Jump to content

فصل گل آئی ہوا اور ہوئی

From Wikisource
فصل گل آئی ہوا اور ہوئی (1933)
by منشی ٹھاکر پرساد طالب
324041فصل گل آئی ہوا اور ہوئی1933منشی ٹھاکر پرساد طالب

فصل گل آئی ہوا اور ہوئی
باغ عالم کی فضا اور ہوئی

آنکھ کا ساتھ جو سرمے نے دیا
ذبح مخلوق خدا اور ہوئی

آئنہ توڑنے سے دل ٹوٹا
بندہ پرور یہ خطا اور ہوئی

ہے تپ ہجر ملے شربت وصل
کچھ نہ ہوگا جو دوا اور ہوئی

خاک جب عاشق وحشی کو ملی
تیز رو باد صبا اور ہوئی

نزع میں پوچھنے آئے ہیں وہ حال
جب قضا آئی ادا اور ہوئی

دل کو دیکھا جو گنہ سے تاریک
روح قالب سے خفا اور ہوئی

دست قاتل کو رنگا خوں نے مرے
سرخ رو اس سے حنا اور ہوئی

قتل طالبؔ کو نظر کافی تھی
مستزاد اس پہ حیا اور ہوئی


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).