فسانۂ عجائب/حکایتِ پُر شکایت چھوٹے بھائی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


حکایتِ پُر شکایت چھوٹے بھائی کی

نَقل سپہر بے مَہر کی کج اَدائی کی۔ اُٹھا لے جانا جانورِ مُہیب کا،

بدولتِ سوداگر کُنویں سے نکلنا اُس بَلا نصیب کا۔ میرِ قافلہ کی بُرائی،

شہ زادی تک رَسائی، پھر تقدیر کی بھلائی


صَیّادانِ طائِرِ مَعانی، ذی ہوش و دام دارانِ بلبلِ خوش بیانی، خانہ بدوش نے حال اُس مُنتَظرِ زِیرِ درخت کا یہ لکھا ہے کہ ہمہ تَن چشم مَحوِ اِنتِظارِ برادرِ فراموش کار بیٹھا تھا؛ ناگَہاں ایک جانورِ مُہیب، بہ شکلِ عجیب آیا اور پنجے میں داب کر اُڑا۔ گھوڑوں نے ڈر سے باگ ڈور تُڑا کے جنگل کا رستہ لیا، کود بھاگے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے بڑا بھائی سلطنت کا مالک ہوا، چھوٹا بِچارا موذی کے چنگل میں پھنسا۔ وَاللہُ اَعلَم بِالصَواب وہ جانور وہاں سے کتنی دور اُڑا۔ آخر کار تھک کر، ایک درخت کُنویں کی جَگَت پر تھا، اُس پر جو بیٹھنے لگا، یہ پنجے سے چھٹ کر چاہ میں ڈوبا۔ جامیؔ:

فُغاں زیں چرخِ دَولابی کہ ہر روز

بچا ہے افگند ماہِ دل افروز


اِلّا، رَسَنِ حیات مضبوط تھی؛ نہ گَزند پَنچے کی پہنچی، نہ چوٹ چَپِیٹ گرنے کی لگی۔ میر حسنؔ:

کُنواں وہ جو اندھا تھا، روشن ہوا

جواں اُس میں وہ، سانپ کا مَن ہوا


وہ جانور تو دم لے کر اُڑ گیا، یہ بے پَر کُنویں میں پڑا رہا۔ اِتِفاقاً اُسی روز ایک قافلۂ گُم گشتہ راہ خستہ و تباہ سرِ چاہ پہنچا۔ کنواں دیکھ کر پانی کے لالچ سے وہاں قیام کیا۔ آدمی پانی بھرنے کنویں پر آئے۔ اِس بے چارے نے رسّی کا سہارا جو پایا، اِس پھندے میں کنویں سے باہر آیا۔ جس نے اِس کا چہرۂ رعنا مشاہدہ کیا، یَا بُشرَی ھٰذَا غُلَام کا غُل برپا کیا۔ دُنیا کے عَجَب معاملے ہیں۔ شعر:

روزی نگر کہ طوطیِ جانم سوی لبش

بربوی پستہ آمد و بر شکّر او فتاد


جب لوگ حال پوچھنے لگے؛ اِس نے جیسا موقع دیکھا، ویسا بیان کیا۔ غرض کہ میرِ قافلہ کی خدمت میں توقیر سے رہنے لگا۔ چند روز میں قافلہ منزلِ مقصود کو پہنچا اور مہینا بھی تمام ہوا؛ جوانِ غم دیدہ، بلا رسیدہ نے دوسرا لعل اُگلا۔ رئیسِ قافلہ دیکھ کے تمام ملال بھولا۔ پست ہمتی سے سوچا کہ ایسی گراں بہا شَے کا سہل لے لینا مشکل ہے، مَبادا کچھ فساد اُٹھے۔ وہ بد افعال اِس کا خون حلال سمجھا، بُرے کام کا مطلق نہ مآل سمجھا۔ جوان کو قید کر کے کوتوال پاس بھیجا، کہا: یہ میرا غُلام ہے، آج اِس نے لعل چُرایا، کچھ ایسا وَسوَسۂ شیطانی دل میں آیا؛ میں نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ اِسے سزا ملے؛ تا، لوگ ڈریں، عبرت سے آئندہ ایسی حرکت نہ کریں۔ کوتوال نے قاضی سے مسئلہ پوچھا۔ اُس نے بے تحقیق ہاتھ کاٹنے کا فَتویٰ دیا؛ مگر اُس شہر کا چندے سے یہ دستور تھا: جب کسی شخص پر گُناہ ثابِت ہوتا، تو مُدَّعی اور مُدَّعا علیہ بادشاہ کی بیٹی کے رو بہ رو حاضر ہوتے۔ اَظہارِ حال کے بعد، مُرافَعَۂ ثانی میں جو اُس کی رائے مَعدِلَت پیرائے میں آتا، وہ ہوتا؛ اِس واسطے کہ بادشاہ مُسِن تھا، بیٹی کے سوا اور کوئی تخت و سلطنت کا وارِث نہ تھا۔ اللہ رے اُس کے جمال کا جلوہ اور حُسن کا غَوغا! پری کو ہزار جان سے اُس کی پروا، حور اُس کی شیدا، خلقِ خُدا اُس مَہ سیما پر نثار، آفتِ عَصر، بلائے روزگار تھی۔ حُسنِ عالَم فَریب کے علاوہ طَبعِ حلیم، رائے سلیم؛ نکتہ فَہم، دَقیقَہ رَس، اپنے عَصر کی حکیم۔ حقیقتاً قابلِ ریاست وہ صاحِبِ فِراست تھی۔ غُنچۂ خاطر اُس گُل اَندام، یاسمیں پَیکر کا رو نادیدَۂ صبا تھا۔ دَہَنِ صَدَفِ مُراد تمنّائے قطرۂ نَیساں میں بند۔ کوچۂ عِصمت و عِفّت میں اُس دُرِ ناسُفتَۂ دُرجِ شہر یاری کے وہم و فکرِ تاج دارانِ دَہر کا گُزر نہ ہوا تھا، اُس دم تک ناکَتخُدا تھی۔

جس وقت وہ دونوں رو بہ رو ہوئے، پہلے شاہ زادی نے میرِ قافلہ سے پوچھا۔ اُس نے جو کچھ کُوتوال سے قیل و قال کیا تھا، وہی بے کَم و کاست مکرّر عرض کیا۔ شہ زادی نے یہ مصرع بَرجَستہ پڑھا، سعدیؔ:

باطِلست اُنچہ مدّعی گوید


پھر جوان کی طرف مُخاطِب ہوئی۔ بس کہ یہ زیست سے تنگ، آمادۂ مَرگ تھا، بے تَاَمُّل بولا: شہ زادی! آپ روشن ضمیر ہیں، ہم مصیبت زَدوں کی طرح سِلسلۂ بے جُرمی میں اَسیر ہیں، یہ شخص سچا ہے۔ وہ تو عَقیلہ تھی، زیادہ شک ہوا، دل سے کہا: آج تک کسی چُور نے حاکم کے رو بہ رو بجز انکارِ دَست بُردی، دفعتاً اِقرارِ دُزدی کیا نہیں۔ یہ بے گناہ ہے۔ تقریر اِس شاہِد کی، شاہِد ہے، خُدا گواہ ہے؛ کچھ اِس میں بھید ہے۔ قافلہ باشی سے فرمایا: کل تو محکمے میں حاضر ہونا۔ جوان کو ڈیوڑھی پر قید کیا۔ یہ تو حسین، بلکہ مِہر طَلعت، ماہ جبیں تھا؛ طالِع کا ستارہ جو چمکا، شہ زادی کا میلانِ خاطِر جوان کی جانب ہوا۔ شب کو تنہا بُلا کے بہ دِل داری و تَاَسُّف اِستِفسارِ حال فرمایا۔ اُس وقت جوانِ نا کردہ گُناہ نے دل سے آہِ سرد بھر مَشروحاً اَز آغاز تا انجام عَرض کیا۔ شہ زادی کا دل، یہ نیا قصّہ سُن کے، بہ مرتبۂ اَتَم مسرور ہوا۔ چوری کا شک اُس دُزدِ دل کی جانب سے دور ہوا۔

صُبح کو بادشاہ کے حُضور میں لا، خود دَستِ ادب باندھ کر عَرض کی: قبلۂ عالَم و عالَمِیاں کی عُمر دراز ہو، قَیصر و فَغفور کی اِس دَر پر جبیں بہ نِیاز ہو! شہر کا قاضی اور کوتوال بے دریافتِ حقیقتِ حال حُکمِ سزا بندہ ہائے خُدا کو دیتے ہیں، رُوزِ جَزا کی جواب دِہی اپنی گردن پر لیتے ہیں۔ غَضَب کی جا ہے، عجیب ماجرا ہے واجَبُ التَّعذیر، صاحِبِ تقصیر کو لعل ملے، بے گُناہ کا ہاتھ کٹے۔ بادشاہ نے پھر دونوں کی زبان سے حال سُنا۔ بہ سببِ کبرِ سِن کہ عقل کو زَوال ہوتا ہے، یہ وہ دن ہیں کہ نِسیان بہ مرتبۂ کمال ہوتا ہے؛ ذہن نہ لڑا، تَاَمُّل کیا۔ شہ زادی نے التماس کیا: حُضور! یہ اِمتِحان بہت آسان ہے، ایک مہینے اور اِس جوان کو قَید رکھیے؛ اگر دوسرا اُگلا، تو سچا ہے؛ پھر ایسے دُرِّ یتیم صَدَفِ راستی کو کیوں بے آب و تاب کیجیے، آبرو لیجیے؛ وگرنہ بہ ماہِ آئندہ یہ بد کِردار دار کا سزا وار ہے، ہاتھ کاٹنے سے کیا ہاتھ آئے گا؟

بادشاہ کو سرِ دست جوابِ باصَواب بیٹی کا بہت پسند آیا، حاضرین نے تحسین و آفریں کی۔ بادشاہ نے جوان کو اپنی آنکھوں کے سامنے نَظَر بَند کیا۔ میرِ قافلہ کو شہ زادی نے مَحبَس بھیجا۔ قصّہ کُوتاہ، وہ مہینا بھی تمام ہوا اور اِتنے دنوں میں شُعلۂ مَحبّت مِجمرِ سینۂ شہ زادی سے بھڑکنے لگا، دَم پھڑکنے لگا، حال طَشت از بام اُفتادَہ ہُوا۔ جوان نے عرض کی: کل لعل اُگلوں گا۔ پھر صُبح کو سَرِ دربار رو بہ روئے حُضّار لعلِ بے بَہا دُرجِ دَہاں سے نکالا۔ سب کو حیرت، شہ زادی کو فرحت و مَسرّت حاصل ہوئی۔ اُسی دم مال و اسباب قافلہ باشی کا جوان کو مِلا۔

اُسے تشہیر کر کے شہر سے بَدَر کیا۔ جوان کی صورتِ دل پَذیر، فصاحتِ تقریر پسندِ خاطِرِ صغیر و کبیر تھی؛ بہ ایمائے شہ زادی سب نے مُتَّفِقُ اللَّفظ بادشاہ سے عرض کی کہ یہ شخص حضور کی عنایت کے لائق ہے؛ تمنّائے مُلازمت رکھتا ہے، کفش بَرداری کا شائِق ہے۔ بادشاہ بھی اِس کی راست بازی سے خوش تھا، راضی ہوا۔ سعدیؔ:

راستی موجبِ رضای خدا ست

کس ندیدم کہ گم شد از رہِ راست


چند عرصے میں مُقرّبِ بارگاہِ سُلطانی، مَورِدِ عِنایاتِ جَہانبانی ہوا۔ ہر مہینے لعل اُگل کے حُضور میں لانے لگا۔ روز بہ روز ہَم چَشموں میں سُرخ روئی حاصل کر کے آبرو پانے لگا۔ آخِر کار، بہ مَشوَرۂ مُلازِمانِ قدیم و بہ تحریکِ حکَما و نَدیم بادشاہ نے اُس گَوہرِ مُسَلَّمِ سِلکِ تاج داری کو بہ رِشتۂ عَقد اُس لعلِ بے بہا کے مُنعَقِد کیا۔ یہ دونوں مشتاق بہ صَد اِشتیاقِ باہَم، لطف کے ساتھ بے اندیشہ و غم، اَیّام گُزاری بڑی دھوم اور تیّاری سے کرنے لگے؛ مگر ہر رُوز بِلا ناغہ جوان بادشاہ کے دربار میں حاضر رہتا تھا۔

ایک دن اِیلچی اِس کے بھائی کا کسی تقریب میں وارِد ہوا اور جواہِر کا ذِکر نکلا۔ اِیلچی نے عرض کی: ہمارے بادشاہ کے پاس ایک لعل اِس رنگ، ڈھَنگ، سَنگ کاہے کہ آج تک جَوہریِ چرخ نے باوُجودِ عَینکِ مِہر و ماہ و گردِشِ شام و پَگاہ، سال و ماہ میں، اُس کے سَنگ کا کیا، پاسَنگ کے برابر نہیں دیکھا ہے۔ یہ کلمہ سُن کر، بادشاہ نے وہی لعل، جو سینۂ بے کینۂ جواں سے نکلے تھے، دس بارہ ایلچی کو دکھائے۔ وہ بھی جواہِر شَناس تھا؛ سخت حیراں، تا دِیر سر بہ گرِیباں رہا، پھر عرض کی: قِبلۂ عالَم! عَجَب کی جا ہے کہ رنگ، روپ، وَزن، نَقشہ انِ کا اُس کا ایک سا ہے۔ اِتنا فرق مُقرَّر ہے کہ وہاں ایک ہے، یہاں ایک سے ایک بہتر و برتر ہے۔ بادشاہ نے جوان کی طرف اِشارہ کیا کہ یہ میرا فرزند ہر مہینے ایک لعل بے رنج و ملال تھوکتا ہے۔ ایلچی نے غور سے دیکھا، اپنے بادشاہ سے مُشابِہ کیا، بَعِینِہ پایا۔ خیر، رُخصت ہوا۔

جب اپنے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ اُس کا تو معمول تھا، جب تخت پر آ کر جلوہ گر ہوتا، وہ لعل پیشِ نظر ہوتا؛ ایلچی کو وہ سانِحہ یاد آیا، دست بستہ عرض کی: قبلۂ عالَم اِس لعل کہ جُدا کرتے نہیں، بے اِس کے قدمِ مبارَک تخت پر دھَرتے نہیں؛ اِن روزوں خانہ زاد جس بادشاہ کے پاس گیا تھا، نیا ماجرا دیکھا: مَعدِنِ لعل کہ وہ اِمکان نہیں، لیکن وہ جواہرِ بے قِیاس رکھتا ہے۔ تعجّب کی بات ہے کہ وہ لعل کا پُتلا زندہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ بادشاہ نے اُس کا حال مُفَصَّل پوچھا۔ اُس نے سب بیان کیا کہ داماد اُس شاہِ خُجستَہ نِہاد کا ہر مہینے لعل اُگلتا ہے۔ اور کیا گُزارِش کروں، جیسے حُضور کی صورت ملتی ہے، حقیقی بھائی ایسے دکھائی نہیں دیے۔ یہ سُنتے ہی اُس کو یقین ہوا کہ اب پتا مِلا، مُقَرَّر وہ میرا بھائی ہے۔ اُسی وقت نامۂ شوقیہ اُس کانِ گُہر کے اِشتیاقِ دیدمیں بادشاہ کو لکھا کہ برائے چَندِے اگر اُس فرزندِ اَرجُمَند کو اِدھر روانہ کرو، مَحبّتِ دِیرینَہ سے بعید نہ ہو۔ ہمیں شوقِ دیدار اَز حدِ تحریر و اِظہار اَفزوں ہے۔ اور پوشیدہ خطِ تمنّا بھائی کو رَقَم کیا کہ آج تک تیری مُفارَقَت سے تختِ شاہی، بد تر از بُورِیائے گدائی تھا؛ اب ایلچی سے یہ خبرِ فرحت اثر سُن کر دل کو سرور، آنکھوں میں نور آیا؛ لازِم کہ بہ مُجرَّد وُرودِ رقیمۂ وِداد اِدھر کو روانہ ہو۔ اور کچھ پتے حَسَب و نَسَب کے، سانِحۂ شکار تفصیل وار قلمبند کر دیے۔ ایلچی سے فرمایا یہ نامہ عَلیٰ رُؤُسِ الاَشھاد بادشاہ کو اور یہ خط خُفیہ اُس غیرتِ ماہ کو دینا۔

قاصدِ صبا دَم، صَرصَر قدم جلد تر اُس شہر میں وارِد ہوا۔ بادشاہ کو نامہ دیا اور خط پُوشیدہ جوان کو حوالے کیا۔ وہ مکتوبِ مَحبّت دیکھ کر ایسا گھبرایا، یہ لہو نے جوش کھایا کہ اُسی دن رخصت کا ذِکر بادشاہ سے لایا۔ آخر وہ عاشقِ برادر، معشوقۂ روح پرور کو لے کر، جہاز پر سوار ہوا، تب اُس بے چین کو قرار ہوا۔ راہ میں ایلچی سے شہر کا نقشہ، راہ کا پتا، سب پوچھ لیا۔ فَرطِ شوق سے دن رات سَر گرمِ رفتار تھا۔ ساعَت بھر مُقام کسی منزل کا ناگوار تھا کہ جلد پہنچیں، کہیں نہ ٹھہریں۔ نَیرَنگِ زمانۂ کج سَرِشتِ بو قَلَموں کہ ہر دم و ہر ساعَت دِگرگوں ہے، کیا کہوں! جب دس بارہ کُوس وہ شہر رہا، جہاز تباہ ہو کے بہا۔ جس کی قضا تھی تَہِ آب و گرداب رہا۔ جس کی بَقا تھی بَہہ نکلا۔

یہ قصۂ جاں گُداز دور دراز پہنچا، اِن کے بھائی نے سُنا؛ فوراً ہزار سوار تیز رفتار دوڑائے کہ جس ڈوبتے اُچھلتے کا پتا پاؤ، جلد حُضور میں لے آؤ۔ آخر کار بہ ہزار جستجو و تگاپو، شہ زادیِ خوش خو ہاتھ آئی، جوان کی خبر نہ پائی۔ اُسے بادشاہ پاس حاضر کیا، جوان کے ڈوبنے کا حال کہہ دیا۔ بادشاہ بہ حالِ تباہ گردابِ فراق میں پھنسا۔ شہ زادی صَف نَشینِ ماتم، لُجَّہ و لَطمَۂ اَندُوہ و غم میں اُلجھی۔

جوان کا حال یہ ہوا کہ تختے کے سہارے سے بہتا بہتا، پیاس کے صدمے، بھوک کی موجیں سہتا سہتا کئی دن میں کنارے پر پہنچا۔ فِی الجملہ، جب کچھ تاب و طاقت آئی، پوچھتا پوچھتا اُس شہر میں داخل ہوا۔ بادشاہ کو خبر پہنچی، رو بہ رو بلایا۔ بہ سَبَبِ طولِ اَیّامِ مُہاجَرَت اور درازِیِ زمانۂ صُعوبَت مُطلق نہ پہچانا۔ اُستاد:

اِتنی مدّت میں ملا مجھ سے وہ دھوکا دے کر

یاد بھی جب مجھے اُس شوخ کی صورت نہ رہی


ہیئت تبدیل، خوار و ذلیل تھا۔ اِس اِختِلاف کو دیکھیے: یہاں صحرا نَوَردی، بھوک پیاس، مصیبت؛ وہاں حکم رانی، عیش و آرام و تخِت سلطنت۔ ناچار شہ زادی کو طَلَب کیا، اُسے بھی تَاَمُّل ہوا۔ وہ شخص بولا: پَہَر بھر کا عرصہ باقی ہے، آج لعل اُگلنے کا دن ہے، پھر تم سب پہچانو گے۔ بادشاہ کو یقین ہوا، کہا: اگر یہ جھوٹا ہوتا تو ایک پَہَر کا وعدہ نہ کرتا۔ شہ زادی نے کہا: اُس شخص کی طبیعت کی جَودَت مشہور ہے، ایک مُعَمّا پوچھتی ہوں؛ اگر بدیہہ جواب دیا، تو بے شک شک رفع ہوا: بھلا وہ کیا شَے ہے جسے گَبرو مسلماں، یَہود و نَصاریٰ، سب انسان کا فرقہ آشکارا کھاتا ہے؛ مگر جب اُس کا سر کاٹ ڈالو تو زَہر ہو جائے، کوئی نہ کھائے اور جو غصّے میں زیست سے خفا ہو کر کھائے تو فوراً مر جائے۔ جوان نے ہنس کر کہا: شہ زادی! ’’قَسَم‘‘ ہے۔ یہ کیا مُعَمّا پوچھا ہے! وہ پھڑک گئی، وحشت مِٹی، دل کی بھڑک گئی۔ بے باکانہ چلمن اُٹھا، پروانے کی طرح اُس شمعِ بزمِ فرقت کے گرد پھری۔

بادشاہ متعجب ہوا کہ ہم تو کچھ نہ سمجھے، شہ زادی کیا سمجھ کر سامنے ہوئی۔ جوان نے عرض کی: قبلہ! وہ چیز ’’قَسَم‘‘ ہے، تمام عالَم کھاتا ہے، سر اُس کا "قاف" ہے، اُسے کاٹو تو ’’سَم‘‘ صاف ہے؛ ’’سَم‘‘ زَہر کو کہتے ہیں، کون کھاتا ہے؟ کھانے والا مر جاتا ہے۔ بادشاہ یہ سُن کر بَغل گیر ہوا۔ اُس نے لعل اُگلا۔ شادِیانے بجے، بچھڑے ملے۔ اِس طرح جامِعُ المُتَفَرِّقین سب بچھڑوں کی دوری کا بَکھیڑا مِٹائے۔ جو جس کا مشتاق ہو، جس کی جُدائی جسے شاق ہو، وہ اُس سے مل جائے۔

جوگی نے یہ رام کہانی تمام کر کے جان عالم سے کہا: بابا! شعر:

مشکلے نیست کہ آساں نشود

مرد باید کہ ہِراساں نشود


جوئِندہ، یا بِندَہ ہے۔ یہاں سے منزلِ دوست قریب ہے۔ سب کچھ معلوم ہے؛ اِلّا، کہنا منع ہے، بُرا ہے۔ دُنیا مَقام چُپ رہنے کاہے۔ اِتنا اِس جگہ وَقفَہ کر کہ میری زیست کا ساغَر بادۂ اَجَل سے لب رِیز ہے، سمندِ جاں کو نَفَسِ سرد مہمیز ہے؛ مجھے زِیرِ زمیں سونپ تشریف لے جانا۔ اور چند وَصیّت کیں۔ جان عالم نے کہا: یہ قَلَق و رنج کس سے اُٹھے گا! بیٹھے بِٹھائے یہ صدمہ کیوں کر دیکھا جائے گا! پتھر کا کلیجا کہاں سے ہاتھ آئے گا کہ ایسے دوستِ غم خوار کو اپنے جیتے جی زِیرِ خاک کیجیے، اُس کے ماتَم میں گرِیبانِ صبر چاک کیجیے! یہ کہہ کر رونے لگا، گریباں تا دامن بارِشِ اشک سے بھگونے لگا۔ جوگی اِس کی مَحبّت کا بِرو گی ہوا، کہا: افسوس! دمِ واپَسیں کا عرصہ بہت کم، دم نہیں مار سکتے ہم؛ وگرنہ تیرے ہمراہ شریکِ درد و غم ہوتا۔ بھلا آخری، فقیر کا، اگر تجھ کو یاد یہ لَٹکا رہے گا، سائیں چاہے تو کہیں نہ اَٹکا رہے گا، قبر میں لے جا کر کیا کروں گا۔ پھر چند کلمے وہ بتائے کہ جس صورت کا دھیان لائے، فوراً ہو جائے۔

یہ مُقَدَّمَہ بتا، ہَر ہَر کر، گُرو کا نام لیا۔ پھر کلمہ جو پڑھا، دُنیا سے چل بسا، دم نکل گیا۔ جوگی مسافرِ عَدَم، بیکنٹھ باشی رَم گیا۔ جان عالم کا روتے روتے دَم گیا، بے تابانہ نعرۂ اَلفِراق مارے۔ مُرید، چیلے جمع ہو کر ’’گُرو گُرو‘‘ ’’یا ہادی‘‘ کہہ کر بہت پکارے۔ بولتا، نکل گیا، جوگی نے صدا نہ دی، منزلِ مقصد کی راہ لی۔ شہ زادے نے بہ موجِبِ وَصِیّت غُسل دیا، کفنایا؛ قبر تک لاتے لاتے کچھ نہ پایا۔ آخِر کار برابر کفن پھاڑ دیا؛ آدھا چیلوں نے جَلایا، نِصف مُریدوں نے مَنڈھی میں گاڑ دیا۔ ہندوؤں نے راکھ پر چھتری بنائی۔ مسلمانوں نے قَبر بنا کے سبز چادر اُڑھائی۔ وہ تَنت مُندرا، سُبحَہ و مُصَلّیٰ، خِرقَہ و جُبَّہ اُس کے منظورِ نظر کو دے کر جانَشیں کیا۔ مُرید، چیلوں کا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں سَونپا۔ اُسے ایک ولولہ آیا، اَز سَرِ نَو اُن سب کو یہ تَلقین کیا، رازِ سَر بستہ کھول کے ذہن نَشین کیا کہ سُنو بچہ! گو جوگی ظاہر میں آنکھوں سے نہاں ہے؛ مگر مُرشِد کا جلوہ، سائیں کا ظہورا ہر برگ و بار، بوٹے پتّے، گُل و خار، بلکہ دَرِ مسجد و دیوارِ کُنِشت سے دیدۂ دور بیں میں عَیاں ہے۔ عارِف کا یہ کلام ہے، سعدیؔ:

برگِ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار

ہر ورقے، دفتریست معرفتِ کردگار


دیدۂ بینا، گوشِ شنوا اِس رَمز کو درکار ہے۔ ہر ذرّے میں اُسی کا جھمَکڑا ہے۔ نمونۂ قدرت، نشانِ وحدت دُنیائے بے ثَبات کا نقش و نگار ہے۔ بلبل کے پردے میں تَرانہ سنجی ہوتی ہے۔ قمری کی کو کو مُتَلاشی کی جان کھوتی ہے۔ اُسی کے ذِکر میں سَر گرم ہے، جس کی زبان و مِنقار ہے۔ کسی کو حَرَمِ مُحترم میں نامَحرم رکھا، بھٹکایا؛ کسی کو بَیتُ الصَّنَم میں بُلا کر جلوہ دکھایا۔ کعبے کا دھوکا، دَیر کا بہانہ ہے؛ دَوڑا کر تھکانا ہے۔ اور جس نے مَن یَشآءُ کو رَہ بَر کر کے ڈھونڈھا، اُس نے گھر بیٹھے پایا۔ امیر خسروؔ:

جِن ڈھونڈھا، تِن پائیاں گہرے پانی پیٹھ

ہَوں بَوری ڈوبن ڈری، رہی کنارے بیٹھ


دُنیا کا مُعاملہ، مذہب و مِلّت کا جھگڑا، یہ اچھا وہ بُرا؛ پُر زِیاں، سَراسَر بے سود ہے۔ حق بے شک داتا ہر آن موجود ہے۔ رنج میں دل کو خوش، اَلَم میں طبیعت کو شاد رکھو۔ وَحدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہ نِرَنکار ہے۔ شِرکت کرنے والا مُشرِک، حماقت شِعار ہے۔ مُرسَل رہ بَر ہیں، پوشیدہ راز سے ماہر ہیں؛ اُن کو رَستگار جانو، بَریدِ یار سمجھ کر مانو۔ مُرشِد کی ذات، گُرو کی صِفات ہر جلسے میں یاد رکھو۔ بود و نابود کا غم نہ ہو۔ اور اَحباب کا دل کہ حَباب سے نازک تَر ہے، خدا کا گھر ہے، آشُفتَہ و بَرہَم نہ ہو۔ اللہ بس باقی بے فائدہ ہوس۔ یہ کہہ کر قصّہ مختصر کیا، بے خبروں کو باخبر کیا۔

جب اِس صحبت سے جان عالم کو فرصت ملی، چلنے کا عَزم کیا۔ اُس جانَشیں مَہَنت نے روکا اَور دو چار دن خاطِر سے مُقام کیا؛ پھر جس طرف جوگی نے بتایا تھا، چل نکلا۔ پہاڑ سے جس دم آگے بڑھا، دریا ملا، ہر چند ڈھونڈھا؛ ناؤ، بیڑے کا تھل بیڑا نہ لگا؛ مگر ایک لعلِ دَرَخشاں بہ روئے آبِ رَواں سامنے آیا۔ قریب اُس کے دوسرا نظر پڑا۔ اِسی طرح تھوڑے تھوڑے فاصلے سے بہت لعل بہتے دیکھے۔ تازہ فکر ہوئی کہ اِس حال کو کیوں کر دریافت کیجیے۔ کَنارے کَنارے سَیر دیکھتا چلا۔ دو کوس راہ جب طَے کی، عمارت عالی شان دیکھی اور اُس چشمے کو اُس کے اندر سے رَواں پایا۔ دروازے اور دَر کی بہت تلاش کی، تا اندر جانے کا باب مَفتوح ہو، نہ ہُوا۔ سوائے دیوار، دَر نہ تھا۔ اُس وقت بلبل بن کر دیوار پر جا بیٹھا۔ مکان رَفیعُ الشّان، باغ بھی بہار کا؛ مگر سُنسان، اِنسان نہ حیوان، فقط ایک بنگلا نہایت نقش و نِگار کا۔ وہ نہر اُسی بنگلے کے اندر سے جاری تھی۔ چمن خالی اور بادِ بہاری تھی۔ آدمی یا جانور ناطِق و مُطلَق، مُطلق نہ تھا۔ باغ میں اُتر صورتِ قدیم بدل کر بنگلے میں آیا۔ مُنقَّش، مُطَلّا، سجا سجایا پایا؛ لیکن طُرفَہ حال یہ دیکھا: ایک پلنگ زَمُرّد کے پایوں کا بچھا ہے، اُس پر کوئی دو شالہ تانے سوتا ہے۔ برابر، یاقوت کی تِپائی پر پھولوں کا دستہ: آدھے سرخ، نِصف سپید۔ جان عالم نے قدم بڑھا دو شالہ سرکایا۔ وہ تنِ پری پَیکر بے سَر نظر آیا۔ حسرت سے کہا: کس ظالم، ستم شِعار، بے رَحم، جفا کار نے اِس سَر دفترِ خوبی، سراسر دل بری و محبوبی کا سر کاٹا ہے۔ نخلِ شَمشاد کو تَبَرِ ظلم سے چھانٹا ہے!


بہ حیرت ہر طرف دیکھتا تھا۔ چھت پر آنکھ پڑی: چھینکا بندھا، سر کٹا دھرا ہے۔ سر کے نیچے نَہر جاری ہے۔ جو خون کا قطرہ اُس حَلقِ بُریدَہ سے پانی میں گرتا ہے، اللہ کی قدرتِ کامِلہ سے وہ لعل ہو کر تِرتا ہے۔ اِس نے کہا: سبحانَ اللہ! مُقَرَّر یہ سحر کا کارخانہ ہے۔ قریب جا کر غور سے جو دیکھا، تو انجمن آرا کا چہرہ تھا۔ پہچانتے ہی سَر و تَن کا ہوش نہ رہا۔ چاہا کہ سر سے سر ٹکرا کر ہَم سَر ہو، کسی کو نہ خبر ہو؛ بس کہ تَجربے کار ہو چکا تھا، سوچا: مرنا ہر وقت ممکن ہے، پہلے حال مُفَصَّل معلوم کر لو، کہیں حَوض کا سا دھُوکا نہ ہو۔ ہر چند غَوّاصِ عقلِ رَسا مُحیطِ فکر میں غُوطہ زَن و آشنا ہوا؛ گَوہرِ مقصد صَدَفِ مراد سے ہاتھ نہ لگا، مُعاملے سے نا آشنا رہا۔

اِس عرصے میں شام نزدیک ہوئی، تُند ہَوا چلی، شُور و غُل مچا۔ یہ سمجھا: اب کسی دِیو یا ساحِر کی آمد ہے، چھپا چاہیے۔ سَرِ گُلدستہ، گلبُنِ مَحبّت کے رو بہ رو بھونرا بن کے بیٹھ رہا۔ دفعتاً دیو آ پہنچا قَوی ہَیکَل، زَبوں شَمائِل؛ مگر وحشی سا، ہر سمت بو سونگھنے لگا۔ پھر اُسی گُلدستے سے سفید پھول توڑا، اُس یاسمیں پَیکر کو سنگھایا؛ سر اُچھل کر بدن سے مِلا، انجمن آرا اُٹھ بیٹھی۔ دِیو نے میوۂ تَر و خُشک رو بہ رو رکھا؛ مگر پریشان، ہر سو متحیر نگراں۔ شہ زادی نے کہا: خیر ہے؟ اُس نے کہا: آج غیر انسان کی بو آتی ہے اور تعجب یہ ہے خوف سے جان جاتی ہے۔ وہ کہنے لگی: ہمیں آج تک جانور کی پرچھائیں نہ نظر آئی، تو نے آدمی کی بو پائی۔ طُرفَہ خبط ہے، یہ جُملہ بے رَبط ہے۔ غرض کہ صبح تک مَذکورِ ہر شہر و دِیار، عجائِباتِ روزگار کا بیان رہا۔ دمِ سحر اُسی دستے سے سُرخ پھول اُس خوں آشام نے توڑ کر اُس لالہ فام کو سنگھایا۔ سر تو چھینکے پر سَر بلند ہو، تن نے پلنگ پر آرام فرمایا۔ دیو دوشالہ اُڑھا راہی ہُوا۔

جان عالم نے چار گھڑی بہ جبر صَبر کیا۔ پھر اپنی صورتِ اصلی بن کر، وہی سفید پھول توڑ کر سنگھایا۔ انجمن آرا بہ دستورِ اوّل اُٹھی، شہ زادہ چیخ مار کر لپٹ گیا۔ دونوں مَہجور اِس زور شور سے روئے کہ تمام باغ ہِل گیا، زمین و آسماں دَہَل گیا۔ جان عالم ہنُوز اپنے مَصائِب، وہاں تک آنے کا حال، فرقت کا درد و ملال کہنے نہ پایا تھا کہ انجمن آرا نے یہ کہا، لا اَعلَم:

تجھ بِن مری اَوقات جو اکثر گزری

وہ حالتِ نزع سے بھی بد تر گزری

تو تو کہے سَر گُذشت اپنی ظالم!

میں کس سے کہوں جو کچھ کہ مجھ پر گزری


یہ کہہ کر، پھر دونوں چِلّا چِلّا، آہ و بُکا سے رُونے لگے۔ دُنیا کے مُعاملے میں ہمیشہ سے کسی کی عقل نہیں لڑی، شکست ہوئی ہے۔ شعر:

بیک لحظہ، بیک ساعت، بیک دم

دگرگوں می شود احوالِ عالم


مُؤلِّف:

اک وَضع پر نہیں ہے زمانے کا طَور، آہ!

معلوم ہو گیا ہمیں لَیل و نہار سے


ہر عُقدۂ مالا یَنحَلِ ناگُزیر کے واسطے ناخُنِ تدبیر خَلق میں خَلق کیا ہے۔ اور جہان میں، جہاں تدبیر کا دَخل نہ ہو سکا، اُسے تقدیر کے حوالے کر دیا ہے۔ اکثر جس بات میں عقل عاجِز آتی ہے، وہی طرفۃُ العَین میں خود بہ خود ہو جاتی ہے۔

ناگہاں ایک سفید دیو زبردست، زور کے نشے سے سَرشار، مست، بڑا طاقت دار، رُستم کا یادگار اُدھر سے گزرا۔ نالۂ حَزیں، صدائے غمگیں کان میں آئی۔ بس کہ بہ ایں زور و طاقَتِ خُدا داد، وہ دیو نیک نِہاد رحم دل، غم رَسیدوں کے رنج کا شامل تھا، گریہ و زاری سُن کر دل کو بے قراری ہوئی، سمجھا: کوئی انسان نالاں ہے؛ مگر اِس صحرائے پُر خار، وادِیِ ہمہ تَن آزار میں آدمی کا ہونا مُحال ہے۔ اگر ہے، تو حقیقت میں مبتلائے اَلَم، اسیرِ پنجۂ ستم، خراب حال ہے۔ یہ سوچ کر باغ میں آیا۔ یہاں روتے روتے دونوں کو غش آ گیا تھا۔ دیو ڈھونڈھتا ہوا بنگلے میں آیا۔ دیکھا: مِہر و ماہ گردِشِ سپہر بے مِہر سے بُرجِ زَمُرَّدیں میں بے ہوش ہیں۔ چہرے کے رنگ اُڑے ہوئے، سَکتے کی حالت میں ہم آغُوش ہیں۔ روئے یار آئینہ دار درمیاں ہے، فلک بَرسَرِ اِمتحاں ہے۔ سمجھا: مدّت کے بعد دونوں کا مقابلہ ہوا ہے، اِس سے کُسوف و خُسوف کا رنگ ڈھنگ پیدا ہے۔ سَرِ بالینِ بیمارانِ مَحبّت بیٹھ کر، نہر سے پانی لیا، دونوں کے مُنہ پر چھڑکا۔ آنکھیں کھولیں، ہوش و حواس درست ہوئے۔ دیکھا کہ ایک دِیو سِرہانے بیٹھا ہے۔ سفید دِیو نے اُٹھ کر بہ آئینِ شائستہ سلام کیا، تسلّی کا کلام کیا، کہا: تَشویش نہ فرمائیے، بندہ دوست دار، جاں نثار ہے۔

پہلے جان عالم اُٹھا، بَغَل گیر ہوا۔ وہ حال پوچھنے لگا۔ بس کہ شہ زادہ عالم لَسّان، خوش بیاں تھا؛ اپنی رام کہانی چَرب زَبانی سے کہہ سُنائی۔ دیو ماجرائے گُذشتہ سُن کر بے قرار، اَشک بار ہوا، عَرض کی: آپ بہ دِل جمعیِ تمام آرام کیجیے؛ اب وہ قُرَّمساق آئے، تو عَمَلِ بد کی سزا پائے۔ جان عالم بہ شِدَّت لگاوٹ باز تھے؛ اُس سے بھائی چارا کیا، صیغہ اُخُوَّت پڑھا۔ وہ بیچارہ بندۂ بے دام، حلقہ بہ گوش غلام ہوا۔ وہاں سے اُٹھ کر باغ کی سَیر کرتے تھے کہ وہ جَفا کار بھی آ پہنچا۔ یہاں اَور رنگ دیکھا کہ شہ زادی، آدمی زاد کے ہمراہ پھرتی ہے؛ سفید دیو کا ہاتھ میں ہاتھ ہے، مُصاحَبَت کرتا ساتھ ہے۔ جَل کر جان عالم پر جھپٹا۔ دیو سفید نے بہ جلدیِ تمام اُس نُطفۂ حرام کا ہاتھ پکڑا۔ وہ کافِر اُس رَحم دِل سے لپٹا۔ باہَم کُشتی ہونے لگی۔ یہ کشمکش ہوئی کہ زمین جا بہ جا شق ہوئی۔ الغرض، بہ مَدَدِ مددگار و قوتِ پَروَردگار سفید دیو نے زمین سے لنگر اُکھاڑ، سر اُونچا کیا، زمین پر پٹک کے چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ جان عالم قریب آیا، زور و طاقت کی تعریف کرنے لگا، کہا: جنابِ باری نے تجھ مسافروں کے مددگار کی یاری کی، جو ایسے مَردود پر ایک دَم میں تجھے فتح و ظَفَر حاصل ہوئی؛ اگر ناگوارِ طبع نہ ہو، میں بھی ایک زور کروں۔ وہ بولا: بِسمِ اللہ۔ شہ زادے نے ایک ہاتھ شانے پر دھَر، دوسرے سے گردن اُس سرکش کی مضبوط پکڑ، دھَڑ سے کھینچ کر زمین پر دھَڑ سے پھینک دی۔ دیو سفید یہ طاقت دیکھ کر، سفید ہو گیا، شہ زادے کا چہرہ سُرخ ہوا۔ وہ زَرد رو، بے دین اَسفَلُ السّافِلین پہنچا۔

اِس عرصے میں سفید دیو کے ملازم بھی حاضر ہوئے۔ دعوت کی تیّاری، ضِیافت کی اِضافَت کی۔ ایک ہفتہ اَکل و شُرب، گانا ناچ خوب رہا۔ آٹھویں روز اُس ماہِ دو ہفتہ یعنی انجمن آرا نے رنجِ جدائیِ ملکہ مہر نگار، مردمان لشکر کا لب دریا انتظار بیان کر کے کہا: بہ خدا مفارقتِ ملکہ میں خواب و خور حرام ہے۔ چین دل کو نہ جی کو آرام ہے۔ تمھارے بارِ احساں سے دب کر کبھی ہنسی لب پر آ گئی؛ وگرنہ دورِ شراب و کباب خونِ دل، لختِ جگر تھا۔ ہر گلاس بُرادۂ الماس تھا، فقط تمھارا پاس تھا۔ اس نے عرض کی: میرے آدمی جائیں، پتا لگا آئیں۔ انجمن آرا نے کہا: اپنے تجسس میں زیادہ مزہ ہے، اپنا کام آپ خوب ہوتا ہے۔ ناچار رخصت ہو کر چلے اور آنے جانے کے باہم وعدہ ہائے مستحکم ہو گئے۔ مگر ہر دم ملکہ کا خیال، ہر گام دل پر فرقت کا ملال تھا کہ خدا جانے، ڈوب گئی یا ہماری طرح کسی آفت میں پھنسی۔ کبھی دو کوس کبھی چار کوس بہ صد حسرت و افسوس چلتے۔ دو تین دن میں پاؤں سوج گئے، چھالے پڑے، قدم اٹھانے کے لالے پڑے۔ وہ سفر سخت، یہ نازک مسافر، وہ کالے کوس مالوے کی طرح کے کافر۔ انجمن آرا جھلّا کر کہنے لگی، میرؔ:

کب تھا یہ شور و نوحہ، ترا عشق جب نہ تھا

دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی

آپ کی بدولت یہ ذلت و رسوائی، پیادہ پائی، صحرا نوردی، عزیزوں کی جدائی، غرض کہ کون سی مصیبت ہے جو نہ اٹھائی۔ میر سوزؔ:

چھڑا کر مجھ سے میرے خانماں کو

خدا جانے چلا ہے اب کہاں کو

شہزادہ ہنس کر چُپ ہو رہا۔ پھر وہ عمل جو جوگی سے سیکھا تھا، انجمن آرا کو بتایا۔ دونوں نے توتے کی ہیئت بنائی اور توکلت علی اللہ کہہ کر، نظر بہ خدا، ایک سمت سَرگرمِ پرواز ہوئے۔ پہر دو پہر اُڑنا، پھر کسی درخت پر بسیرا، خیمہ پاس نہ کوئی ہمراہ ڈیرا۔ اِس روپ میں قاصدِ سیر ہوئے۔ سابِق مُصاحِبِ انساں تھے، اب ہم نشینِ وَحش و طیر ہوئے۔ روز نیا پانی، نِت نیا دانہ۔ جس ٹہنی پر بیٹھ رہے وہی آشیانہ۔ کبھی جنگل طے کر کے کسی بستی میں ہو نکلے۔ گاہ کوئی سُنسان ویرانہ نظر پڑا، اُس میں سے رو نکلے۔ کبھی اپنی حکومت اور زمانہ جو یاد کیا؛ تو گھبرا کر فریاد کی، نالہ ایجاد کیا۔ اِسی طرح روز چلے جانا، دل سمجھانے کو یہ شعر لب پر لانا۔ لا اَعلم:

شبِ عشرت غنیمت دان و دادِ خوشدلی بستاں

کہ در عالَم کسے احوالِ فردا را نمی داند