فکر ہستی ہے نہ احساس اجل
Appearance
فکر ہستی ہے نہ احساس اجل
یہ خرد ہے یا دماغوں کا خلل
زندگی بے کشمکش ملتی نہیں
آندھیوں سے کھیل طوفانوں میں چل
چھا رہی ہیں عبرتیں ہی عبرتیں
حلقۂ اوہام ہستی سے نکل
یہ محبت کی رہ دشوار ہے
ڈگمگاتے ہیں قدم ناداں سنبھل
غم سے ہوتی ہے حقیقت آشکار
مضطرب موجوں میں کھلتا ہے کنول
وقت کی آواز سننا چاہئے
وقت کا فرمان ہوتا ہے اٹل
غم اگر قسمت میں ہو لکھا ہوا
ہوشؔ کام آتے نہیں سعی و عمل
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |