہ کہتے تھے۔ محمد شاہ نے کہا کہ اس لطیف میوہ کو پتھر مارنا سخت ستم ہے۔ رنگترہ کہا کرو کہ خوش رنگ بھی ہے، تروتازہ بھی ہے۔

شاہ عالم نے سُرخاب کو گلسرہ کہا مگر شہرت نے نامنظور کیا۔ کنجر اور کنجری ہندی میں زنِ رقاصہ کو کہتے تھے۔ اکبر نے ایک دن خوش ہوکر کہا کہ انہیں کنچنی کہا کرو۔ نواب سعادت علی خان نے ملائی کا نام رکھا۔ اہل لکھنؤ اب بھی بالائی کہتے ہیں۔ اور شہروں میں شہرت نہ ہوئی۔ عزیزان وطن! تم ضرور کہتے ہوگے کہ زبان کی عمر کیا؟ اور اس کی تاریخ کیا؟ یہ کچھ تعجب کی بات نہیں۔ عالم میں بہت سے ملک، بے شمار اہل ملک اور ہزاروں قومیں ہیں۔ اسی طرح زبانوں کا بھی عالم گروہ درگروہ سمجھو، کہ تھا، اور ہے، اور ہوتا رہے گا۔ جس طرح قومیں بڑھیں، چڑھیں، ڈھلیں اور فنا ہوگئیں اور ہونگی، اسی طرح زبانوں کا عالم ہے کہ اپنے الفاظ کے ساتھ آباد ہے، وہ اور ا س کے الفاظ پیدا ہوتے ہیں۔ ملک سے ملک میں سفر کرتے ہیں، حروف و حرکات اور معانی کے تغیر سے وضع بدلتے ہیں، بڑھتے ہیں، چڑھتے ہیں، ڈھلتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔ تغیراتِ مذکورہ اکثر تغیر سلطنت کے صدمہ سے ہوتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ کم ہوتے ہیں۔ پھر بھی ضرور ہوتے ہیں۔ کیونکہ عادتِ الٰہی اسی رستہ پر جاری ہے اور رہے گی اور میں عنقریب اس کی کیفیت دکھاؤں گا۔ امن و عافیت کے زمانہ میں بھی تغیر کی دستکاری الفاظ و عبارت پر اپنا کام کئے جاتی ہے۔ ان میں آفرینش، ترقی اور فنا کا عمل جاری رہتا ہے اور بہت چپکے چپکے چلتا ہے۔ لیکن اسی طاقت اور اسی انداز سے جیسے دریا کا بہاؤ یا ہوا کارُخ، جس کا پھیر کسی کے اختیار میں نہیں۔ قوم اپنے گھر میں قائم اور ملک پر برقرار ہوتا ہے۔ پھر بھی تغیر مذکور اپنا کام کئے جاتا ہے۔ نثر میں شیخ بو علی سینا کی حکمت فارسیہ وغیرہ، نظم میں دیوان شاہ ناصر خسرو، شاہنامہ وغیرہ۔ دیکھ لو، صدہا لفظ ہیں کہ اب بولنے میں نہیں آتے۔ صدہا ہیں کہ فرہنگوں میں دیکھے بغیر معنی نہیں معلوم ہوتے۔ صدہا ہیں کہ فرہنگوں میں بھی نہیں ملتے۔ اسی کو مرنا کہتے ہیں۔ جب ایک زبان کی تصانیف مختلفہ کو عہد بعہد اور سال بسال برابر سجاتے ہیں اور تغیرات مذکورہ پر نظر کرتے ہیں تو زبان کا عالم ایک سرزمین معلوم ہوتی ہے کہ فصل بہ فصل پرانے نباتات جل کر خاک ہوتے جاتے ہیں اور نئے اُگ کران کی جگہ کو ہرا کرتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ فلسفی زبان خواہ زمین کی طبیعت سے خواہ انسان کی ضروریات اور کارروائی پر نظر کر کے فقط تغیرات زبان کی تاریخ ہی نہیں جان لیتا بلکہ جس طرح ایک تجربہ کار مورخ یا سلطنت کا مدبر سابق اور موجودہ حالت کو دیکھ کر آئندہ کے واقعات پر پیش بینی کرتا ہے، یہ زبان موجودہ کے حالات پر حکم لگاتا ہے اور بتاتا ہے کہ آئندہ کس طرح اور کس انداز میں بڑھے گی یا دب جائے گی۔ چنانچہ فارسی پر ایک زمانہ میں عرب کی چڑھائی تھی، اب ممالک یورپ کا زور نظر آتا ہے۔ الفاظ جو سفر و سیاحت کر کے ملک غیر سے آتے ہیں، اور زبان میں گھر بناتے ہیں وہ اکثر تجارت کی وکالت یا قوموں کے ارتباط سے راہ پاتے ہیں۔ زبانوں میں عام دستور یہ ہے کہ بعض لباس، بعض کھانے، بعض اجناس، بعض علمی مطالب اور ان کے سامان ملک غیر سے آئے۔ وہ یا تو اپنے نام ساتھ لائے یا یہاں آکر یہیں کی زبان سے نام پائے۔ فارس میں عرب کا تسلط ہوا اور ملک، مملکت، مذہب، سکونت سب کو روک لیا کہ یہی رستے زبان کے استقلال یا انقلاب کےتھے۔ اہل ملک بہت تو مسلمان ہوگئے، بہت سے آوارہ ہوگئے اور جو بھاگنے کے قابل ہی نہ تھے، وہ گمنامی کے غاروں اور پہاڑوں میں بیٹھ رہے۔ زبان قومی کی حفاظت کون کرتا؟ علوم، فنون، کتابیں اور علمی سامان جو یونان سے پہلو مارتے تھے، اس طرح فنا ہوئے کہ نام و نشان تک نیست و نابود ہوگئے۔ پھر جو علم، ادب اور شائستگی نے رونق پھیلائی، وہ علما اور شرفائے عرب سے پھیلی۔ یا ان نو مسلموں سے جنہو ں نے عربیت اور اسلام کا جامہ پہن لیا تھا اور اسی کو فخر سمجھتے تھے۔ اقبال سلطنت ایک ایسی برکت ہے کہ جس قوم کے ماتھے کو لگ جاتا ہے، اس کی ہر چیز بلکہ بات بات دیکھنے والوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے ہزاروں فارسی کے لفظ گم ہوکر فنا ہوگئے، ہزاروں رہے، مگر بے رغبتی کے سبب بے رواج ہوکر متروک ہوگئے۔ بہت سے نئے الفاظ ہیں کہ سلاطین چغتائی کے عہد میں اشیائے مختلفہ کے لئے ہندوستان کے اہل انشا یا دربار کے اراکین نے پیدا کئے۔ یہاں کی معتبر تاریخوں میں مسلسل ہیں اور ان شعرا کے کلاموں میں منظوم ہیں جو کہ ہندوستان میں تھے یا آئے اور رہ کر چلے گئے۔ رسد جن معنوں میں بولتے ہیں ایران میں کہو تو کوئی نہ سمجھے گا۔ وہاں سورسات کہتے ہیں۔ منشی ایران میں کسی کو کہیں تو اس کے لفظی معنی (یعنی انشاپرداز) سمجھے جائیں گے اور بس۔ جسے یہاں منشی کہتے ہیں، وہاں اسے میرزا کہتے ہیں۔ تمسّک ہندوستان میں جن معنوں میں متعارف ہے ایران میں کہیں تو کوئی نہ سمجھے گا۔ رسید یہاں قبض الوصول کو کہتے ہیں۔ ایران میں کہیں تو کوئی نہیں سمجھتا۔ گاؤ تکیہ ہندوستانی فارسی ہے، ایران میں متّکا کہتے ہیں۔ روشنائی لکھنے کی سیاہی کو کہیں تو کوئی ایرانی نہیں سمجھتا۔ وہ مرکب کہتے ہیں۔ دست پناہ ہندوستانی فارسی ہے۔ وہاں آتشگیر کہتے ہیں۔ مالیدہ یا ملیدہ ہندوستان میں کہتے ہیں۔ وہاں کوئی نہیں سمجھتا۔ وہ چنگنالی کہتے ہیں۔ اسی طرح عطردان، پاندان وغیرہ وغیرہ۔ ہزاروں لفظ ہیں کہاں تک لکھوں۔ اکثر الفاظ ہیں کہ عربی، فارسی یا ہندی میں اپنے اپنے معنوں میں مستعمل تھے اور ہیں۔ ہماری آنکھوں کے دیکھتے دیکھتے انقلا ب زمانہ نے نئے خیالات پیدا کئے اور وہی الفاظ جُون بدل کر نئے معنوں کے لئے نامزد ہوئے۔ تہذیب کے معنی لغت میں ہیں پاک کردن، اصلاح کردن۔ اب سولزیشن کے معانی کی ہیئت مجموعی جو کچھ ہے تمہارے ذہن میں ہے۔ اور یہ خیال بھی انگریزی سے ہماری زبان میں آیا ہے۔ تم خود غور کر کے دیکھو! جن جن معنوں کی رعایت سے آج لفظ تہذیب بولا جاتا ہے اور اس میں کوٹ، پتلون، اور پھُندنے دار ٹوپی بھی شامل ہے، وہ حقیقی معنوں سے کس قدر علیحدہ ہیں۔ یہ خیال اور یہ لفظ دونوں ہماری آنکھوں کے سامنے پیدا ہوئے ہیں اور یہی حالت ہے شائستگی کی۔ تعلیم یافتہ کےلفظی معنی تم جانتے ہو۔ انگریز ی میں جسے ایجوکیٹڈ کہتے ہیں۔ اب ہم اسے تعلیم یافتہ کہتے ہیں، لیکن اس میں کئی صفتیں اور مقصود ہوگئی ہیں جن میں شرافت کی بربادی اور کوٹ پتلون کی فرضیت لازم کی گئی ہے، جو تعلیم یافتہ کے اصلی معنوں سے بالکل الگ ہیں۔ یہ خیال انگریزی سے آیا اور حال ہی میں یہ لفظ بھی اس کے لئے نامزد ہوا۔ بلند نظری کے لفظی معنی ظاہر ہیں، لیکن حال کی تحریروں اور انگریزی کےترجموں میں بلند نظر ایسے عالی دماغ، ہمت والے شخص کو کہتے ہیں کہ کوئی بلند رتبہ اور عمدہ حالت اس کی خاطر میں نہ آئے۔ ہمیشہ ترقی کا طالب رہے اور اس کی تحصیل میں کسی خطرناک تدبیر سے اندیشہ نہ کرے۔ یہ لفظ بھی تیس چالیس برس سے پیدا ہوا ہے۔ عزت طلب میں یہ لفظ عالم طفولیت میں اکثر شرفا کے باب میں سنا کرتا تھا۔ جو شخص کہ سامان، لباس، اخلاق، اطوار، عادات اور معاشرت احباب میں ہمیشہ ایسی حالت کے ساتھ رہے جس سے حکام اور خاص و عام اس کے ساتھ بہ عزت پیش آئیں، اسے تعریف کے ساتھ کہتے تھے کہ فلاں شخص عزت طلب آدمی ہے۔ لفظ مذکور تحریر میں داخل نہ تھا۔ اب مدت سے متروک ہے۔ ہم سے کچھ پہلے پیدا ہوا اور ہمارے سامنے مر گیا۔ وضعدار بھی ایسے ہی شخص کو کہتے تھے اور تہذیب انگریزی سے پہلے یہ الفاظ شرفا کے لئے تعریف میں داخل تھے کہ پابندی وضع لازمہ شرافت تھی۔ دلی میں اب بھی وضعداری سے بانکپن اور حسن مراد لیتے ہیں۔ اخبار جس صورت سے اب جاری ہیں پہلے یہ صورت ہی نہ تھی۔ اسی واسطے اس کے لئے نام بھی نہ تھا۔ یہ لفظ ان معنوں کے ساتھ ہندوستان میں اب پیدا ہوا ورنہ ظاہر ہے کہ اخبار جمع خبر کی ہے اور بس۔ اہل ایران نے اس کے لئے روزنامہ یا خبرنامہ پیدا کیا اور یہ مناسب تر ہے۔ صاحب لوگ عرب میں صاحب بمعنی ہم صحبت ہے۔ پھر اور لفظوں کے ساتھ مل کر فاعلیت کے معنی پیدا کرنے لگا۔ مثلاً صاحب الصولۃ والملک والدولۃ۔ فارس میں آکر صاحبِ ملک، صاحب دولت، صاحب مال رہا۔ ہندوستان میں آکر لفظ تعظیمی ہوا۔ میر صاحب، مرزا صاحب، نواب صاحب، اسّی نوّے برس سے صاحبان انگریز کے نام کا جز ہو گیا۔ پھر جو کمینہ سے کمینہ کرسٹان ہو، وہی صاحب لوگ ہوگیا۔ کوٹھی ہندوستان میں صاحب لوگ لباس تجارت میں آئے تھے۔ چونکہ تاجروں کا رہنا سہنا، ملنا جلنا، لین دین تاجروں ہی سے ہوتا تھا۔ اول اول معاملات بھی بنگالہ کے تاجروں اور مہاجنوں ہی سے ہوتے ہوں گے۔ عالم مسافرت میں انہیں نوکر چاکر درکار ہوئے ہوں گے۔ وہ بھی انہیں سے لئے ہوں گے۔ عالیشان مہاجنوں اور سوداگروں کی دکانوں کو کوٹھی کہتے ہیں۔ چونکہ صاحب لوگ لباس تجارت میں تھے، جب کسی سے ملتے جلتے ہوں گے کوٹھی پر جاکر ملتے ہوں گے۔ وہ پوچھتے ہوں گے، ’’آپ کی کوٹھی کہاں ہے؟ ‘‘ یہ پتا بتا دیتے ہوں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ کوٹھی گھر کو کہتے ہیں۔ کیونکہ مسافر تھے، ان کی دکان اور کوٹھی ایک ہی تھی۔ ان کے نوکر بھی کوٹھی ہی کہتے ہوں گے۔ کام کے موقع پر آپ کہتے ہوں گے، یہ چیز ہماری کوٹھی پر لے آؤ اور لوگ کہتے ہوں گے جاؤ، یہ چیز صاحب کی کوٹھی پر دے آؤ۔ مدت کے بعد تجارت کا پردہ اٹھا دیا۔ وہی گھر دارالحکومت ہوگئے۔ جب سے کوٹھی کا نام جو محاورہ میں آگیا تھا، وہی رہا اور یہ نیک نیتی کا پھل ہے۔ چٹّھی بنگالہ کے ہندو مسلمان خط کو چٹھی کہتے ہیں۔ ابتدا میں جب کوئی صاحب لوگوں کو کچھ لکھتا ہوگا۔ نوکر آکر کہتا ہوگا۔ صاحب یہ چٹھی آئی ہے۔ یہ بھیجتے ہوں گے تو کہتے ہوں گے۔ ’’یہ چٹھی فلانے مہاجن کو دے آؤ۔ ‘‘ ان سے باتیں کرتے ہوں گے، تو بھی چٹھی ہی کا لفظ محاورہ میں آتا ہوگا۔ صاحب لوگ اردو اور ہندی کے محاورہ سے واقف نہ تھے۔ چٹھی ہی کہتے رہے۔ آگے کے شہروں میں بڑھے۔ پھر بھی جو لفظ محاورہ میں آگیا تھا، اسی طرح رہا۔ یہاں تک کہ اب انگریزں کے خطوط اور ہر انگریزی خط کو چٹھی کہتے ہیں۔ بڑا دن دسمبر کی ۲۵؍ تاریخ کو بڑا دن کہتے ہیں، حالانکہ برس کا سب سے بڑا دن یہ نہیں۔ البتہ ۲۵ سے دن بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ لیکن محاورہ میں یہی نام ہوگیا۔ جب کہتے ہیں۔ سب سمجھ جاتے ہیں۔ ایسے ایسے ہزاروں لفظ ہیں کہاں تک لکھوں۔ زبان کا جینا اور مرنا زبان اپنے کمال جوانی اور زور زندگانی پر شمار کی جاتی ہے، جبکہ اس کے ذخیرہ میں ہر علم، ہر فن کی تصنیفات ہوں۔ اور ہر قسم کے حالات و مطالب کے ادا کرنے کے واسطے الفاظ و محاورات کے سامان حاضر ہوں۔ اس کا مضائقہ نہیں کہ الفاظ مذکورہ خاص اسی کے ملک کی آفرینش ہوں خواہ غیر ملکوں سے آئے ہوں۔ زبان کا استقلال اور آئندہ کی زندگی چار ستونوں کے استقلال پر منحصر ہے۔ (۱) قوم کا ملکی استقلال (۲) سلطنت کا اقبال (۳) اس کامذہب (۴) تعلیم و تہذیب۔ اگر یہ چاروں پاسبان پورے زوروں سے قائم ہیں تو زبان بھی زور پکڑتی جائے گی۔ ایک یا زیادہ جتنے کمزور ہوں گے اتنی ہی زبان ضعیف ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ مرجائے گی۔ مرنا اس کا یہی کہ خواص و عوام کی زبانیں اس کے بولنے سے اور قلم اس کے لکھنے سے منھ پھیر لیں۔ یعنی نہ کہیں بولی جائے، نہ اس میں تصنیف و تالیف کا رواج رہے۔ زبان کا انقلاب کلی اکثر انقلاب تاریخی سے ہوتا ہے۔ وہ طوفان اسے چاروں طرف سے تہ و بالا کردیتا ہے اور اسی میں اکثر زبانیں فنا ہو جاتی ہیں۔ میں اس موقع پر یونان اور روما کی زبانوں کے مرنے کا ذکر نہ کروں گا۔ کیونکہ میں اور میرے ہم وطن ان کے حال سے بے خبر ہیں۔ انہی چند زبانوں کا حال سناتا ہوں، جنہیں سب جانتے ہیں۔ سنسکرت کی زندگی (۱) قوم گھر میں قائم ہے اور یہ شکر کا مقام ہے۔ (۲) سلطنت کے اقبال کے ساتھ زبان کا اقبال رخصت ہوا۔ زبان کو کون سنبھالے۔ دیکھ لو تصنیف و تالیف اور زبان کی ترقی بند ہے۔ (۳) مذہب فقط گھروں میں قائم ہے۔ زبان کو زور دیتا ہے مگر بہت کم۔ (۴) قدیمی تعلیم، قومی تہذیب اور علوم و فنون بھی نہ رہے۔ پہلے صرف ضرورت وقت کے سبب سے مسلمانوں کی تعلیم و تہذیب پسند کرنی پڑی تھی، اب انگریزی ہے۔ دونئے رنگوں نے (سلطنت مغلیہ و انگلشیہ) پرانے رنگ کو مدھم کر دیا ہے۔ ان سب باتوں پر نظر کر کے دیکھ لو زبان سنسکرت کا کیا حال ہے۔ فارس کی قدیمی زبان (۱) قوم آوارہ وطن ہوکر بد حال ہوگئی۔ (۲) سلطنت نے اسے چھوڑ دیا ( مصلحت وقت نے رائج الوقت فارسی اس کے منہ میں رکھ دی۔) (۳) مذہب فقط اتنا زبان کو سنبھالے رہا کہ مرنے جینے اور ریت رسوم کے کام میں آتی ہے۔ وہ بھی اَنْ پڑھ لوگ بے سمجھے الفاظ میں کچھ کا کچھ کہہ لیتے ہیں، سمجھتے اصلاً نہیں۔ (۴) تعلیم اور تہذیب اور علومِ قدیمہ سب مٹ گئے۔ اب زبان مذکور کی حالت کو دیکھ لو کہ کیا ہے۔ ژند، پاژند، پہلوی کو کوئی جانتا بھی نہیں۔ حاشیے، (۱) یہ بھی درست ہے۔ یونان کی زبان نے فلسفہ الٰہی کو پھیلا کر خدا پرست فلاسفر کو بہشت میں پہنچایا۔ سنسکرت نے ہند میں دھرم، گیان، عرب نے معرفت الٰہی سکھایا۔ (۲) اور یہی سبب ہے کہ اگر ایک فصیح صاحب تقریر لیکچر دے رہا ہو اور تم اس پر یہ قید لگا دو کہ کسی طرح کی حرکت اعضا میں یا تغیر چہرہ میں نہ آنے پائے تو دیکھ لوگے کہ بات بھی نہ کرسکے گا۔ (۳) یہاں سے یہ ثابت ہوا کہ جس لفظ پر محاورہ کردے وہی فصیح ہے وہی درست ہے۔ صحیح لفظ ہو اور محاورہ میں نہ ہو تو ناروا ہے اگر اور کچھ نہیں تو کلام کو بدمزہ یا مکروہ ہی کردے گا۔ (۴) لغت کسی زبان کے عام الفاظ جسے ملک مذکور کے عام رہنے والے سمجھتے تھے یا سمجھے ہوں یا زبان مذکور کے جاننے والے جانتے ہوں، اسی کو کہتے ہیں کہ لفظ کے معنی قوم نے تسلیم کئے اور اصطلاح وہ ہے کہ گروہ خاص میں متعارف ہو۔ مثلاً جو بات پیل کی کشت سے ہو اسے پیلبند کہتے ہیں۔ دیکھ لو نعمت خان عالی نے وقائع میں ایک فرضی مہاجن کا معائنہ کیا ہے۔ اس کا شعر ہے، آں صورت مہابتِ پیلان مینہ پول مارا چہ پیلبند حساب و کتاب کرد جوشخص اہل شطرنج کی اصطلاح کو جانتا ہوگا وہ اس شعر کا لطف اٹھائے گا، غیر کی سمجھ میں نہ آئے گا۔ (۵) ایران میں کہتے ہیں نہار حاضر است یعنی دسترخوان پر صبح کا کھانا چنا ہوا ہے۔ آئیے نوش جان فرمائیے۔ اور ہنوز نہار نہ کردم۔ یعنی ابھی صبح کا کھانا نہیں کھایا۔ (۶) آلتہ۔ وصف کردن، شہوت، صحبت کردن، و صحبت داشتن۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.