فغان و آہ سے پیدا کیا درد جدائی کو
فغان و آہ سے پیدا کیا درد جدائی کو
غضب میں جان کو ڈالا جتا کر آشنائی کو
مٹایا پاس رسوائی سے میری آشنائی کو
بچھاؤں آپ کی عصمت کو اوڑھوں پارسائی کو
نہ آیا بعد مردن بھی لحد پر فاتحہ پڑھنے
میں اتنا بھی نہ سمجھا تھا تری ناآشنائی کو
نہ دل اپنا ہوا اپنا نہ اک بت پر ہوا قابو
کریں گے یاد کیا ہم اے خدا تیرے خدائی کو
کسی محفل میں جس دم ذکر شمع طور ہوتا ہے
دکھا دیتے ہیں وہ جل کر سر انگشت حنائی کو
فقیر بے نوا اس کے در دولت کا ہے بندہ
غنیمت جانتے ہیں شاہ تک جس کی گدائی کو
اثر پیدا کرے گی آہ اپنی یار کے دل میں
نشانے تک خدا پہنچائے گا تیر ہوائی کو
کبھی ہے فکر دنیا کی کبھی عقبیٰ کا دھڑکا ہے
اتاروں جامۂ تن سے میں کیوں کر اس دلائی کو
گریباں ہاتھ آتا ہے نہ صحرا تک پہنچتا ہوں
خدا کے واسطے دیکھو مرے بے دست و پائی کو
فلک وہ تفرقہ پرواز عالم ہے دلا سر پر
غنیمت جانتا ہوں گور تک اپنی رسائی کو
شکستہ دل ہیں ہر دم ہر گھڑی ہیں جان کے لالے
کروں کیا نوش دارو کو میں کیا لوں موسیائی کو
تمنائے دلی نے منتہیؔ کھویا مشیخت کو
ملایا خاک میں دست ہوس نے میرزائی کو
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |