فسانۂ عجائب/ناقہ بِٹھانا تقدیر کا پھر اُسی دشتِ پُر خوف و خطر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


ناقہ بِٹھانا تقدیر کا پھر اُسی دشتِ پُر خوف و خطر میں لبِ حوض خیامِ شاہی ہونا، ساحرہ کا آنا، تمام لشکر کونصف پتھر بنانا۔ پھر ملکہ کے باپ کا آنا، آفت سے چھڑانا۔ صفوف آرائیِ افواجِ شاہی۔ جادوگر اور جادو گرنیوں کی لڑائی۔ شَہپال کا قتل، لشکر کی رہائی


نظم:

نگارِندۂ داستانِ عجیب

یہ لکھتا ہے پھر ماجرائے غَریب


طِلِسمِ جہاں دید کاہے مکاں

پھنسے اِس میں رہتے ہیں پیر و جواں


و لیکن ہنسا جو کوئی غنچہ ساں

ہُوا مثلِ گُل دست بُردِ خزاں


جسے ہم نے دیکھا، وہ تھا دِل حَزیں

خوشی کی جگہ، سچ ہے، دُنیا نہیں

مُحَرّرانِ جادو نِگار و سحر ساز، راقِمانِ فَسانۂ ہوش رُبا و حیرت پَرداز نے لکھا ہے کہ جان عالم ہر صُبْح مثل مہرِ دَرَخشاں قطعِ مَنازِل و مَراحل یعنی کوچ، و ہر شام مانندِ ماہِ تاباں مقام کرتا؛ چند عرصے میں پھر اُسی دَشتِ اِدْبار و صحرائے خار خار، جہاں حَوض میں کود پڑا تھا، وارِد ہوا۔ حَوض کے متصل سَرا پردۂ خاص نَصْب ہوئے۔ گرد لشکرِ نُصرت اثر اُترا۔ انجمن آرا اور ملکہ مہر نگار کو وہ چشمہ دکھایا، ماجرائے گذشتہ زبان پر لایا۔ جب دن تمام ہوا، نمازِ شام کے واسطے جُدا خیمے میں تشریف لایا۔ بعد ادائے فریضۂ باری، راہ کے کَسَل سے لیٹنے کی تیّاری کی۔ پَلنگڑی جواہِر نِگار بچھی تھی، اُس پر اِستراحت فرمائی۔ سُستی کے باعث غُنودگی سی تھی کہ دفعتاً ایک خَواصِ خاص انجمن آرا کی بد حواس دوڑی آئی، کہا: شہ زادۂ عالم کی عُمر دراز ہو، قضا مُطیع، قَدَر دم ساز ہو، نصیبِ دُشمناں شہ زادی کی طبیعت نا ساز ہے، سب کی عقْل کو پرواز ہے۔ شدّت سے کلیجے میں درد ہوتا ہے، چھوٹا بڑا محل کا روتا ہے۔ وہ نقشِ سلیمانی اور لَوح دیجیے، دھُو کر پلا دیں۔ یا اور کوئی تَجْرِبے کی چیز عنایت ہو کہ کھلا دیں۔

عارِضۂ مِزاج مطلوب، بَد مزگیِ طبیعتِ محبوب سُن کے بے قرار ہوا۔ عقْل اُڑ گئی، حواس فرار ہوا۔ کچھ نینْد کا خُمار، کُچھ طبیعت کا اِنتشار، دیکھا نہ بھالا، نہ وقفہ کیا نہ ٹالا، لَوح و نقش حوالے کیا۔ نقش دیتے ہی نقشہ بگڑ گیا، مُقَدَّمہ سب خراب ہوا، ثواب کے بدلے عذاب ہوا۔ ایک آوازِ مُہیب پیدا ہوئی کہ اے جان عالم! بہت دِنوں اُڑا پھرا، مدّت کے بعد پھنسا، خبردار ہو جا! ایسی آواز ہولناک تھی کہ سب لشکر ڈر گیا، شُجاعوں کے دل تھرّا گئے، محل میں رنڈیوں کو غش آ گئے۔ گھبرا کر شہ زادے نے اُٹھنے کا قَصْد کیا، جگہ سے ہِلا نہ گیا۔ غور جو کیا تو آدھا جِسم پتھر کا تھا۔ پھر تو جہاں بیٹا تھا بیٹھا رہ گیا۔ جو کھڑا تھا، وہ زمین میں گڑا تھا، اَینْٹھا رہ گیا۔ ہر طرف غُل اور شُور تھا۔ جو پڑا تھا، زندہ دَر گور تھا۔ کچھ دُکھ، کُچھ ہنسی تھی۔ تمام فوج آفَتِ ناگَہانی میں پھنسی تھی۔ عجب کھل بَلی مچی، نا مَردوں کی بائی پچی۔ کل لشکر انسان سے حیوان تک نیچے کا دھَڑ پتھر کا، اوپر کا جِسم بہ دستور۔ آہ و نالہ، فریاد و بُکا سب لشکر میں بَپا تھا۔ اور محل سَرا میں بھی یہی ہنگامہ مچا تھا، ہر ایک گرفتار بلا تھا۔ وہ رنڈیوں کی زاری، انجمن آرا کی بے قراری! عَلَی الْخُصوص ملکہ کے بیان سے زمین و آسماں کانپتا تھا، جب وہ یہ کہتی تھی، شعر:

ہر دم زمانہ داغِ دگرگونہ در دہد

یک داغ نیک ناشدہ داغِ دگر دہد

تمام لشکر میں، از شام تاپگاہ، ہر ایک کے لب سے نالۂ جاں کاہ بلند رہا۔ جس وقت ماہ دمِ سرد بھرتا نقابِ سِیاہ روئے تاباں پر ڈال کر غم کدۂ مغرب کی طرف روانہ ہوا اور آفتابِ جِگر سُوختہ مشرق سے نکل کر خدنگِ آہِ بے کساں کا نشانہ ہوا، ایک ابرِ تیرہ و تار نمود ہوا۔ آدمی سب خوف زدہ دیکھنے لگے۔ اُس ابر سے اژدہا خوں خوار، شُعلہ فشاں، آتش دہاں نکلا۔ ایک رنڈی اُس پر سوار، وہ بھی آتش بار، شہ زادے کے خیمے میں اُتری۔ جان عالم نے پہچانا کہ وہی جادوگرنی ہے، دل سے کہا: شہر اپنا دور رہا، موت قریب آئی، قسمت نے کس جگہ لا کر نیرنگی دِکھائی! وہ بولی: جان عالم! کہو اب کیا قصد ہے؟ شہ زادے نے کہا: وہی جو تھا۔ اُس نے کہا: اب وہ نقشِ سلیمانی اور لوح پیر مرد کی نشانی کہاں ہے، جس کے بھروسے پر کودتے تھے! اگر زِندگی مع لشکر درکار ہو، اور دوش پر سر نہ بار ہو تو ملکہ اور انجمن آرا سے انکار کرو۔ ہماری اطاعت اور محبت مقدم جانو، جو کہیں مانو، ہم سے دار و مدار کرو۔ نہیں تو ایک دم میں سب کو بے گور و کفن، طُعمۂ زاغ و زغن کر دوں گی۔ دشت لاشوں سے بھر دوں گی۔

شہ زادے نے کہا: ہماری لوحِ دل پر نقشِ اِرادتِ باری، جو حافظِ حقیقی ہے، کِلکِ قُدرت سے مُنقش ہے۔ عادت سے مجبور ہوں، بے وفائی کے کوچے سے دور ہوں۔ جو کہا سو کہا، کیا جُو کیا۔ اگر قضا آئی ہے، مرنے سے کیا چارہ ہے؛ مگر جیتے جی بات جانی کب گوارا ہے۔ یہ سُن کر جل گئی، غُصے سے رنگت بدل گئی۔ کچھ بُڑبُڑا کر جان عالم پر پھونکا۔ یا نصف پتھر تھا، اب حلق تک ہو گیا۔ حسرت و یاس سینے میں بھری تھی، تصویرِ آزری سی پلنگڑی پر بے حس، خالی دھری تھی۔ وہ تو اژدہے پر چڑھ کر اُڑی اور پکاری: اے اجل رسیدہ! آج کے دن اور رات کی مُہلت ہے؛ اگر صُبح کو بھی انکار کیا، تو یاد رکھنا، لشکر کا خون اپنی گردن پر لیا۔ یہ سُنا وہ تو ہوا ہوئی۔

اب یہاں کا حال سُنو۔ جب تک شہ زادہ آدھا پتھر تھا، تو ملکہ اور انجمن آرا اپنے اپنے خیموں سے گھبرا کر پکارتی تھیں، جان عالم جواب دیتا تھا۔ یہی آواز کا سہارا اُن کی زیست کا سبب تھا۔ اب تا حلق پتھر ہونے سے، وہ جرسِ قافلۂ گُم کردہ راہِ دشتِ غُربت، بے صدا ہو گیا۔ وہاں صبر کا راہ بر جُدا ہو گیا۔ ہر چند دونوں چلائیں، شہ زادہ جان عالم نے مطلق جواب نہ دیا، بولا ہی نہ گیا۔ پھر تو ملکہ مہر نگار با دلِ فِگار سر پیٹ کر کہنے لگی، میر حسن:

فلک نے تو اِتنا ہنسایا نہ تھا

کہ جس کے عوض یوں رُلانے لگا

مُژدہ اے مرگِ غریبُ الوطنی! خوب حیلہ ہاتھ آیا؛ تو بدنامی سے بچی، ہم نے ناکامی میں جان دی۔ چرخِ ستم شِعار زُور رنگ لایا۔ انجمن آرا بے چاری مصیبت کی ماری سب کا مُنہ حیرت سے تکتی تھی اور رُوتی تھی۔ نہ بین کر آتے تھے، نہ غُل مچایا جاتا تھا، گھُٹ گھُٹ کر جان کھوتی تھی۔ خواصیں سر کھول کر کہتی تھیں: ہے ہے! ہم اس جنگل ویران میں لُٹ گئے، وارِث سے چھُٹ گئے۔ شعر:

تو وہ کریم ہے، ناشاد کو جو شاد کرے

مراد مند کو ہر طرح بامُراد کرے

لوگو! ہم کدھر جائیں، کیوں کر اِس بلا سے نجات پائیں! کوئی کہتی تھی: شیطان کے کان بہرے، خدا نخواستہ اگر جان عالم کے دشمنوں کا رونگٹا میلا ہُوا؛ شہ زادیاں خاک میں مل جائیں گی، غمِ جُدائی سے جانیں گنوائیں گی۔ ہم ان کے ماں باپ کو مُنہ کیا دِکھائیں گے، اِس دشتِ اِدبار میں سر ٹکرا کر مر جائیں گے۔ یہ جادوگرنی ’’قربان کی تھی‘‘ لاشوں کو گور و کفن نہ دے گی۔ اور آتو، محل دار جگر افگار سر سے چادریں پٹک، مدینے کی طرف پکار پکار یہ کہتی تھیں، شعر:

تصدُق اپنے نواسوں کا یا رسول اللہ

کہو کہ حل کریں مشکل ہماری حضرتِ شاہ

ایک طرف مُغلانیاں غم کی ماریاں دمِ گرم، آہِ سرد بھرتی تھیں۔ ایک سمت انیسیں، جلیسیں نجف کی طرف بال کھول کر اِلتِجا سے، گریہ و بُکا سے یہ عرض کرتی تھیں، شعر:

تم نے مدد کر نوح کی طوفاں سے کشتی پار کی

یا مُرتضیٰ مشکل کُشا! کیوں بار میری بار کی

کوئی کہتی تھی: ہمارا لشکر اِس بلا سے جو نکلے گا، تو مُشکل کُشا کا کھڑا دونا دوں گی۔ کوئی بولی: میں سہ ماہی کے روزے رکھوں گی، کونڈے بھروں گی، صحنک کھِلاؤں گی، دودھ کے کوزے بچوں کو پلاؤں گی۔ کسی نے کہا: میں اگر جیتی چھٹی، جنابِ عباس کی درگاہ جاؤں گی۔ سقائے سکینہ کا علم چڑھاؤں گی۔ چہل مِنبری کر کے نذرِ حسین سبیل پِلاؤں گی۔

غرض کہ لشکر سے زیادہ خیموں میں تلاطُم پڑا تھا۔ صدائے حزیں، نالۂ ہر غمگیں سے ہنگامۂ محشر بپا تھا۔ اتفاقاً ایک شاگرد ملکہ کے باپ کا رشید، فنِ سحر میں دید نہ شنید اُس مردِ بزرگ کی ملاقات کو بہ روئے ہوا اُڑا جاتا تھا۔ یہ نالۂ بلند، صدائے ہر درد مند اُس کے کان میں جو پہنچی، زمین کا مُتوجِہ ہوا۔ دیکھا تو ایک لشکرِ عظیم بہ حالِ سقیم سحر کا مبتلا ہے، شُور و غُل ہو رہا ہے۔ جب قریب تر آیا، طُرفہ ماجرا نظر آیا کہ انسان سے تا جانور سب آدھے پتھر ہیں۔ سمجھا سحر شہپال میں خراب حال ہیں۔ لوگوں سے پوچھا: یہ ستم رسیدہ لشکر کس کا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے یہ حال بنایا ہے؟ وہ ملکہ مہر نگار کے ملازم تھے، اپنا حال سب نے بیان کیا۔ جب اُسے یہ امر معلوم ہوا کہ اُستاد زادی کی خانہ بربادی ہے اور شہپال کی بیٹی کو مسرت ہے، شادی ہے؛ درِ خیمۂ ملکہ پر آیا، سر پیٹا، چِلایا۔ ملکہ نے آواز پہچانی، کہا: بھائی! اِس وقت پردہ کہاں کا! یہاں آ کے بِالمُشافہہ ہمارا عذاب اور حالِ خراب دیکھو۔ وہ اندر آیا، ملکہ کو بھی اُسی عالم میں پایا۔ اُس نے فرمایا: عداوتِ ساحرہ سے ہمارا قافلہ تباہ ہے۔ وہ عرض کرنے لگا: فِدوی کو اُس کی ہمسری کی طاقت نہیں اور وقفہ کم، صبح سب کارخانہ درہم و برہم ہو جائے گا۔ بجُز آپ کے والدِ بزرگوار کے تشریف لائے یہ بلا ٹلتی نہیں، خادم کی یہاں دال گلتی نہیں۔ لو خُدا حافِظ و ناصِر ہے! یہ کہہ کر بہ حالِ خستہ و تباہ، لب پر نالہ و آہ، اِس تیز قدم سے چلا کہ ادہمِ صبا کی ڈپٹ ہر قدم نثار تھی، ٹھوکروں میں صر صر بے قرار تھی۔ پہر بھر میں واردِ باغ ہوا: گُل سا چاک گریباں، شبنم نمط اشک رواں، غنچے کی صفت گاہ خموش، بلبل کے ڈھنگ سے گاہ نالے کو جوش و خروش۔ پیر مرد نے فرمایا: خیر ہے! اُس نے شِمّہ گرفتاریِ جان عالم ، ملکہ کی بے قراری، انجمن آرا کا الم، لشکر کا حالِ بَتَر کہہ کر عرض کی: جلد چلیے؛ اگر شام تک نہ پہنچے، وہاں صُبح ہے۔ دمِ سحر ملکُ الموت کا بازار گرم ہو گا، ارمان سب دل میں رہے گا، کُشتُوں کو عالم بے والی و وارِث کہے گا۔ کوئی گور و کفن نہ پائے گا، خاتمہ بالخیر ہو جائے گا۔ پیر مرد نے آہِ سرد بھر کر فرمایا: افسوس! شہ زادے کو سب کچھ سمجھایا تھا مگر عمل میں نہ لایا۔ میر سوزؔ:

ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا

پڑ گئی اور یہ کیسی مرے اللہ، نئی

اُسی دم شاہینِ تیز پرواز پر سوار ہوا، مغرب کی نماز لشکر میں داخل ہو کر پڑھی۔ پہلے جان عالم کے خیمے میں آیا، حال دیکھ کر سخت گھبرایا۔ پھر انجمن آرا کی جا کر تسکین کی، وہ رونے لگی۔ وہاں سے ملکہ کے پاس آ کے فرمایا: تمھاری بدبختی نے ہماری وضع میں فرق ڈالا، برسوں کے بعد باغ سے نکالا۔ ملکہ نے رو کر عرض کی: یہ وقتِ تدبیر ہے نہ ہنگامِ تعذیر؛ بعد رِہائی اِس آفتِ سماوی کے جو چاہنا فرمانا۔

القِصہ مجبور و ناچار وہ عارِفِ باوقار شہ زادے کے خیمے کے نزدیک دور تک حِصار کھینچ کر بیٹھا۔ یہ مردِ بزرگ، نیک صِفات، فنِ سحر کے سِوا، عامِل اِسمِ ذات کا تھا؛ کچھ پڑھنے لگا۔ کبھی مُناجات بہ درگاہِ مُجیبُ الدعوات کرتا کہ اے یاورِ زِیر دشان و سرفِرُو کُنندۂ گردن کشاں! اِس بوڑھے کی شرم تیرے ہاتھ ہے۔ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں، اخیر وقت کا تو حافظ و نگہباں ہے۔ مجھ پر جو مشکل ہے، تیرے رو بہ رو آساں ہے۔ سفید ڈاڑھی کو بد نامی کے وسمے سے نہ رنگانا۔ تیرہ بختی کا دھبا بہ ایں ریشِ سفید نہ لگانا۔

شعر:

مشکل،ز توجہِ تو آساں

آساں، زتغافلِ تو مشکل

جب کہ سجادہ نشینِ چرخِ اول با مجمع مُریدانِ کواکِب حُجرۂ مغرب میں روپُوش ہوا، اور ساحرِ فلکِ چہارُم پُر شوکت و با حشم طلسمِ مشرق سے نمودار با جُوش و خرُوش ہوا، اور وہ عبادت گُزار پیرِ جواں مرد شب زِندہ دار وظائِفِ صُبح سے فرصت پا چکا؛ یکایک وہ نابکار شیطان صفت، ناپاک عورت اژدہے پر سوار، بہ چشمِ خوں خوار عزمِ قتلِ جان عالم ، اور لشکر میں تنہا آئی۔ پہلے ملکہ کے باپ پاس گئی، آنکھیں لال لال، طیش کمال اور بہ آوازِ کرخت وہ نگوں بخت پکاری اے مردِ پیر، سُست تدبیر! تیری اجل بھی دامن گیر ہو کر، کشاں کشاں اِس دشتِ جاں فشاں میں لائی! مجھے شرم آتی ہے کہ تو پیرِ نود سالہ ہو چکا ہے، بے مارے مر رہا ہے، تیرے قتل میں بد نامی چھُٹ فائدہ کیا ہے۔ جدھر سے آیا ہے، سیدھا چلا جا۔ میں بہ یک نگاہِ کج نشانِ لشکر اِس صفحۂ زمیں سے مِثلِ حرفِ غلط کا ردِ سحر سے مٹائے دیتی ہوں۔

مردِ بزرگ نے آشُفتہ ہو کر فرمایا: اے ننگِ فِرقۂ بنی آدم، مردودِ عالم! تجھے جُوشِ شہوت، ولولۂ مُباشرت نے آمادۂ قتلِ ہزار ہا بندۂ اللہ، بے جُرم و گناہ، کیا۔ میں مرگِ عزیزاں دیکھوں، مرنے سے ڈروں! بہ قول تیرے: آج نہ مُوا، کل مر جاؤں گا؛ یہاں سے جو چلا گیا، خلق کو مُنہ کیا دکھاؤں گا! ہم چشموں سے ناحق آنکھ چھپانی پڑے گی! تو بد بخت مجھ سے کیا لڑے گی! یہ سُن کر وہ فاحِشہ جھلا، آستین چڑھا سحر کی نیرنگیاں دکھانے لگی۔ ان کی بھی دُعا کی تاثیر سِپر بن کے، اُس کا سحر اُس پر ڈھال، رنگ مٹانے لگی۔ صبح سے پہر دن باقی رہا، کوئی دقیقہ طرفین سے نہ باقی رہا۔ طول اِس مقام کا بے جا تھا، اِسی کلمے پر تمام کیا کہ جب وہ عاجز ہوئی، تب سحر کی طاقت سے شِیر کی صورت بنائی۔ پیر مرد بھی اسدُ اللہِ الغالِب کو یاد کر، وہ مُہیب ببر بنا اوراِس طرح للکار کر گونجا کہ جنگل کے چار پائے نعرے کے خوف سے دریا میں گرے اور پانی کے جانور خشکی میں چھپتے پھرے۔

کچھ دیر اِس ہیئت میں لڑائی، زُور آزمائی رہی۔ آخر کار وہ رُو باہ خِصال، اُس ہِزَبرِ نیستانِ شجاعت کی تاب نہ لائی، گیڈر بھبکی دِکھائی اور عُقاب بن کر اُڑ چلی۔ وہ شاہینِ اوجِ دِلیری سُوچا: بے گرفتاریِ طائرِ مطلب، یعنی اِس ڈھڈو کے، لشکر جنجال سے نہ نکلے گا؛ اِسی طرح یہ پھٹکی پھٹکی ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گی۔ بلا سے کچھ ہو، اِسے پھنساؤ۔ زُور میں کم پایا تھا؛ فوراً بازِ تیز پرواز ہو کے، اس سناٹے سے چنگلِ آہنی میں اُسے دبوچا، ایسا نوچا کہ اُس کی جان سنسنا گئی۔ بھاگتے وقت رِجالُ الغیب سامنے تھا، موت پنجے جھاڑ کے پیچھے پڑی۔ بہت تڑپی، پنجۂ قضا سے نہ چھُٹ سکی۔ اُسی کشمکش، اینچا کھینچی میں مُرغِ روح اُس کا مجروح، قفسِ تن سے اُڑ کر آشیانۂ جہنم میں پہنچا۔ غُلغُلۂ حشر، شورِ نُشور اُس صحرا میں نزدیک و دور مچا، ہر طرف سے دارو گیر کی صدا آئی۔ آسمان چکر میں آیا، زمین تھرائی، دشت تیرہ و مُکدر ہوا، آندھی چلی، سحر کا کارخانہ اُڑ گیا، ابتر ہوا۔ قریبِ شام وہ سیاہی موقوف ہوئی، خورشید نے رُخِ انور دکھایا، اپنا بے گانہ نظر آیا۔ جان عالم گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ اہلِ لشکر نے رِہائی، از سرِ نو زِندگی پائی۔

جان عالم خیمے سے نکل، نادِم و خجِل، پیر مرد کی خدمت میں حاضرہوا۔ سب نے دیکھا: دور حِصار میں ایک رنڈی، اسی نوے برس کا سِن، ضُعف کا زُور شُور، بُڑھاپے کے دن۔ قد خمیدہ جیسے چڑھی کمان۔ مرنے پر لیس، مُنہ اُترا، آنکھیں تودۂ طوفان۔ جسم کساہر پٹھا در پئے ژولیدگی گھُنی ہوئی رگیں صاف نظر آتی تھیں۔ ہڈیاں پسلیاں بوسیدہ جِلد کے باہر سے گِنی جاتی تھیں۔ دُرجِ دہاں بے دُرِ دنداں، حُقۂ خالی کی طرح وا۔ ڈاڑھ، دانت کے نام سے مُنہ میں خاک نہیں، بھاڑ سا کھُلا۔ نیلے نیلے مسوڑھے سڑے۔ تالو توے کا پتا؛ جیب جھُلسی، چھالے پڑے۔ ہاتھ دہنا برگد کا ٹہنا۔ بایاں جو زمین پر ڈالا تھا، وہ ساکھو کا ڈالا تھا۔ سینۂ پُر کینہ تنگ۔ چھاتیوں کے تِکّے تُکّے کی صورت لٹکتے، دمِ رفتار ٹانگوں میں اٹکتے۔ پیٹ کے لپیٹ کی انتہا نہیں، بے خاکِ گور کبھی بھرا نہیں۔ دل پہاڑ کی سِل۔ گُردہ توپ کا مُقابل۔ بغلوں سے کیچڑ بہتی۔ ناف جیسے گھنٹا بیگ کی گڑھیّا۔ ٹانگ ہر ایک تاڑ سے بڑی۔ کھڑی ہو تو سقفِ بے سُتوں کی اڑواڑ ہو، گُنبدِ چرخ کی پاڑ ہو۔ پھیلائے پڑی تھی، گویا پتھورا کے محل کی کڑی تھی۔ ہڈی سے گوشت، گوشت سے کھال جُدا۔ پیر زال، فرہاد کُش بُڑھیا۔ چہرے کا یہ رنگ کہ سِلہٹ کی سِپر کا اُس کے رو بہ رو مُنہ سفید ہو جائے، شبِ فرقت کی سیاہی میں کالی بلا سی نظر آئے۔ کھُونبڑ کا وہ ڈھنگ کہ سب کہتے تھے: بیچا ہے، لڑکوں کو نہ ڈرائے۔ ماتھے پر سیندور کا ٹیکا دور سے نظر پڑتا اور سفید چُونڈا چنور کی طرح لٹکتا۔ سیاہی کا دھبا بجُز تیرہ بختی کہیں نہ دیکھا۔ ایسے سر کی مانگ میں بھی مانگ جانچ سِیندور بھرا۔ بالوں میں ناریل کا تیل۔ پھٹے پھٹے دیدوں میں ندیدوں کی طرح کاجل ریل پیل۔ گہنے کے عوض سانپ بچھو لپیٹے، کھوپڑی اور ہڈیوں کے ہار گلے میں پڑے، سحر کا سنگار وہ نابکار کیے، پُشت بہ بہشت روئے نحس سوئے جہنم، چت پڑی تھی۔ قد کا ڈول سب سے نرالا، عوج بن عُنُق کی سگی خالہ۔ یہ دیکھ کے، شہ زادہ پیر مرد کو ساتھ لے کے محل سرا کے خیمے میں آیا۔ شہ زادیوں نے جان پائی، جلیسوں کے مُنہ پر رونق آئی۔ خواصوں نے شُکرِ جنابِ باری کیا۔ ماما، اصیلوں نے پیر مرد کے قدم پر گر کر عرض کیا، مصر؏:

اے آمدنت باعثِ آبادیِ ما

اُس بزرگ نے فرمایا: ابھی اِس معرکے سے نجات نہیں ہوئی، آفتِ عظیم کا سامنا باقی ہے۔ جان عالم نے پوچھا: قبلہ! وہ کیا ہے؟ اُس نے فرمایا: اِس کا باپ شہنشاہِ جادُواں ہے؛ کوئی دم میں ضرور آئے گا، بکھیڑا مچائے گا۔ ملکہ مہر نگار مُضطرب ہوئی۔ پیر مرد نے فرمایا: اللہ یار ہے، وہ کیا نابکار ہے۔ مصر؏:

دشمن اگر قویست، نگہباں قوی تراست

یہ کہہ کر دو ماش چپ و راست پھینکے۔ دو جانور نئی صورت کے پیدا ہوئے: ہرن کے چہرے، طاؤس کا دھڑ، یاقوت کے سینگ، الماس کی آنکھیں، زمرد کے پر۔ اور دو ٹھیکریوں پر کچھ لکھ کر اُن کے سامنے رکھا۔ وہ ہر ایک پنجے میں دبا اُڑ گیا۔

وہ رات بھی بیم و ہراس میں گُزری۔ جس وقت ساحِرِ شب گشت عاملِ صُبح کی آمد کے دبدبے سے بھاگا؛ ہوا تُند چلی، برق چمکی، رعد کی آواز ہوئی۔ اہل لشکر ڈر گئے۔ مثلِ مشہور: مارگزیدہ از ریسمانِ پیچیدہ می ترسد۔ پیر مرد کے گرد سب جمع ہوئے، کہ ایک سمت سے غول کے غول، غٹ کے غٹ جادوگروں کے جھٹ پٹ؛ باز، جُرّے، باشے، بھُجنگے پر ننگے دھڑنگے سوار، قطار قطار آئے۔ میدان میں مُرشِدِ کامل نے ان کا پرا جمایا۔ دوسری جانب سے جادوگرنیاں طاؤس اور ناگنوں پر سوار، آتش بازی کے حُقے اُڑاتی، ناریل اُچھالتی؛ اِکتارے چھِڑتے، بادلے کی جھنڈیا کھُلی، ہوا سے اُڑتی ہوئیں؛ آپس میں چھیڑ چھاڑ، سحر آزمائیاں، ہاتھوں کی صفائیاں ہوتی، لڑائی کے عزم پر ہر ہر کرتی موجود ہوئیں؛ اُسی پرے کے مُقابل ٹھہریں۔

انھیں دیکھ کے جان عالم کا جی کُلبُلایا، فوج کے سرداروں کو بلایا، فرمایا: گو آج دغدغۂ کامل ہے؛ اگر فضلِ الٰہی شامل ہے تو یہ جلسہ اور معرکہ دیکھنے کے قابل ہے۔ زندگی ہے تو ایسا روز کبھی کاہے کو نظر سے گزرے گا، وگرنہ مرگِ انبوہ جشنے دارد۔ ہماری فوج بھی چمک دمک سے صف آرا ہو، اسباب نیا سب نکالو۔ یہ خبر سُن کر پہلے بیلدار نکلے۔ پست و بلند زمین ہموار کر، کنکر پتھر چُن کر، جھاڑی جھُنڈی کاٹ دالی، جھاڑی ہوئی زمین صاف برابر نکالی۔ پلٹنوں کی خاطر مورچے درست کیے، توپوں کے لیے دمدمے باندھے، جھانکی لگائی۔ کہیں سُرنگ کا پوشیدہ رنگ جمایا، باروت کو بچھایا، میدانِ جنگی بنایا۔ پھر سقے آب پاشی کر گئے۔ توپ خانے والے بالچُوں میں پانی بھر گئے۔

فوج کی آمد ہوئی۔ صفِ کارزار، موت کا بازار آراستہ ہوا۔ راس و چپ پانچ پانچ سے ہاتھی مست؛ پٹے سونڈوں میں، گُل کاری بھسونڈوں میں۔ دانت سفید، آب دار، اُن پر چوڑی جواہر نگار چڑھی۔ ایک ایک پہلوان ثانیِ رستمِ دستاں؛ قوی ہیکل، زِرہ پُوش؛ گُرزِگراں، کُوہ شکن بردُوش اُن پر سوار۔ پھر پلٹنیں اور توپ خانہ آیا، انھیں قرینے سے جمایا۔ کیا کیا توپ فلک شکُوہ، شعلہ دہاں، آتش فشاں؛ سورج جھنکار اور نانک متے کے پتے کی، گردونِ گرداں پر چوٹ کرنے والی، غضب سے بھری، ترحُم سے خالی۔ مدد کو ہُوٹ، کُوسوں کی چوٹ کی۔ اور وہ غُباری، جس کا گولہ قصرِ زنگاری میں اُتارے۔ پھر سواروں کے پرے میں میمنہ، میسرہ، قلب و جناح، ساقہ و کمیں گاہ درست کر دیا۔ آگے ہراول۔ پیچھے سواروں کے پیدل فوجوں کے دل۔

نقیب چار سو سے نکلے؛ کلے سے کلہ، کنوتی سے کنوتی، پُٹھے سے پُٹھا، دُم سے دُم، سُم سے سُم مِلا دیا۔ نشان برداروں نے علمِ سبز و سُرخِ زر افشاں کو جلوہ دیا۔ سرِ ہر علم ماہیِ پرچم کی چمک چشمِ دِلاوراں میں بادۂ جرات کا کام کر گئی۔ نامردوں کو ہول ہوئی، بھاگنے کی فکر پڑی، پیٹ میں کھلبل مچی۔ کتنوں کی، چلتے چلتے گانڑ چلی۔ دریائے فوجِ ظفر موج موج زن ہوا۔ حشر کا میدان رن ہوا۔ غُرِّشِ کُوسِ حربی، صدائے نقار خانۂ جنگی چرخ پر بُرجِ ثور تک، زِیر زمیں گاوِ ثریٰ کو پہنچی۔ اور صدمۂ دمامۂ تُندَر نِہیب، آوازِ دُہُلِ گوش فریب سے کُرۂ ارض و سما دہل گیا۔ اور کرنائے چینی نے غِرِیو سے صور کی ہمدمی کا دم بھرا۔ اِذا زُلزِلتِ الارضُ زِلزَالھَا کا وقت قریب آیا۔

جان عالم بھی بہ صد جاہ و حشم اسپِ پری پیکر پر جلوہ گر ہوا۔ چترِ زرنگار بالائے سر، تاجِ شہر یاری کج کر کر، شمشیرِ برق دم زِیبِ کمر، فولادی سِپر پُشت پر۔ دہنے ہاتھ میں نیزۂ اژدہا پیکر، دو زباں۔ بائیں ہاتھ میں مرکبِ رشکِ صرصر کی عِناں۔ فتح و نُصرت جِلو میں، اقبال یاور تگ و دو میں۔ ہمت و غیرت دست بستہ بہم، جرات زِیرِ قدم۔ قربوسِ زیں میں کمانِ کیانی، چہرے پر رُعب و جلالِ کشور ستانی۔ سمندِ صبا دم کو گرم عناں، رخشِ تیز قدم کو جولاں کر کے پرے کے برابر باگ لی۔ چاؤشِ طرار ’’خبردار باش‘‘ للکارا۔ مِریخ سا خنجر گُذار، بالائے چرخ ’’الاماں‘‘ پکارا۔ فوج کو ملاحظہ فرمایا۔ کڑکیتُوں نے کڑکا شُروع کیا۔ نقیبوں نے نہیب دی کہ دِلاورو! آج عرصۂ جنگ جگہ نام و ننگ کی ہے۔ دُنیا میں زِندگی چار دِن ہے۔ لڑنے بھِڑنے کا، نوجوانو یہی سِن ہے۔ کسی کو بقا بجُز ذاتِ خدا نہیں۔ ہمیشہ دُنیا میں کوئی جیتا رہا نہیں۔ شعر:

رستم رہا زمین پہ نہ سام رہ گیا

مردوں کا آسماں کے تلے نام رہ گیا

اِس صدا سے، جو سدا کے بہادُر، صاحِبِ جرات تھے؛ اُن کا دریائے شجاعت سینے میں موج زن ہوا۔ موچھیں کھڑی، آنکھیں سُرخ، چہرے بشاش ہو گئے۔ بسانِ شِیر وہ دلیر قبضہ ہائے شمشیر دیکھنے لگے اور چُست و چالاک ہو کر مُستعِدِ کارزار ہوئے، جاں فِشانی کو تیار ہوئے۔ ہر دم باہم یہ اِختِلاط تھا: دیکھیں، آج تلوار کس کی خوب کاٹتی ہے! کس کس کا لہو چاٹتی ہے! پہلے نیزہ کس کا سینۂ عدو پر چلتا ہے! اور نیزے کی طعن پر کون کون چھاتی تانتا ہے، لوہا کون مانتا ہے! کس کے تیر کے نشانے سے خون کا فُوارہ اُچھلتا ہے! آبِ پیکاں سرِ میداں دُشمن کے حلق میں کون اُتارتا ہے! سرِ پیکاں کس کا تالبِ سوفار سُرخ رو ہوتا ہے! کس کو کون للکار کر، ڈانٹ کر مارتا ہے، ددا کو کون پکارتا ہے! عرصۂ کارزار میں حقِ نمک آقا کا ادا کیجیے، دشمنوں کا لہو پیجیے۔ جب بِگڑے تو وہ کام بنے جس سے رُستم کی گور تھرائے، سام و نریمان کا رنگ فق ہو جائے۔ کُوہ کو پرِکاہ کی طرح اُکھاڑے۔ دیو سامنے آ جائے تو پچھاڑے۔ رئیسِ قدر داں سرِ میداں سر گرمِ نظارہ ہے؛ دیکھیے کون کام کاہے، کون ناکارہ ہے! کس کے ہاتھ کھیت رہتا ہے، کون کون کھیت رہتا ہے! من چلا پن کر لو، زرِ سُرخ و سفید سے سِپریں بھر لو۔ آج ہی تو آن بان ہے۔ یہ گو، یہ میدان ہے۔

ڈھِل گنڈُوں کا ’’لا حول ولا‘‘ عجب ڈول ہوا کہ ہول سے چہرے زرد، لب پر آہ، سرد۔ مُنہ پر ہوائیاں اُڑتی تھیں، ہر بار بھاگنے کو باگیں مُڑتی تھیں۔ کھڑے ہوئے اپنے مُنہ نُوچتے تھے، بھاگنے کی راہ سُوچتے تھے۔ پیٹ پکڑے پھرتے تھے، دست سرِ دست چلے آتے تھے۔ ڈر کے مارے بے مارے مُوئے جاتے تھے۔ کوئی کہتا تھا: میاں! جی ہے تو جہان ہے۔ نوکری نہ ملے گی، بھیک مانگ کھائیں گے، جانیں کہاں پائیں گے! حُرمت گئی تو گئی، جوتی پیزار سے، جان تو رہے گی، لہو کی ندی بدن سے نہ بہے گی۔ یہی نا کوئی نامرد کہے گا، آبرو جائے گی؛ جی تو رہے گا۔ یہاں بگڑی، اور کہیں بنا لیں گے۔ تیر تلوار کی گولی بچا کر، گالیاں کھا لیں گے۔ لڑنے کو سپاہیوں نے کمریں باندھی ہیں؛ کوسنے کو ہم موجود ہیں، کوسوں بھاگنے کو آندھی ہیں۔ جوکیں لگانے میں، ہمارے ماں باپ بھنگ پلاتے تھے، معجون کھِلاتے تھے۔ کسی کی فصد کھُلی دیکھ کر ہمیں غش آتے تھے۔ ہم تو دوست ہو یا دشمن، دونوں کی خیر مانگنے والے ہیں۔ سب سے پہلے معرکے سے بھاگنے والے ہیں۔ ہمیشہ گالی گلوچ کو خانہ جنگی، دھول دھپے کو میدان داری سمجھے۔ لڑائی بھِڑائی سے کبھی بھِڑکے نہ نکلے۔ تمام عُمر بدن میں سوئی نہ گڑی۔ یہ سر وہ سِپر ہے جس پر جوتے کے سوا کوئی چیز نہیں پڑی۔ بے غیرتی کا بھلا ہو، جس کے صدقے میں آج تک جان سلامت رہی۔ اِس پر بھی قسمت نے یہ روزِ سیاہ دِکھایا! خُدا نے ہمیں ہیجڑا کیوں نہ بنایا!

فوج میں تو اِس طرح کی کھلبل، ہَلچل مچی تھی؛ اُدھر انجمن آرا اور ملکہ مہر نگار نے ایک اونچا ٹیکرا تجویز کر، خیمہ بَیا کیا۔ چِلمن چھوڑ آ بیٹھیں، سَیر دیکھنے لگیں۔ اِس عرصے میں لشکرِ غنیم کی آمد ہوئی، یعنی شَہپال جادو سیاہ رو نَو لاکھ ساحر کا پَرا ہمراہ رکاب شِکست انتساب لے کر، تخت پر سوار، چالیس اَژدَرِ خوں خوار تخت اُٹھائے، شعلے نکلتے، بھاڑ سا مُنہ ہر ایک پھیلائے، بڑے کَرّ و فَر سے آیا۔ فوجِ بے قِیاس وہ خُدا نا شَناس لایا اور سامنے جوانانِ تہمتن و گُردانِ صَف شِکَن کے اپنا پَرا جمایا۔ پھر عَلَم کالے آگے نکالے اور پَرچَمِ سیاہ ہَم صورتِ بخت اُس گم راہ کے، کھلے۔ دَف و نَے اور جھانجھ بجنے لگے، اِدھر کوس و کور گرجنے لگے۔ دونوں لشکر لڑائی پر تُلے۔ وزیر اُس کا کچھ پیام پہلے پیر مرد کے پاس لایا، دَستِ ادب باندھ کر عرض کی: اِیلچی کو زَوال نہیں، زیادہ گوئی کی مجال نہیں، شہپال نے فرمایا ہے؛ تمھارا جینا مرنا برابر ہے کہ گرم و سردِ زمانہ دیکھ کر عُمرِ طَبعی کو پہنچے؛ مگر اِن نَوجوانوں پر، اپنے بے گانوں پر رحم نہ کیا۔ اِن کے خون کا حساب اپنے اعمال کی کتاب پر لِکھوایا، بوجھ اپنے ذِمّے لیا۔ پیر مردِ خوش تقریر نے فرمایا: اُس اَجَل رَسیدہ پیرِ نابالغ سے کہنا: طَرفَین سے جس کا خون زمین پر بہے گا؛ اُس کا مَظلِمَہ مُواخَذہ؛ تیری بیٹی جو فاحِشَہ تھی، اُس کی گردن پر رہے گا۔ ہم سمجھتے تھے وہی نَنگِ خانداں تھی؛ لیکن اب معلوم ہوا: وہی زمین سے اُگتا ہے، جو بُوتے ہیں، اَیسوں کے وَیسے ہی ہوتے ہیں۔ تجھے سفید ڈاڑھی کی شَرم نہ آئی کہ وہ مَری، تیرا کلنک کا ٹیکا مِٹا۔

تو تو اُس سے زیادہ بے حیا، سِیہ قلب نکلا۔ یہ مَقامِ رَزم ہے جائے نیزہ و شمشیر، یا بَزم ہے جو محلِ تقریر ہو؟ گفتگو بے فائدہ ہے، لا طائِل باتوں سے کیا حاصل۔ جو منظور ہو، بِسمِ اللہ، اُس میں دیر نہ کر۔ دیکھیں آج کس کے حصّے میں تخت و تاج ہوتا ہے اور گور و کفن کو کون محتاج ہوتا ہے!

وزیر محجوب پھرا، شہپال سے سب حال کہا۔ پھر تو وہ کافِرِ غَدّار، گَبرِ ناہنجار مِثلِ مارِ دُم بُریدہ بَرخود پیچیدہ ہو، شُعلۂ غَضَب سے وہ ناری جَل گیا۔ چہرے کا رنگ گرگٹ کی طرح بدل گیا۔ پہلے تو آپ حُقّۂ آتشی پیر مرد پر مارا، پھر لشکر کے سرداروں کو، جادوگر ناہنجاروں کو للکارا۔ دوپہر تک عجیب و غریب سحر سازی، ہَنگامہ پَردازی، جادوگر اور جادوگرنیوں کی لڑائی رہی کہ دیکھی نہ سُنی۔ کسی نے کسی کو جَلایا، کسی نے بُجھایا۔ کسی سنگ دل نے پتھر برسائے، سب کچھ سحر کے نَیرنگ دکھائے۔

آخِر کار جب جادوگری ختم ہوئی، لڑائی کی نوبت بہ گُرز و شمشیر و نیزہ و تیر آئی؛ پھر تو شہ زادہ جان عالم کی بَن آئی، باگ اُٹھائی۔ فوجِ جَرّارِ غازِیانِ نام دار خبردار ہوئی، سِپاہ مانندِ اَبر چار سمت سے گھر آئی۔ صف کی صف دھَر دھَمکی، برقِ شمشیر چمکی۔ پہلوانوں کے نعرے نے رَعد کا کام کیا۔ خوب لُوہا برسا، بوند بھر پانی کو ہر ایک زخمی ترسا۔ یہ سب تازہ دم، وہ دوپَہَر کے شَل؛ سیکڑوں ٹاپُوں میں کُچل گئے، گھوڑوں کی جھپٹ میں کھُندَل گئے۔ شمشیرِ صاعِقہ خِصالِ جان عالم کا یہ حال تھا: جس کے سر پر پڑی، خود و سَر اُس خود سَر کا کاٹا۔ حلق میں قطرۂ سیماب کی طرح اُتر، سینۂ پُر کینہ کا لہو چاٹا۔ وہی سر جو پناہِ خود میں تھا، پلک جھپکی تو گود میں تھا۔ پھر گھوڑے کے تَنگ سے چُست گُزر، زَخم کُشادہ کر، خانۂ زیں سے زمین میں قرار لیا۔ سَرِ بالیں اُس کے قضا کو روتے دیکھا، اُسے خوابِ مرگ میں پاؤں پھیلائے سُوتے دیکھا۔ مَلَکُ الموت کی صدا آئی: وہ مار لیا۔ جس پر لَپَک کر ایک وار کیا، دو کیا؛ دو کو چار کیا۔۔ حَوَاسِ خَمسَہ کسی کے درست نہ تھے، ششدر ہو گئے۔ ساتوں طَبَق زمین کے تھرّائے، آسمان کو چکّر ہوا، مُردے قبروں سے چَونک کے باہَر نکل آئے۔ جُو اَٹکا، اُسے مار لیا، بھاگتے کا پیچھا نہ کیا۔

گھڑی بھر میں خون کا دریا بہہ گیا۔ لاشوں کا اَنبار رہ گیا۔ کاسۂ سَر حبابِ دریا کی طرح بہتے نظر آتے تھے۔ مَوجِ خوں میں دھَڑ، دھَڑا دھَڑ غُوطے کھاتے تھے۔ دشمنوں کی کشتیِ زیست طوفانی تھی، آبِ تیغ کی طُغیانی تھی۔ فوجِ عَدو کا زِندَگی سے دل سِیراب اور اُچاٹ تھا۔ لہو لُہان ہر تلوار کا گھاٹ تھا۔ کوسوں تک لاشے پَٹے تھے، یہ پاٹ تھا۔ آخِر کار فوج کو شکست ہوئی۔ شہپال کو مارا، سر اُس خود سَر کا مِثلِ خِیارِ تَر اُتارا۔ سِپاہِ باقی ماندہ اُس تِیرَہ بخت، نِگو نسار کی فَرار ہوئی، زِندَگی دشوار ہوئی۔ پھر تو غازِیانِ فتح نصیب و جادُوانِ مُہیب لوٹ پر ٹوٹ پڑے۔ سب کچھ لوٹا، ساز و سامان اُن کا ذرّہ نہ چھوٹا۔

اِدھر نشان کھلے، شادِیانے بجے۔ وہ سب چادر پھراتے، ماتم کرتے، گرِیباں چاک، سَرو رو آغشتَۂ خاک، دَمِ سرد بھرتے، جس کا مُنہ جدھر اُٹھا، بھاگ نکلے۔ میدان کُشتُوں سے اَٹ گیا۔ جنگل لاشوں سے پَٹ گیا۔ آج تک طُعمۂ زاغ و زَغَن اُسی بَن سے ہے۔ صحرائی دَرِندوں کے خوب پیٹ بھرے؛ بلکہ جانوروں کی دعوتوں کو، گوشت کے مُچّے قیمہ کیے اُٹھا رکھے۔ بہت ہَیضہ کر کر مرے۔ وہ سَر زمیں، قَلعَہ، خَزانہ جانِ و الم کے قبضے میں آیا۔ بڑی جستجو، تَگاپو سے وہ لَوح اور نقش پایا۔ پیر مرد رخصت ہوا اور جتنے مَدارِج پند و نصیحت تھے، مُکرّر سمجھائے۔ راہ کا خَطَر، مصیبتِ سفر، ہر منزل و مَقام کا نَفع و ضَرَر کہہ کر، کہا: میری جان! اب ایسی حرکت، وہ سامان نہ کرنا جو پھر کوئی روزِ سیاہ دشمنوں کے سامنے آئے، دوستوں سے دیکھا نہ جائے۔ ہم سے باغ چھوٹے، کوہ الم ٹوٹے، لو اللہ حافِظ و ناصِر رہے! رسول اُس کا تمھارا مددگار و یاوَر رہے!