فسانۂ عجائب/وُرودِ موکبِ جاہ و جلالِ شاہ زادۂ خجستہ خِصال

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


وُرودِ موکبِ جاہ و جلالِ شاہ زادۂ خُجستہ خِصال مُتصلِ باغِ فراق دیدۂ روز گار ملکۂ مہر نگار اور بیان ملاقاتِ انجمن آرا کا، پھر نکاح ملکہ کا


مشاطۂ خامہ نے عروسِ دِل فریبِ سخن کو بہ صد زیب و زینت حجلۂ بیاں میں اس طرح جلوہ آرا کیا ہے کہ بعد قطع منازل وطّی مراحل جس روز وُرودِ لشکرِ فیروزی اثر با کر و فر ملکہ مہر نگار کے باغ سے قریب ہوا، خبرداروں نے اور اخبار کے ہرکاروں نے یہ مُژدۂ جاں بخش فوراً ملکہ کوپہنچایا کہ حُضور کی عُمر و دولت روز افزوں ہو، محکوم گردوں ہو؛ مُبارک! شاہ زادۂ جان عالم تشریف لایا۔ بس کہ غمِ مُفارقت سے تاب و تواں طاق، زندگی شاق تھی؛ سُنتے ہی مشتاق کو غش آیا، پھر سنبھل کر فرمایا: بختِ خُفتہ کب بیدار ہوتا ہے، ایسا پاؤں پھیلائے سوتا ہے! اور جو میرا دل بہلانے کو یہ کہتے ہو، تو سُن لو، مُؤلِف:

تفریح کُلفتوں کی، ترغیب ہے لا حاصل

بہلانے کی باتیں ہیں، یہ دل بھی بہلتے ہیں

چندے جو یہی لیل و نہار ہے تو قصہ، فیصلہ ہے۔ تدبیر خلافِ تقدیر سراسر بے کار ہے۔

مُؤلف:

گر اُس کے ہجر میں یوں ہی اندوہگیں رہے

تو ہوئے گا وصال، دِلا، یہ یقیں رہے


ہے احتیاط شرط کہ اس چشم تر پر، آہ!

دامن رہے رہے نہ رہے، آستیں رہے


مدفن کا اپنے ہم کو تردُد ہو کس لیے

کوچے کی تیرے، یار، سلامت زمیں رہے


تو گلشنِ وصال کی کر سیر عندلیب!

ہم خرمنِ فراق کے بس خوشہ چیں رہے


جو جو کہ انتخاب تھے صفحے پہ دہر کے

ایسے وہ مٹ گئے کہ نشاں بھی نہیں رہے


کس کی خوشی، کہاں کی ہنسی، کیسا اختلاط

ہم کو نہ چھیڑو تم کہ وہ اب ہم نہیں رہے


چھوٹا نہ نزع میں بھی خیال اُس کا اے سرورؔ

دم بھرتے ہم اُسی کا دمِ واپسیں رہے

اس عرصے میں وہی خواص دل آرام نام بارہ دری سے نیچے اُتری، پھر کہا: خُدا جانے کہاں سے یہ لشکر آ کر اس دشت میں اُترا ہے! ملکہ ہنس کر بہ حیلۂ سیر خواصوں کے کندھوں پر ہاتھ دھر، ٹھنڈی سانس بھر کوٹھے پر چڑھی۔ دیکھا تو فی الحقیقت لشکرِ بے پایاں، سپاہِ فراواں، فزوں از حدِ شُمار و بیاں ہے۔ خیامِ شاہی اِستادہ ہیں، پھرتے چلتے سوار اور پیادے ہیں۔ یکایک شہ زادہ جان عالم ، بہ چند سوار، اسپِ صرصر خرام، رخشِ تیز گام پر سوار نظر آیا؛ تاجِ سلطانی سر پر کج، شہر یاری کی سج دھج۔ یا تو اُسے نُچا کھُچا، منزلوں کا مارا، دشتِ غربت کا آوارہ دیکھا تھا؛ اب چم و خم، جاہ و حشم سے پایا؛ بدن تھرایا، اعضا اعضا میں رعشہ ہوا، یہ زُور تماشا ہوا۔ اُستاد:

آتے ہی ترے، چھُٹتا ہے رعشہ سا بدن میں

ہر چند کہ ہیں بیٹھتے ہر لحظہ سنبھل ہم


وہ زردیِ چہرۂ پُر غم مُژدۂ وصل کی سُرخی سے بدل گئی، غش سے سنبھل گئی۔ شہ زادہ گھوڑے سے اُتر کے، سیدھا ملکہ کے باپ کے پاس گیا، جھُک کر نذر دی، رسمِ سلام بجا لایا۔ اُس نے دُعائے خیر دے کر چھاتی سے لگایا، کہا: للہ الحمد تمھیں بہ صحت و عافیت اللہ نے کام یاب دکھایا۔ پھر انجمن آرا کی سواری آئی، تسلیم بجا لائی۔ پیر مرد نے فرمایا: شہ زادی! فقیر کے حال پر کرم کیا، اللہ بھلا کرے۔ اُس نے عرض کی: کنیز مُدت سے حضور کی صفت و ثنا ظِلِّ سبحانی کی زبانی سُنا کرتی تھی، آج شہ زادے کی بدولت سعادتِ آستاں بُوس سے مُشرف ہوئی۔ دو گھڑی بیٹھی، پھر التماس کیا: اگر اجازت دیجیے، ملکہ کی ملاقات سے مسرور ہوں۔ اُس حق پرست نے فرمایا: اِس کا پوچھنا کیا، بابا! بے تکلف خانہ خانۂ شماست۔ جان عالم تو رخصت ہو کے خیمے میں آیا، انجمن آرا نے ملکہ کے مکان کا رستہ لیا۔ آنے کی خبر پیش تر ملکہ کو پہنچی تھی، سامان اُس اُجڑے مکان کا درست ہو چکا تھا۔

جب سواری اُتری، لبِ فرش لینے آئی، فرّاشی سلام کیا۔ انجمن آرا نے گلے سے لگا لیا۔ ملکہ آبدیدہ ہو کر بولی: تم نے مجھے محجوب کیا۔ میں فقیر کی بیٹی، تم شاہ زادی۔ ہر چند شاہ و گدا دونوں بندۂ خُدا ہیں؛ اِلا، تمھارے قدم آنکھوں پر رکھوں تو بجا ہے، آپ کے آنے سے مجھے بڑا افتخار حاصل ہوا ہے۔ انجمن آرا بولی: ہم نے خوب کیا۔ رنڈی! یہ چُوچلے کی باتیں بیگانہ وار نہ کرتی تو کیا ہوتا! اے صاحب! ہمارے تمھارے تو رشتۂ ہمسری، سر رشتۂ برابری ہے۔ اور حساب کی راہ سے، پہلی تو ’’سلامتی سے‘‘ تمھیں ہو۔ سرکار کا اُلُش ہمیں ملا ہے، پہلے مزہ آپ نے چکھا ہے، جوبن لوٹا ہے۔ غرض کہ دو دو نوکیں ہو گئیں۔ پھر اختلاط، حرف و حکایات، رمز و کنایہ میں تمام رات بسر ہوئی۔

جس وقت عروسِ شب نے مقنعۂ مغرب میں مُنہ چھپایا اور نو شاہِ رُوز مشرق سے نکل آیا؛ انجمن آرا جان عالم کے پاس آئی، ماجرائے شب بر زباں لائی، کہا: بہ خُدا! اس خُلق و مروت، سنجید و صفت کی عورت آج تک نہ دیکھی نہ سُنی تھی۔ دوسرے دن جان عالم نے ملکہ کے باپ سے عرض کیا کہ الْکَرِیْمُ إذا وَعَدَ وَفیٰ۔ اُس سالِکِ راہِ حق نے ارشاد کیا؛ ہم اس لائق کہاں ہیں، لیکن، مصر؏:

شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را


تم قول کے پورے، اقرار کے سچے ہو۔ بسم اللہ، اپنے زُمرۂ کنیزوں میں سرفراز کرو، آبرو بخشو۔ شادی کا نام لینا، مُنہ چڑانا ہے کہ نہ اب وہ ہم ہیں، نہ ہمارا زمانہ ہے۔ آخرش بہ طورِ شرعِ شریف ملکہ کا نکاح جان عالم کے ہمراہ ہوا۔ اب یہ معمول ٹھہرا: ایک شب انجمن آرا کی، دوسری رات ملکہ کی ملاقات ٹھہری؛ مگر اُن دونوں میں وہ رہ و رسم محبت، اُلفت کی بڑھی کہ شہ زادے کی عاشقی نظر سے گر گئی، نظری ہوئی۔ اور سچ ہے: جو طرفین سے نجیب الطرفین ہوتے ہیں؛ اُن میں رشک و حسد، رنج و ملال دخل نہیں پاتا، شکوہ و شکایت لب تک نہیں آتا۔

کٹی جلی، ڈاہ، بُغض، عداوت، خواہ نخواہ کج بحثی، دانتا کل کل، رُوز کی تو تو میں میں چھوٹی اُمت پر ختم ہے۔ لاکھ طرح انھیں سمجھاؤ، نشیب و فراز دکھاؤ؛ لیکن ان لوگوں سے بے جھُونٹک جھانٹا گھڑی بھر چین سے رہا نہیں جاتا۔ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ آدمی سر پکڑ کے روتا ہے۔ دو دن ایک طرح پر صحبت بر آر نہیں آتی ہے، زندگی انسان کی تلخ ہو جاتی ہے۔ لاکھ طرح کا غم ہوتا ہے، ناک میں دم ہوتا ہے۔ مُؤلف:

عشق میں طرفین سے الفت برابر چاہیے

جو بہ دل بندہ ہو، اُس کو بندہ پرور چاہیے