Jump to content

فکر ہستی ہے نہ احساس اجل

From Wikisource
فکر ہستی ہے نہ احساس اجل
by ہوش بلگرامی
323404فکر ہستی ہے نہ احساس اجلہوش بلگرامی

فکر ہستی ہے نہ احساس اجل
یہ خرد ہے یا دماغوں کا خلل

زندگی بے کشمکش ملتی نہیں
آندھیوں سے کھیل طوفانوں میں چل

چھا رہی ہیں عبرتیں ہی عبرتیں
حلقۂ اوہام ہستی سے نکل

یہ محبت کی رہ‌ دشوار ہے
ڈگمگاتے ہیں قدم ناداں سنبھل

غم سے ہوتی ہے حقیقت آشکار
مضطرب موجوں میں کھلتا ہے کنول

وقت کی آواز سننا چاہئے
وقت کا فرمان ہوتا ہے اٹل

غم اگر قسمت میں ہو لکھا ہوا
ہوشؔ کام آتے نہیں سعی و عمل


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.