فسانۂ عجائب/رخصت ہونا جان عالم کا ملکہ نگار سے
رخصت ہونا جان عالم کا ملکہ نگار سے اور پہنچنا ملک زرنگار، مملکتِ دلدار کا۔ ملاقات خواجہ سرا کی، دریافت ہونا حال پر ملال جادوگر کا، پھر اس کو قتل کر کے لانا اس ماہ پیکر کا
بیت:
یہاں کا تو قصہ یہ چھوڑا یہاں
سنو پھر اسی غم زدے کا بیاں
طلسم کشایانِ گنجینۂ سخن، فخر سامری و رہ نوردان اقلیم حکایت کہن، مشّاق جادو و شعبدہ گری؛ رسّامانِ جفاکش و محنت کشیدہ؛ سحر سازانِ سخن سنج، دریں سرائے سہ پنج روئے راحت نہ دیدہ؛ گوسالۂ سخن کو دَیرِ خراب آباد میں یوں گویا کرتے ہیں کہ ملکہ مہر نگار کے باغ سے چالیس منزل ملک زرنگار، کشور آفت روزگار تھا۔ شہ زادہ دل از کف دادہ، یکہ و تنہا، صعوبت سفر کا مبتلا، پاؤں میں چھالے، لب پر آہ و نالے، گرتا پڑتا، کئی مہینے کے بعد اس زمین خجستہ آئیں میں پہنچا اور جو جو پتے توتے نے بتائے تھے، وہ سب اس جوار میں پائے۔ واقعی عجب نواح شگفتہ و شاداب، ہر سمت چشمہ ہائے آب۔ جنگل سب سبزہ زار، گل بوٹے خود رو کی انوکھی بہار۔ ہوا فرحت انگیز، بو باس مشک بیز، جنوں خیز۔ جان عالم خوش و خرم جلد جلد قدم اٹھاتا چلا جاتا تھا۔
ایک روز دو چار گھڑی دن رہے، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شے مثل آفتاب، بہ صد آب و تاب شمال کی سمت یہ درخشاں ہے کہ نگاہ نہیں ٹھہرتی، عقل حیراں ہے۔ دل سے کہا، آثار حشر نمود ہوئے۔ یہ کیا قیامت ہے، ہم مشاہدہ جمال جاناں سے محروم رہے۔ مشرق و مغرب کو چھوڑ، سورج شمال کی طرف جا نکلا۔
افسوس، صَد افسوس! اب تک نہ دل کا مُدّعا نکلا، جب قریب پہنچا، دیکھا تو دروازہ ہے عالی شان، سَر بہ اوج فلک کشیدہ، دیدۂ روزگار نہ دیدہ۔ بس کہ مطلّا ہے اور لعل و یاقوت اس کثرت سے جڑے ہیں کہ جوہریِ وہم و گماں حیراں کھڑے ہیں۔ شعاعِ آفتاب سے یک رنگیِ خورشید حاصل ہے۔ شرمندہ اس کے رو برو بدرِ کامل ہے۔ یقین ہوا، اب برسر مطلب پہنچا۔ یہ وہی دروازہ ہے باب امید، جس کا ذکروہ سرخ رو، زمرد لباس کرتا تھا۔ سجدۂ شکر بہ درگاہِ منزل رسانِ راہ گم کردگاں کیا اور خوش ہو کر دوڑا۔ فرد:
وعدہِ وصل چوں شود نزدیک
آتشِ شوق تیز تر گردد
غرض اُفتاں و خیزاں درِشہر پناہ پر آیا۔ دروازۂ جواہرنگار رفعتِ فلک دکھاتا، دیوار و در جگمگاتا، بلّور کی اینٹیں، یاقوت کی تحریر، ہر خشت مصفی و مطلا، بہشت کی طرح وا۔ حصن حصیں بہ صد فرّ و تمکیں بنا۔ جا بجا برج۔ برنجی و آہنیں ڈھلی ہوئی توپیں چڑھیں۔ گولنداز جوان جوان، بنفشئی بادلے کے دَگلے پہنے، گلنار اک پیچے سجے، چست و چالاک توپوں کے بائیں دہنے ٹہل رہے۔ زمین و آسمان ان کی ہیبت سے دہل رہے۔ گلی کوچے صاف، خس نہ خاشاک، کثافت سے پاک۔ دروازے پر پانچ ہزار سوار، لاکھ پیادے، کچھ جا بہ جا چوکی پہرے پر، کچھ جنگ کے آمادے۔ چھاؤنی کے طور لینیں بنیں۔ پیدل بگڑے دل جو تھے، ان کی چھولداریاں تنیں۔
جان عالم نے ان سے پوچھا: اس شہر کا نام کیا ہے اور حاکم یہاں کا کون ذی احترام ہے؟ انھوں نے دیکھا: اک جوان سرو قامت، قمر طلعت، خُسوف سفر، خاک رہ گذر میں نہاں ہے؛ مگر دبدبۂ شوکت و صولت، نشانِ جُرات چہرۂ انور سے عیاں ہے۔ وہ خود کہنے لگے: آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ شہزادے نے کہا: بھائی! سوال دیگر، جواب دیگر۔ آخر ایک شخص نے کہا: اس ملک کو زرنگار کہتے ہیں، بڑی چمک دمک کے لوگ اس میں رہتے ہیں۔ سنتے ہی چہرہ بشاشت سے کندن کی طرح دمکنے لگا۔ جو ریت کا ذرہ تھا، افشاں کی صورت منہ پر چمکنے لگا۔ دل سے کہا: یہ خواب ہے یا بیداری! طالعِ گردش دہ سے امیدِ یاری و مددگاری نہ تھی۔ ایسی قسمت رہ بر ہماری نہ تھی۔ پھر کچھ نہ پوچھا، یہ کہتا چلا، مولف:
للہ الحمد ٹھکانے لگی محنت میری
طے ہوئی آج کی منزل میں مسافت میری
دروازے سے آگے بڑھا، شہر دیکھا قطع دار، ہموار، قرینے سے بازار۔ کُرسی ہر دکان کی کمر برابر۔ مکان ایک سے ایک بہتر و برتر۔ بیچ میں نہر، جا بجا فوارے۔ سب عمارات شہر پناہ کے میل کی، جواہر نگار، سانچے کی ڈھلی۔ ہاتھ کا کام معلوم نہ ہوتا تھا، کام اس کا معمارِ عقل کے ہوش کھوتا تھا۔ نہ کہیں بلندی نہ پستی، ہموار بَسی ہوئی بستی۔ ایک کا جواب دوسری طرف۔ اِدھر بَزاز، تو اُدھر بھی۔ صَرّاف کے مُقابِل صَرّاف۔ بازار کا صحن نفیس، شفّاف۔ جوہری کے روبہ رو جوہری۔ زَر و جواہِر کا ہر سمت ڈھیر۔ نَقد و جِنس سے ہر شخص سیر۔ کوئی شَے، کسی طرح کا اسباب ایسا نہ تھا کہ اس بازار میں نہ تھا۔ مغرب و مشرق کی اَشیائے نادِرہ کا ہر جا انبار تھا۔ جنوب و شمال کا خریدار تھا۔ حلوائی، نان بائی، کنجڑے، قَصائی۔ سَقُّوں کے کٹوروں کی جھنکار۔ میوہ فروشوں کی پُکار۔ دَلّالوں کی بول چال۔ جہان کا اسباب و مال۔ نہر کی کیفیت جُدا، قَدِّ آدم آبِ مُصفّیٰ۔ فواروں سے کیوڑا، گلاب اُچھلتا؛ بازار مہک رہا، مسافر ہر ایک بہک رہا۔ ہر طَرَف دھوم دھام، خَلقَت کا اِزدِحام۔ چلنے پھرنے والوں کے کپڑے، لتّے ہوئے جاتے تھے۔ وہم و گُماں کشمکش سے بار پاتے تھے۔
جان عالم قُدرتِ حق دیکھتا جاتا تھا، ہوش بَر جا نہ آتا تھا۔ دل سے کہتا تھا: اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیر۔ کیا ملک، کیا سلطنت، کیا شہر و بازار ہے! کیا بیوپاری ہیں، کیسا کیسا خریدار ہے! ہر شخص کو آرام و راحت ہے، کیا بَندوبست با انتظام ہے، کیا حکومت ہے! جب چوک میں آیا، پوچھا: اَیوانِ جہاں پناہ، دَولت سراے شاہ کی کدھر راہ ہے؟ لوگوں نے کہا: دَستِ راست سیدھے چلے جائیے۔ پیاس لگی ہو تو شربت حاضر ہے۔ بھوک ہو تو جس شَے پر رغبت ہو، کھائیے۔ مَدِّ نظر مسافر نوازی ہے، جو چیز ہے گرما گرم، تازی ہے۔ اَلغَرض بازار طے کر قریبِ عِماراتِ بادشاہی جب آیا، اُن مکانوں کو نِرا طلسم پایا۔ عقل کام نہ کرتی تھی۔ ہر کُنگرہ ایوانِ فلک سے اونچا۔ برج ہر ایک جہاں نما، خورشید سا چمکتا۔ لیکن جو لوگ درباری یا ملازم سرکاری آتے جاتے دیکھے، سب سیاہ پوش، خُم خانۂ الم کے جُرعہ نوش۔ اس کا ما تھا ٹھنکا، پاؤں ہر ایک کئی من کا ہو گیا۔ ہر شخص کا منہ تکتا تھا، قدم اٹھ نہ سکتا تھا، گویا سکتہ تھا۔ کہتا: خدا خیر کرے! شگون بد ہے، دل کو بے قراری ازحد ہے۔ چند قدم اور بڑھا۔ سواری کا سامان سامنے آیا ’’بچو، بڑھائیو‘‘ کا شور بلند پایا۔ دیکھا: ایک خواجہ سرا پُرانا، زیرک و دانا، محبوب علی خان نام، نواب ناظرِ سَرا پردۂ شاہی با احترام؛ وہ بھی باخاطر حزیں، غمگیں، سیہ پوش، حواس باختہ، ہوش فراموش، اندوہ یاد، رنج سے ہم آغوش۔
جان عالم نے سلام کیا۔ وہ جواب دے کر شہزادے کو دیکھنے لگا، حیران و ششدر متحیر سا؛ اور سواری روکی، کہا: سبحان اللہ و بحمدہ! کیا تیری قدرت کی شان ہے! جنس بشر میں کس کس طرح کا پری پیکر خلق کیا ہے کہ چشم کوتاب جمال، زبان کو صفت کی مجال نہیں۔ نہایت متوجہ ہو کر پوچھا کہ اے شمشادِ نو رُستہ چمنِ جہاں بانی و سروِ نوخیزِ بوستانِ سلطنت و حکم رانی! حضور کہاں سے رونق بخش اس شہر نحوست اثر کے ہوئے؟
شہ زادے نے کہا: میاں صاحب، خیر ہے! ہم فقط اس شہر اور یہاں کے شہریار کے شوق دید میں وطن سے بعید ہو، خستہ و خراب، با دِل مضطر و جان بے تاب یہاں پہنچے ہیں۔ برائے خدا، یہاں کی نحوست، اپنی سیہ پوشی کی علت بیان کیجیے۔ خواجہ سرا نے یہ سُن کر نعرہ مارا، بے چَین ہو کر پکارا کہ اے جوانِ رَعنا! تو نے یہ قِصّہ سنا ہو گا: زینت تختِ سلطنت، رونقِ شہر، موجِدِ آبادی، صاحبِ جاہ و حشمت، مالکِ عِفّت و عصمت انجمن آرا یہاں کی شہزادی تھی۔ شہرۂ جمال بے مِثال اس حور طَلعَت، پری خِصال کا اَز شَرق تا غرب اور جنوب سے شِمال تک زبان زَد خلقِ خُدا تھا۔ اور ایک جہان حُسن کا بیان سُن کر، نادیدَہ اُس کا مبتلا تھا۔ آج تک چشم و گوشِ چَرخِ کج رفتار نے، بہ ایں گردشِ لیل و نَہار، ایسی صورت دیکھی نہ سُنی تھی۔ مُرقّعِ دَہر سے وہ تصویر چُنی تھی۔ بہت سے شاہ اور شَہْریار، اُس کے وادیِ طَلَب میں قدم رکھ کر تھوڑے عرصے میں آوارۂ دَشْتِ اِدْبار، پتھروں سر مار مار، مصر؏:
رہ رَوِ اِقلیمِ عَدَم ہو گئے
اب پانچ چار روز سے ہمارے طالعِ بیدار جاگتے جاگتے دفعتاً سو گئے۔ ایک ساحِرِ مکّار، جفا کار، بہ زُورِ سحر اُسے محل سے اُٹھا لے گیا۔ داغِ غمِ فرقت دے گیا۔ ہنوز یہ جُملۂ غم نا تمام تھا کہ جان عالم کا کام تمام ہوا۔ آہِ سرد کھینچ کر بہ حالِ خستہ و پریشاں، مثالِ قالبِ بے جاں زمین پر گر کے بہ حسرت و یاس پُکارا، شعر:
جی کی جی ہی میں رہی، بات نہ ہونے پائی
حیف ہے، اُس سے ملاقات نہ ہونے پائی
اے گردونِ جفا پَرداز و اے فلکِ عَربَدہ جو! یہ کیا تیری خُو ہے! اِتنی دور لا کر ناکام رکّھا۔ مُؤلِّف:
عشرت کدے جہاں میں ہوئے سیکڑوں، وَلے
اک دِل ہمارا تھا کہ وہ ماتم سرا رہا
تاثیرِ آہ دیکھی، نہ گریے میں کچھ اثر
ناحق مَیں اِس اُمّید پہ کرتا بُکا رہا
کیا دیکھتا ہے سینے کو میرے تو اے سُرورؔ
جُز یادِ یار، اِس میں نہیں دوسرا رہا
شعر:
یہ کہ کر وہ اس طرح غش کر گیا
کہے تو کہ جیتے ہی جی مر گیا
خواجہ سَرا سخت گھبرایا، سمجھا: یہ شخص بھی گرفتارِ مُحبّت، اَسیرِ دامِ اُلفت اُسی کاہے۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی، دفعتاً خبر بَد سُنانی نہ تھی، آفت اِس کی جان پر جان کر لانی نہ تھی۔ ہر چند گلاب، کیوڑا چھڑکا، ہوش نہ آیا۔ بد حواس، بادشاہ کے حُضور میں حاضر ہوا، رو کر عرض کی: آج ماتَمِ انجمن آرا تازہ ہوا۔ بادشاہ نے فرمایا: کیا ماجرا ہے؟ اُس نے عرض کی: کسی مُلک کا شہزادہ اُس کی محبّت میں سلطنت سے ہاتھ اُٹھا، فقیرانہ سج بنا یہاں تک پہنچا ہے۔ مجھ سے جادوگر کے اُٹھالے جانے کی خبر سُن کر، آہ کھینچ زمین پر گرا ہے۔ اب تک ہوش نہیں آیا تھا۔ عجب صدمہ دِل پر دھَر گیا ہے! خدا جانے جیتا ہے یا مر گیا ہے! خلق کا اَنبُوہ اُس کے سر پر ہے، بازار لوگوں کی کثرت سے بھر گیا ہے۔ کیا عرض کروں! غلام کی نظر سے اِس سج دھَج کا پری پَیکر آج تک اَز قسم بَشَر نہیں گُزرا۔ اگر اِن دونوں کی صورت آئینۂ چشم میں بَہَم نظر آتی، قِرانُ السَّعدَین کی کیفیت کھل جاتی۔ جو حُضور ملاحظہ فرمائیں گے، شہ زادی کو بھول جائیں گے۔
بس کہ بادشاہ غمِ مُفارَقَت انجمن آرا سے بے قرار تھا، اَرکانِ سلطنت سے کہا: جلد جاؤ، جس طرح ہو اُسے لاؤ۔ لوگ دَوڑے، مُردے کی صورت اُٹھا لے گئے۔ اِس عرصے میں شام ہوئی۔ بادشاہ نے ہاتھ مُنْہ دھُلوا، بِید مُشک چھڑکا، کیوڑا مُنْہ میں چُوایا، لخلخہ سنگھایا۔ جان عالم کو ہوش آیا، گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ دیکھا: ایک شخص تاجِ خُسروانہ بَر سَر، چار قُبِ ملوکانہ دَر بَر، سِن رَسیدہ، لیل و نَہار دیدَہ، بڑے کَرّ و فر سے تخت پر جلوہ گر ہے اور چار ہزار غلامِ زَرّیں کمر با شمشیر و خنجر، اُوپچی بنا، دَست بستہ رو بہ رو کھڑا ہے۔ گرد امیر، وزیر، سپہ سالار، پہلوان، گُردانِ گَردن کَش، ایک سے ایک بہتر جوان اپنے اپنے قَرینے سے زِیب دہِ کُرسی و دَنگل ہے۔ تہمتنوں کا جنگل ہے۔ جان عالم اُٹھا، بہ طَورِ شاہ و شَہْریار و شہ زادہ ہائے عالی تَبار رسمِ سلام بجا لایا۔ سب تعظیم کو اُٹھے۔ بادشاہ نے گلے لگا پاس بِٹھایا۔ جب سے بادشاہ کی نظر پڑی تھی، مَحْوِ حُسن دل فَریب، مَفتُونِ چہرۂ مِہر وَش و صورتِ پُر زِیب ہو گیا تھا۔ اور حُضّارِ مجلس بھی سب دنگ تھے، سَکتے کے ڈھنگ تھے۔ سب کو صدمۂ تازہ یہ ہوا کہ ایسا وارثِ تاج و تخت ہاتھ آئے اور محروم پھر جائے۔ اُس وقت کا رنج و قَلَق شہ زادے کا کوئی فراق کَشیدَہ سمجھے، بقول مرزا حسین بیگ صاحب، شعر:
حسرت پر اُس مسافرِ بے کس کی روئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے
مگر باعثِ شرم و حیا کہ لازِمۂ شُرفا و نُجَبا ہے، خاموش، سینے میں غم کا جوش و خَروش۔ بادشاہ نے اِستفسارِ وطن اور نامِ جَدّ و آبا کیا۔ یہاں فرطِ اَلَم، کثرتِ غم سے گلا گھٹ رہا تھا، مگر ضبط کو کام کر کے حسب و نَسَب اور مُلک کا پتا بتایا۔ پھر سر جھکا شہ زادی کا حال پوچھا۔
بادشاہ نے فرمایا: اے گرامی اخترِ سپہرِ شَہریاری! مُدّت سے ایک جادوگر اِس فکر میں تھا۔ یہاں بہ مرتبہ نگہبانی ہوتی تھی، لیکن وہ دھُوکا دے کر لے گیا۔ آج تک محل میں نہیں گیا ہوں۔ وہ محل، جو عِشرت کَدَۂ خاص تھا، ماتَم سرائے عام ہے۔ ہر سو شُورِ رِقّت، ہر سمت نالۂ پُر آفت بلند ہے۔ کھانا پانی حرام، چھوٹا بڑا مبتلائے آلام ہے۔ جان عالم نے کہا: کچھ یہ بھی ثابِت ہوا کہ کدھر لے گیا۔ بادشاہ نے فرمایا: پانچ کُوس تک پتا ملتا ہے۔ آگے قلعہ ہے سر بہ فلک کشیدہ، آگ سب بھری ہے، شُعلہ سرگرم تا چَرخِ چَنبری ہے اور انگاروں کا اَنبار تا کُرۂ نار ہے۔ وہاں کا حال نہیں کھلتا ہے، عقل بے کار ہے؛ مگر قَرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سحر کا کارخانہ ہے۔ آگ کا بہانہ ہے، ہمیں سُلگا کے جلانا ہے۔ شہ زادے نے کہا: خیر۔ اگر حَیاتِ مُستَعار باقی ہے، بہ مددِ ایزَد کہاں جانے پاتا ہے؛ اُس ملعون کو جہنّم واصل کر کے، شہ زادی کو فدوی زندہ لاتا ہے۔
یہ کہہ کر اُٹھا کہ قبلہ، خُدا حافظ! بادشاہ لپٹ گیا، کہا: بابا! خُدا کے واسطے اِس خیالِ مُحال سے در گُزر۔ طائرِ خیال کے اُس دَشت میں پَر جَلتے ہیں۔ پیکِ صبا کے پاؤں میں چھالے نکلتے ہیں۔ دوسرے، مجھے مُفارَقَت تیری کب گوارا ہے۔ ایک کو دھوکے میں کھویا، تجھے دیدہ و دانستہ جانے دینے کا کہاں یارا ہے۔ ایسی آفت میں تجھ سے جوان کو جانے دوں! بُڑھاپے میں بدنامی لوں! سلطنت حاضر ہے، بِسْمِ اللہ حکم رانی کر۔ میں ضعیف ہوں، گوشے میں بیٹھ اللہ اللہ کروں۔ شہزادے نے عرض کی: یہ تخت و سلطنت حُضور کو مُبارَک رہے۔ بندہ آوارہ خانُماں، ننگِ خانداں، گھر کی حکومت و ثَروَت چھوڑ، عزیزوں سے مُنہ موڑ، خراب و خستہ، سر گَرداں در در حیران و پریشان ہو یہاں تک پہنچا، اب یہ کلمہ ہَتک اور ذِلّت کا سُننے کو جیتا رہوں، مُلک بیگانے میں بادشاہت کروں۔ لوگ کہیں: جادوگر تو شہ زادی کو لے گیا؛ یہ شخص بے غَیرت تھا، جیتا رہا، سلطنت کرنے لگا۔ جواں مردی سے بعید ہے۔ عاشق کو معشوق کی راہ میں جان دینا عید ہے۔ لا اَعْلَم:
تا سَر ندہم، پا نکشم از سَرِ کویش
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد
پَگ آگے، پَت رہے اور پَگ پاچھے، پَت جائے۔ قَدَمِ عشق پیشتر بہتر۔ جس مددگار نے ہزار بلا سے بچا کے یہاں تک زندہ و سالِم پہنچایا ہے وہی وہاں سے بھی مُظفّر و منصور آپ سے ملائے گا۔ نہیں تو یہ صورتِ نحس لوگوں کو دکھانی کیا ضرور ہے۔ گو بَشَر مجبور ہے؛ لیکن اِس زیست سے آدمی مرنا گوارا کرے، بے مَوت مرے۔ پہلے جب عقل و عشق سے معرکہ اَٹکا تھا، میرا دل کھٹکا تھا۔ عَقْل کہتی تھی: ماں باپ کی مُفارَقَت اختیار نہ کرو، سلطنت سی شَے نہ چھوڑو۔ عشق کہتا تھا: ماں باپ کس کے! آزاد ہو، بادشاہت کیسی! سَر رشتۂ اُلفتِ غیر توڑو۔ کوچۂ دل دار کی گدائی، سلطنتِ ہَفت اِقلیم ہے، اگر مُیسّر آئے۔ بے یار خدا کسی کی صورت نہ دِکھائے۔ عقل کہتی تھی: آبرو کا پاس کرو، ننگِ خانداں نہ ہو۔ غریبُ الوَطَنی سے عار کرو، صحرا نَوَردی نہ اِختیار کرو۔ عشق کہتا تھا: یار کے ملنے میں عزّت ہے، بادِیَہ پَیمائی میں بہار ہے۔ تَشنۂ خونِ آبلہ پا مُدّت سے صحرا کا خار ہے۔ عقل کہتی تھی: یہ لباسِ شاہی، قبائے فرماں رَوائی چاک نہیں کرتے۔ دانِش مند جادَۂ راستی سے خلاف قدم نہیں دھَرتے۔ عشق کہتا تھا: لباس عُریانی ہے۔ عقل دیوانی ہے۔ یہ وہ جامہ ہے جسے اِحتیاجِ شست و شو نہیں۔ کیسی ہاتھا پائی ہو، چاک نہ ہو، کسی آلائش سے نا پاک نہ ہو؛ اَصْلا کارِ سُوزَن و رَفو نہیں۔ نہ بار برداری اِس کو چاہیے، نہ چور کا ڈر، نہ راہ زَن سے خَطَر ہے۔ پانی سے بھیگے نہ آگ سے جلے، سڑے نہ گلے، گلے سے کبھی جدا نہ ہو۔ نہ بند بندھے، نہ واہو۔ نہ کوئی اِس کو لے سکے، نہ خود کسی کو دے سکے۔ نہ دستِ وحشت میں اِس کا تار آئے، نہ اِس کے دامن تک سرِ خار آئے۔ نہ اِس کا جسم لاغَر پر بوجھ ہو، نہ کسی کے بدن پر بار ہے۔ مسافرِ صحرائے مُحبّت کو یہی درکار ہے۔ آتشؔ:
تن کی عُریانی سے بہتر نہیں دُنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا
آخرِ کار بہ صَد تکرار عقل کو شِکستِ فاش ہوئی، کوچۂ دِلبر کی تلاش ہوئی۔ نام سے نفرت، ننگ سے تنگ ہو، نشانِ ہوش و حواس مِٹایا۔ سلسلۂ دیوانگی ہاتھ آیا۔ طبیعت عشق کی محکوم ہوئی۔ وحشت کی ترقی میں سر اور پتھر کا مقابلہ ہوا، لڑکوں کی دھوم ہوئی۔ دامانِ غیرت، گریبانِ حیا چاک ہوا۔ ننگ و ناموس کا قصّہ بکھیڑا پاک ہوا۔ ایک پرندہ، کہ توتا تھا، رَہ بَر و مددگار ہوا۔ دوسرا دَوِنْدہ، وہ وزیر زادہ تھا، تنہائی میں غم گُسار ہوا۔ پھر تو سلطنت اور وطن چھوڑ، عزیز اور یگانوں سے رشتہ محبّت تُوڑ، رہ نَوَردِ بادیۂ حرماں اور گام فرسائے دشت اِدبار ہوا؛ لیکن اُن کا ساتھ بھی نہ سزا وار ہوا، فلک دَر پئے آزار ہوا۔ پہلی بسم اللہ یہ غلط ہوئی کہ منزلِ اوّل میں توتا اُڑ گیا۔ وزیر زادہ ہِرَن کے ملنے سے چھٹ گیا۔ وہ جو اَثاث ظاہِر کی دل لگی کا تھا، لُٹ گیا۔ تنہائی ہمراہ ہوئی۔ مُمِدّ دَمِ گرم سرد آہ ہوئی۔ کچھ دنوں کے بعد طلسم میں پھنسایا۔ ہمیں رُلا کے دشمنوں کو ہنسایا۔ تھوڑی سی آفت اُٹھا کے رِہائی پائی۔ سمت مطلوب کی راہ ہاتھ آئی؛ مگر نہ سنگِ نِشاں دیکھا، نہ میل نظر آیا۔ نہ گَردِ کارواں دیکھی، نہ صدائے زَنگ و جَرس سُنی۔ نہ راہ بَر ملا، نہ کفیل نظر آیا۔ سواری چھٹی، پِیادہ پائی ملی، فکرِ غیر سے رِہائی ملی۔
جب اِس منزل میں حضرتِ عشق نے آزمایا، باوُجودِ آبلہ پائی اور خَلِشِ خارِ صحرا ثابِت قدم پایا؛ دوسرے مَرحَلے میں امتحان مَدِّ نظر ہوا، پریوں کے اَکھاڑے میں گُزر ہوا۔ ایک مَہ سیما کو اِس جانِب مَیلان ہوا، پھر وہی عیش و نشاط کا سامان ہوا۔ بہت سے نیرنگ دِکھائے، ہر شب عجب دن آگے آئے۔ لِہِٰس الحمد کہ شیشۂ عِصمت سنگِ ہَوا و ہَوَس سے سالِم رہا۔ وحشتِ دل کا بہ دستور عالَم رہا۔ رخصت میں مصلحت جانی، جوان و پیر کی بات نہ مانی۔ اب گھر پہنچ کر دھوکا کھانا، جان بوجھ کر بھول جانا کِس مِلّت میں روا ہے؟ یہ نرا وَسْوَسَہ ہے۔ مجھ سے وحشیِ بے خود سے ایسی ہوشیاری دور ہے۔ جیتے جی مرگ منظور ہے۔
اِس گفتگو کی خبر محل میں پہنچی کہ آج اِس طرح کا مَہ جَبیں، حَسیں، انجمن آرا کا عاشق وارِد ہوا تھا، وہ بھی حَرارَتِ مُحبّت سے اُسی آگ میں جلنے جاتا ہے۔ جو دیکھتا ہے آنسو بہاتا ہے۔ انجمن آرا کی ماں دَرِ دَولت سَرا پر چلی آئی۔ خواجہ سَرا دوڑے، بادشاہ سے عرض کی: جلد شہ زادے کو لے کر محل میں رونق فرما ہو جیے۔ بادشاہ جان عالم کو ہمراہ لے آرام گاہ میں تشریف لایا۔ وہ بھی ہزار جان سے نِثار ہو، دیر تک پروانہ وار اُس شمع انجمنِ سلطنت کے گرد پھری۔ رنڈیوں نے گھیر لیا، سب کو قَلَق ہوا۔
غرض کہ بہ ہزار سَعی بادشاہ نے بہ منّت صُبح کی رُخصت پر اُس شب روکا۔ پَہَر بجے خاصَہ طلب ہوا۔ شہ زادے نے اِنکار کیا۔ وہی نوّاب ناظِر حاضر تھا؛ پاؤں پر گرا، گرد پھرا، سمجھایا: پیر و مُرشد! کئی دن سے محل میں کھانا پانی سب کو حرام ہے، جو آپ کچھ بھی نوش فرمائیں گے تو یہ سب کھائیں گے۔ ناچار با خاطِرِ فِگار دو چار نِوالے پانی کے گھونٹ سے حَلَق میں اُتارے۔ پھر ہاتھ مُنْہ دھُو، نینْد کا بہانہ کر پلنگ پر جا لیٹا؛ مگر نینْد کِس کی اور سُونا کیسا! مُؤلِّف:
وا دَرِ دیدہ سدا رہتا ہے تیری یاد میں
آنکھ جب سے لگ گئی، روتے ہیں سُو جانے کو ہم
پھر لیٹے لیٹے انجمن آرا کا تصّور کر، دمِ گرم و آہِ سرد سینے سے بھر کر، یہ پڑھنے لگا، اَبْیات:
تجھ بِن ہے خراب زندگانی
ہے مجھ کو عذاب زندگانی
اِتنا تو نہ چھپ، کہ لے کفن کا
گھبرا کے نقاب، زندگانی
جب کروٹیں بدلتے بدلتے پَسْلیاں دُکھ جاتیں اور بے قراریاں ستاتیں تو دلِ بے تاب کو مُستعدِ ضبط، آمادۂ جبر و صَبر کر یہ کہتا، نظم:
کمالِ ضبط کو عاشق کرے اگر پیدا
کہاں کی آہ، کرے بات بھی اثر پیدا
ہزار رنگ زمانے نے بدلے، پر افسوس
کہیں ہوئی نہ شبِ ہجر کی سحر پیدا
کرے گی ہمسری نالے کی میرے تو بُلبُل!
شعور اِتنا تو کر جا کے جانور پیدا
ہمیشہ ہاتھوں سے اِن کے رہا ہوں میں جلتا
یہ زُور گرم ہوئے تھے دل و جگر پیدا
یہ دل میں ذوقِ اسیری ہے جو قَفَس میں مُدام
میں نوچتا ہوں، جو ہوتے ہیں بال و پر پیدا
آخرَش بہ صد نالہ و آہ، کراہ کراہ صُبْح کی۔ بعد فَراغِ نمازِ پُر سُوز و گُداز مرنے پر کمر باندھی۔ شب کو یہ خبر عام ہوئی تھی کہ کل جادوگر کی لڑائی کو، شہ زادہ آمادہ ہو جائے گا۔ دیکھیے فلک کیا تماشا دکھائے گا! پہر رات رہے سے مجمع عام دَرِ دیوانِ خاص پر تھا۔ یکایک روشنی آئی، بادشاہ تخت پر سوار برابر شاہ زادۂ والا تَبار، برآمد ہوا۔ چشمِ مشتاقاں میں نورِ طور نزدیک و دور تَجلّی کر گیا۔ ہر شخص رو بہ قِبلہ ہو، دُعائے فتح و ظَفَر اُس ماہ پَیکر کی مانگنے لگا۔ اَلقِصّہ جہاں تک لوگ آتے جاتے تھے، بادشاہ ساتھ آیا، آگے بڑھنے کی تاب نہ لایا۔ جان عالم نے قسمیں دے کر رُخصت کیا۔ ناچار، با دِلِ داغ دار و خاطِرِ فِگار قَلعے میں داخل ہوا؛ مگر وہاں سے ڈیوڑھی تک صَدہا ہرکارۂ صبا دَم متعین کیا کہ ہر دم کی خبر حُضور میں پہنچے۔ جان عالم پھر اکیلا با حسرت و یاس رہا۔ غمِ دلبر رفیقِ قدیم پاس رہا۔ یہ شعر پڑھتا آگے چلا، مصحفی:
اے غمِ یار! میں بندہ ہوں رفاقت کا تری
نہ کیا تو نے گوارا مری تنہائی کو
آگ کا قلعہ سامنے تھا۔ آسمان سے تا زمیں بجز شعلۂ جَوّالہ یا بُرجِ آتشیں اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شہ زادہ غور سے دیکھنے لگا۔ ایک ہِرن اُس آگ سے نکلا، اُچھل کود کر پھر اُس میں غائب ہوا۔ جب مکرّر آمَد و رَفْت کی، جان عالم نے لَوح پیر مرد کی دیکھی۔ اُس میں معلوم ہوا: اگر یہ اِسم پڑھ کے کچھ بڑھ کے ہِرن کو تیر مارا اور خطا نہ کی، طلسم ٹوٹ جائے گا۔ وَگر نشانہ چوکا، خود آماج گاہِ خَدَنگِ قضا ہوا؛ کوئی راکھ کے سِوا پتا نہ پائے گا۔ شہ زادے نے کہا: جو ہِرن مارا، تو میدان مارا، لطفِ زندگی ہے۔ نہیں، حیلۂ مرگ خوب ہے۔ بے یار جینا معیوب ہے۔
یہ سوچ، لَبِ سوفار چِلّے سے جُوڑ، شست و مُشت برابر کر اِسم شُروع کیا۔ اُدھر ہِرن نکلا، اِدھر تیر کمان سے سرگوشی کر کے چلا۔ بس کہ یہ قَدَر انداز تھا، اُس کی قضا دامن گیر؛ تیر دوسار ہوا۔ فِردوسیؔ:
فلک گفت احسن، مَلَک گفت زِہ
ہرن زمین پر گرا، آسمان سے دار و گیر کا غل اٹھا: ہاں ہاں، لیجیو گھیریو؛ جانے نہ پائے! قریب تھا خوف سے جی نکل جائے۔ زمانہ تیرہ و تار، صحرا پرغبار ہوا۔ گھڑی بھر میں وہ تاریکی دور ہوئی، آفتاب نمودار ہوا، نہ آگ رہی نہ قلعہ۔ برابر سطح میدان، انسان نہ حیوان، مگر چبوترے پر لاش جھلسی ہوئی پاش پاش دیکھی۔ یعنی وہ جادوگر کریہہ منظر، سیندور کا ٹیکا ماتھے پر، زرد زرد دانت ہونٹوں کے باہر، منہ مُہری سے گندہ، نطفۂ حرام، شیطان کا بندہ، بالوں کی لٹیں لٹکتیں، ہڈیاں، کھوپڑیاں گلے میں پڑیں، کالا بھجنگا، گانڑ سے ننگا، تیر سے چھد کر جہنم واصل وہ الو کا پٹھا، حواصل ہو گیا ہے۔ شکر کا سجدہ بجا لایا، قدم ہمت آگے بڑھایا۔
ہرکارے یہ ماجرا دیکھ، فوراً حضور میں حاضر ہوئے۔ بعد دعا و ثنا عرض کی: اے شہر یارِ ذوی الاقتدار! فتح مبارک۔ شہ زادہ بلا کا پتلا ہے، ایک تیر میں وہ آگ کا قلعہ ٹھنڈا کر، سر گرم راہ ہوا، جادوگر کا گھر تباہ ہوا۔ بادشاہ یہ مژدۂ فرحت افزا سن کے خوش ہوا، فرمایا: یقین کامل ہے کہ جان عالم حسب دل خواہ مراجعت کرے گا، فتح و فیروزی شامل ہے، ہونہار بِروے کے چکنے چکنے پات۔ خبرداروں کو خلعت و انعام موافق قدر و منزلت مرحمت کر، پھر روانہ کیا۔
اس عرصے میں شہ زادہ وہ وادیِ پر خطر، میدان سراسر ضرر کو طے کر، متصل قلعہ ساحر، جہاں انجمن آرا قید تھی، پہنچا۔ وہ عجیب مُعلّق قلعہ تھا، زمین سے چار پانچ گز بلند بہ روئے ہَوا ایک تختہ کُمھار کے چاک کی طرح بہ ایں سُرعت گردش میں تھا کہ نگاہ کام نہیں کرتی تھی، آنکھ کی پُتلی اتنا جلد نہ پھرتی تھی۔ بلند ایسا کہ دیکھنے میں پگڑی گرتی تھی۔ جان عالم وہاں ٹھہرا، وہ قلعہ بھی حرکت سے ساکت ہوا، اس وقت مفصل نقشہ معلوم ہوا کہ قلعہ جواہر نگار ہے، زیب و زینت بے شمار ہے۔ دروازے چار ہیں، بُرج گنے نہیں جاتے، ہزار در ہزار ہیں۔ کمندِ فکر اس کی بلندی کے روبرو کوتاہ ہے۔ ہر طرف سے سحر بند، مسدود راہ ہے۔ جہاں جان عالم کھڑا تھا، زمُرّد کا بنگلا نظر آیا، اُس میں سے آواز آئی کہ اے اَجَل رَسیدہ! کیوں مَلَکُ المَوت کو چھیڑتا ہے، زندگی سے منہ پھیرتا ہے؟ مجھے تیرے حُسن و صورت پر رحم آتا ہے، جلد یہاں سے جا۔ خطائِے اول، عِوَضِ خوبیِ شکل و شمائل معاف کی، و گرنہ بہ ایں شَدائد و خواری قتل کروں گا کہ آسمان تیرے حالِ پریشاں پر خون روئے گا، ساکنانِ زمیں کو گوشت پوست، ہڈیوں کا پتا نہ ملے گا، بادشاہ تیرے غم میں جان کھوئے گا۔ اِس دشت کی خاک تیرے لہو سے رنگین ہوئے گی۔ روح بھی تا حشر خوابِ مرگ میں آرام سے نہ سوئے گی۔ شہزادے نے ہنس کر کہا: اے مادَر بہ خطا! تو کیا ہماری خطا معاف کرے گا، کہاں تک لاف و گزاف کا دَم بھرے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اور تو کیا کہوں، تجھے بھی اسی کی پائنتی بھیجتا ہوں۔ یہ سن کر وہ جھلّایا۔ بنگلے سے سر نکال، تھوڑے ماش اس بد معاش نے اور کالا دانہ نکالا۔ اس وقت چرخ چکر میں آیا اور زمین تھرّائی، جب سرسوں میں بِنَولے اور رائی مِلائی؛ پھر تیتا میتا اور لُونا چَماری کو نمک حرام نے پکارا، اُن دانوں کو اس احمق نے آسمان کی طرف پھینک مارا۔ دفعتاً ابرِ تیرَہ و تار گھر آیا، شہ زادے پر پتھر اور آگ کا مینہ برسایا۔ یہ بھی اسمائے رَدّ سحر پڑھتا تھا، آگے بڑھتا تھا۔ جب آگ قریب آتی، پانی ہو کر بہہ جاتی اور پتھر بھی ہر ایک خاک تھا، ایسا وہ اسمِ پاک تھا۔
جادوگر خفیف ہو کر سحر تازہ کی فِکر میں تھا۔ جان عالم نے لوح کو دیکھا، اُس میں نکلا: کسی طرح لَوح کو قلعے کی دیوار سے لگا دے، پھر قُدرتِ خالق کا تماشا دیکھ لے۔ شہ زادے نے بہ جرأتِ تمام تر اُچک کر لَوح دیوار سے لگائی۔ اُس پر آفت آئی، مرتبۂ اول سے زیادہ چکر میں آیا؛ پھرتے پھرتے اِس طرح کی صدا ہیبت ناک آئی کہ ہزار توپیں ایک بار چھٹیں تو ایسی نہ ہو۔ سامری کی روح زِیر زمیں گھبرائی۔ بہ درجہ مہیب تھی کہ گاوِ زمیں کا کلیجا ہل گیا۔ خورشید بُرجِ اَسَد میں چھپ کر دَہَل گیا۔ زمانے کا رنگ دِگرگوں ہوا۔ جنگل گَرد بَرد ہو گیا، وہ ناری سرد ہو گیا، لرزاں کُوہ وہاموں ہوا۔ میدان سیاہ، بلند صدائے نالہ و آہ ہوئی۔ چار گھڑی میں وہ تاریکی دور ہوئی، شہزادے کی طبیعت مسرور ہوئی۔ نہ قلعہ نظر آیا، نہ مکانات کا نشان پایا، لیکن ریت کا ٹیلا، سَر کَنڈے گڑے اور کچا سوت نیلا پیلا ان پر لِپٹا، کچھ پھَندے پڑے؛ اُس میں وہ ماہِ شبِ چاردہ، حور کی صورت، نُور کا عالَم، پریشان، بدحواس، سَراسیمہ، متحیّر، کوئی آس نہ پاس، ہر سمت حیران ہو ہو دیکھ رہی تھی۔
جان عالم نے پہچانا۔ تاب نہ رہی، جی سینے میں رُعبِ مَحبّت سے سنسنایا۔ اکیلا دیکھ کے کلیجا منہ کو آیا۔ ہر چند ضبط کیا، نہ ہو سکا۔ تھرّاتا، دم چڑھا جاتا، دوڑ کر گرد پھرنے لگا، لڑکھڑاہٹ سے گرنے لگا، انجمن آرا نے شرما کر، سر کو جھُکا کر کہا: سنبھلو صاحب! کچھ پاس لحاظ بھی کسی کا نہیں! یوں بے باکانہ پاس چلے آنا حرکتِ مجنونانہ ہے۔ لوگ کہیں گے، دیوانہ ہے۔ مگر اِس گفتگو میں آنکھ بھی چار ہو گئی۔ سِنانِ اُلفت اِدھر تو گڑی تھی، اب دوسار ہو گئی۔ شہ زادہ خنجرِ عشق کا زخمیِ قدیم تھا، وہ تازہ شمشیر محبت کی گھائل ہوئی، طبیعت اُدھر مائل ہوئی، بدن تھرایا۔ جان عالم نے یہ سنایا، میر سوزؔ:
جس کو نہ ہو شکیب، نہ تابِ فُغاں رہے
تیری گلی میں وہ نہ رہے تو کہاں رہے
آہستہ رَو تو منزلِ مقصود کو گئے
رفتار گرم تھے، سو ہمیں درمیاں رہے
بندہ نَواز! حال پہ میرے کرو نگاہ
ہے جائے گریہ یہ کہ پسِ کارواں رہے
یہ کہہ کر گر پڑا، غش آ گیا۔ عشق کی نیرنگیاں نِہاں نہیں، حاجتِ اِظہار وبیاں نہیں۔ کشش اِس کی چھوٹے بڑے پر آشکارا ہے، ہزاروں کو اِس نے فریب سے مارا ہے، انجمن آرا کو دلِ مُضطَرِب نے تڑپ کر سمجھایا، بے قراری میں اِس پر قرار آیا کہ یہ مُقَرَّر عاشقِ صادق ہمارا ہے، جو ایسی بلا سے نہ ڈرا۔ سر کو بیچ کر اِس وادی میں پاؤں دھَرا۔ وگرنہ اِتنے دن گُزرے؛ بے کسی کے سوا کوئی ہَمدَم، شریکِ زِندانِ غم نہ تھا۔ دل قبضۂ اِختیار سے جاتا رہا۔ حِجاب ہر چند مانِع آتا رہا، مگر جان عالم کا سر سَرکا، زانو پر رکھا، چہرے کی گرد جھاڑی۔ غشی تو کبھی آنکھ سے دیکھی نہ تھی، گھبرا کر رونے لگی، اِس طرح روئے یار دھونے لگی۔ اور یہاں جو بوند آنسو کی منہ پر پڑی اور دماغ میں خوش بوئے کِنار دِل دار چڑھی، لَخلَخے کا کام کر گئی؛ گلاب، کیوڑا چھِڑکنے کی حاجت نہ رہی، آنکھ کھول دی۔ سبحان اللّٰہ! سَرِ خاک اُفتادَہ کِنارِ یار و زانوئے دِل دار پر پایا۔ ناز و نِیاز نے دِماغ عرشِ اعلیٰ پر پہنچایا۔ اور پاؤں پھیلایا، یہ اِترایا۔ انجمن آرا نے جھجھک کر گھُٹنا سَرکایا۔ جان عالم نے چشمِ نیم وا سے شہ زادی کا منہ دیکھا اور کہا: ہماری بے ہوشی ہشیاری سے اچھی تھی! مُولِّف:
میں جو چونکا، تو وہ بھی چونک پڑا
ہوئی غفلت، جو ہوشیار ہوا
یہ کہہ کے آنکھیں بند کر لیں کہ پھر ہمیں غش آیا، کیوں تم نے زانو سَرکایا۔ انجمن آرا نے کہا: کیا خوب! اِتنا اِختِلاط میری چڑ ہے۔ میں نے تیری محنت و مشقت پر نظر کر کے یہ اِنسانیت کی حرکت کی تھی؛ تم چل نکلے۔ خدا جانے دل میں کیا سمجھے۔ اپنی راہ لیجیے، چلتا دھَندا کیجیے۔ واہ وا! نیکی برباد، گُنَہ لازِم۔ جان عالم نے یہ جواب دیا، اُستاد:
خاک ہی اپنی اُٹھے تو اِس مکاں سے اُٹھ سکے
ہم جہاں جوں نقشِ پا بیٹھے، نہ واں سے اُٹھ سکے
اِلّا، چُور کی ڈاڑھی میں تِنکا۔ میں تمھیں اپنا عاشق کبھی نہ سمجھوں گا، نہ معشوقوں کے دفتر میں آپ کا چہرہ لکھوں گا۔ انجمن آرا نے کہا: چہ خوش! بھلا دل تو بہلا لو۔ کچھ ہو یا نہ ہو، زبان کا مزہ نکالو۔ یہ تو وہی مثل ہوئی: مان نہ مان مَیں تیرا مہمان۔ تمھارا بعینہٖ یہ حال ہے، فَرد:
چہ خوش گفتست سعدی در زلیخا
ألَا یَا أیُہا السّاقی أدِر کأساً وَ ناوِلہَا
عشق و عاشقی کی باتیں میری بَلا جانے۔ رَمز و کِنایہ کسی اَور سے جاکے کرو، اپنا چُوچلا تَہ کر رکّھو۔ اپنی صورت تو غَور سے دیکھو، تم نے سُنا نہیں شاید، مثل: حلوا خوردن را روی بایَد۔ جان عالم نے کہا: مَیں بے چارہ خستہ تَن، غُربت زَدہ، دور اَز وطن، مہنت پَن کہاں سے لاؤں! کیوں کر ویسی صورت بناؤں! کوئی خَندَہ پیشانی ہے، کوئی نصیبوں کو روتا ہے، کفر اور اسلام میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تمھیں ابھی تک مُوہن بھُوگ کا ذائِقہ نہیں بھولا ہے، دَمِ تقریر زبان پر حلوا ہے۔ ہم نے آپ کے واسطے جُوگ لیا، سلطنت کو تَج دیا؛ اب مُرادپوری ہوئی، دور دوری ہوئی۔
انجمن آرا پتے کی سُن کر کھسیانی ہو گئی، کہا: چلو صاحب! وہ مُوا قُربان کیا تھا؛ اپنی چُونچ بند کرو، کٹی جلی کی ہنسی اپنے گھر جا کر کرو۔ سحر جادو، زُور ظُلم، مَکْر و فَریب سے انسان ناچار ہے، اِس میں کِس کا اِختیار ہے۔ مگر خیر، اور جو چاہے کہہ لیجیے۔ دَر پردہ کیا، صاف صاف گالیاں دیجیے۔ یہ باتیں قسمت کی گردِش سُنواتی ہے۔ دیکھوں ابھی تقدیر آگے کیا کیا دِکھاتی ہے۔ اگر خُدا ہمارا گھر بار چھُڑا موذی کے بس میں نہ پھنساتا تو ہر ایک راہ چلتا ہمیں کاہے کو ایسی باتیں سنانا۔
جان عالم یہ سُن کر ڈر گیا۔ رنگ زرد ہو گیا، خَجالت سے مرگیا۔ سَہم کر، آبدیدَہ ہو کہنے لگا: میری کیا مَجال جو آپ کو کچھ کہوں! میں تو خانُماں آوارہ، مسافر ہوں۔ انصاف تو کرو، تم کتنی ہَٹ دھَرم احسان فَرامُوش ہو! ہنسی میں رو دیا، ہمیں دونوں جہان سے کھودیا۔ انجمن آرا نے دیکھا، اِس کے آنسو جاری، ہچکی طاری ہے؛ مُسکرا کر کہا: ایک بات مطلب کی کہی، مگر، مصر؏:
سچ ہے، اُوچھے کا بھی احسان برا ہوتا ہے
خاطر جمع رکھ، اپنے گھر چل کر تجھے مال و زر سے لاد دوں گی کہ تو چل نہ سکے گا، بوجھ سے ہِل نہ سکے گا۔ شہ زادے نے کہا: آخِر سلطنت کا گھمنڈ آیا! ہمیں محتاج جان کے یہ فقرہ سنایا! ہم بھی کبھی حاجت روائے عالم مشہور تھے، مگر الفت سے مجبور تھے۔ اگر تم پر عاشق نہ ہوتے؛ کیوں سلطنت کھوتے، سر پر ہاتھ رکھ کر روتے۔ یہاں یہ نوک چوک، چھیڑ چھاڑ ہو رہی تھی؛ وہاں خبر فتح و ظفر ہر کاروں نے بادشاہ کو پہنچائی۔ وہ تو ہمہ تن گوش تھا، اسی وقت مع ارکان سلطنت روانہ ہوا۔ ہمراہ رکاب یگانہ و بے گانہ ہوا۔ ایک سکھپال ہمراہ لیا، صبا وار سناٹے میں آ پہنچا۔ جو جو نزدیک تھے، دور کھڑے رہے۔ کہاریاں بادشاہ کا تخت قریب لائیں۔ انجمن آرا منہ چھپا کر بیٹھ گئی، جان عالم پاس سے سرکا، بادشاہ تخت سے اترا، جان عالم کو گلے لگایا، جُرات کی تعریف کی، ہمت پر تحسین و آفریں کہی۔ پھر بیٹی کو چھاتی سے لگا، سکھپال میں سوار کیا، شہ زادے کو برابر تخت پر بٹھا لیا۔ ترقی خواہانِ دولت، ملازمانِ قدیم نزدیک آئے؛ زرِ سرخ و سفید تخت اور سکھپال پر نثار کیا۔ اس قدر اشرفی، روپیہ تصدق ہوا کہ آج تک جو محتاج، مسافر ادھر جاتے ہیں؛ چاندی سونا پاتے ہیں، نصیب جاگتے ہیں؛ ڈھیر کے ڈھیر لے بھاگتے ہیں۔
بادشاہ کے پھرتے پھرتے، جلوسِ سواری، نوبت نشان، فوج اور سب سامان پہنچا۔ اہل شہر یہ خبر سن کر ہزاروں دوڑے۔ شادیانے بجاتے، مبارک سلامت کا غُل مچاتے شہر میں داخل ہوئے۔ ملک کی رونق گئی ہوئی پھر آئی۔ خلقت نے جانِ تازہ پائی۔ محل میں انجمن آرا رونق افروز ہوئی، سب کو شادیِ نو روز ہوئی محل والیوں نے کُہرام مچایا۔ بادشاہ نے فرمایا: یہ خوشی کا وقت ہے، نہ ہَنگَامِ غم؛ اِسی طرح سب بِچھڑے خدا کی عِنایت سے باہَم ہوں۔ انجمن آرا کے، ماں، گرد پھِرتی تھی، دَم بہ دَم سجدہ کرنے کو زمین پر گرتی تھی۔ کہتی تھی: اللّٰہ نے میرے، بدولتِ جان عالم دن پھیرے۔ انجن آرا جب یہ نام سُنتی؛ خوش کیا، کھِل جاتی؛ اِلّا لوگوں کے سُنانے کو، تَجاہُلِ عارِفانہ کر کے یہ سناتی: صاحِبو، خیر ہے! یہ کیا بار بار کہتی ہو! جو میرا مقدَّر سیدھا نہ ہوتا تو وہ کون تھا جو دِن پھیرتا!
ہَم صُحبَتیں، مزاج داں اِس رُکھائی سے تاڑ گئیں کہ آپ کی بھی آنکھ پڑی، طبیعت لڑی۔ جب اُس کی ماں سَرکی، وہ سب پاس آ آ کہنے لگیں: ہَے ہَے! ہم تو تیری مُفارَقَت میں مرتے تھے۔ زندگی کے دن، گھڑیاں گِن گِن بھَرتے تھے۔ یہ صورت اللّٰہ نے دکھائی، یا جان عالم کی جوتیوں کے صدقے سے نظر آئی۔ جس طرح ہمارے مطلبِ دِلی ملے، خالق اُس کے بھی جی کی مُراد دے۔ انجمن آرا غُصّے کی شکل بنا، تیوری، بھوں چڑھا کہنے لگی: تم سبھوں کی شامت آئی ہے! کیا بیہودہ بَک بَک مچائی ہے! چُوچلے کی خوبی، بُزرگی خُردی سب ڈوبی! واہ وا! تم نے میری چِڑ نکالی، اپنی دانِست میں دیوانی بنا لی! خدا جانے یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے! سبھوں نے میرا مَغز کھایا ہے۔ اُسے تو کیا کُوسوں، وہ تو مسافر بے چارہ ہے؛ جی میں آتا ہے اُس کا مُنہ نُوچوں جس جس نے یہ نَخرا بگھارا ہے۔ اور بھئی مجھے چھیڑو گی تو رو دوں گی، اپنا سر پیٹ لوں گی، یہ کہہ کر مسکرانے لگی، ہونٹ چبانے لگی، آپس میں رمز و کنایے رہے۔
تمام ملازمانِ بادشاہ مع روسائے ترقی خواہ نذریں لے کر حاضر ہوئے، شہر میں منادی ہوئی کہ جتنے ساکنانِ قلمرو بادشاہ ہیں، فقیر سے ہفت ہزاری، بڑے آدمی سے بازاری تک، آج کاروبار مَوقوف کر کے ناچ دیکھیں، خوشی کریں اور جسے مَقدور نہ ہو، سرکار سے لو۔
تمام شہر میں عیش و نَشاط، راگ رنگ کی مجلس با فرحت و انبساط ہوئی، بادشاہ نے جَشن جَمشیدی کیا، تمام شب بادۂ گُل گوں کا دَور رہا، ناچ گانا، صحبتِ بے تکلفانہ بہ طور رہا۔ دَمِ صبح شاہِ کَیواں جاہ دیوانِ عام میں رونق افزا ہوا، دَرِ خزانہ و قید خانہ وَا ہوا، اس قدر زَر و جواہر محتاج، فقیروں کو عنایت و امداد ہوا کہ کاسۂ گدائی ان کا جام و صراحی سے مبَدَّل ہو گیا۔ محل میں بَر مَحل رت جگے، صحنک، جا بجا کونڈے، حاضری، دَونے، پُڑیاں مَنّتوں کی، جس جس نے مانی تھیں، کرنے، بھرنے، دینے لگیں۔ اور ڈومنیاں تَڑاق پَڑاق، پری وش، خوش گلو، با انداز مَع سامان و ساز حاضر ہوئیں، مُبارک سلامت کہہ کر ’’شادی مبارک‘‘ گانے، چہچہے مچانے، نئی مُبارک باد سنانے لگیں، مُولف:
شادی و جَشن سزاوار مبارک ہووے
آج شہزادی کا کا دیدار مبارک ہووے
صَد و سی سلامت رہے با اَمن و اَماں
حُسن کی گرمیِ بازار مبارک ہووے
وہ بھی دن آئے جو سَہرا بندھے سر پر اس کے
سب خوشی سے کہیں ہر بار: مبارک ہووے
بعد شادی کے، خدا دے کوئی فرزندِ رشید
ہم کہیں آکے: یہ دِل دار مبارک ہووے
خار کھاتے رہیں کم بَخت جو دشمن ہوں سُرورؔ
دوستوں کو گُل و گُلزار مبارک ہووے