Jump to content

فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے

From Wikisource
فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے
by رجب علی بیگ سرور
303723فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑےرجب علی بیگ سرور

فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے
باغباں غیب کا اس کا وہیں پھر سر توڑے

دست صیاد میں کہتی تھی یہ کل بلبل زار
کیا رہائی کا مزا ہے جو مرے پر توڑے

خاک بھی خون کی جا نکلی نہ یہاں اے پیارے
بے سبب ہائے یہ فضا دون نے نشتر توڑے

وصل کے تشنہ لبوں کو نہ ہو مایوسی کیوں
دور پر ان کے فلک ہائے جو ساغر توڑے

میرے دلبر کو ملا دے جو کوئی مجھ سے سرورؔ
ابھی دیتا ہوں زر سرخ کے ستر توڑے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.