فسانۂ عجائب/حالِ خُسراں مآل مجسٹن کے بیٹے کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search



حالِ خُسراں مآل مجسٹن کے بیٹے کا، سفر کو جانا، راہ میں جہازوں کا غرق ہو جانا۔ پھر تختے کے سہارے سے پہنچنا کنارے پر، فریفتہ ہونا ایک ماہ پارے پر۔ لڑکوں کا پیدا ہونا پھر تفرقہ، اور خفت کا مبتلا ہونا


وہ بولا: اسی شہر میں ایک شخص تھا مِجِسٹن نام۔ نہایت اہلِ دَوَل، مُرفّہ حال۔ صاحب علم و فضل، جامع ہر کمال۔ طبیب و ادیبِ بے بدل۔ سخن سنج، لطیفہ گو بر محل۔ کمالات میں یگانہ رُوزگار۔ تجارت میں نامورِ ہر دیار۔ سو سو جہاز ایک ایک بار تجارت کو جاتا تھا۔ نصیب ایسا جاگتا تھا مٹی کو چھوتا، سُونا ہاتھ آتا تھا۔ کسی طرح کا خواہش مند، بجُز فرزندِ ارجُمندنہ تھا۔ دُعا، دوا، خیرات تک بند نہ تھا۔ شب و رُوز اس کا خیال تھا۔ مُدام فرحت میں یہ ملال تھا۔ ہزاروں رنج لا ولدی کے سہتا تھا؛ مگر صابر ایسا تھا کہ خدا کے سوا کسی بندے سے کچھ نہ کہتا تھا۔

خوش قسمتوں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے، تمنائے دل حُصول ہوتی ہے۔ پچھتر برس کے سِن میں اللہ نے بیٹا عنایت کیا حسبِ دِل خواہ، صورت میں غیرتِ ماہ۔ بہت شاداں ہو کے سرگرم پرورش ہوا۔ ایک عالم اُس کی صورت دیکھ کے غش ہوا۔ جب بارہ برس کا سِن ہوا، نشیب و فراز دیکھنے کا دن ہوا؛ بہ سببِ طبعِ رسا و تعلیمِ اُستادانِ با ذَکا جمیع عُلوم، سب فُنون میں یکتائے زمانہ مشہور ہوا۔ ماں کو خوشی، باپ کو سُرور ہوا۔ درس دینے لگا، مطب کرنے لگا؛ اوروں کو تعلیم سب کرنے لگا۔ چودھویں برس باپ سے سفر کی اجازت چاہی کہ تجارت میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہ جائے، والدین کو حاصلِ مشقت دکھائے۔ مِجِسٹن نے کہا: اپنا بھی یہی قصد تھا؛ مگر چندے توَقُف کرو، ابھی ناتجربہ کار ہو۔ اُس نے عرض کی: حُضور عُمرِ طبعی کو پہنچے، مُسِن ہیں؛ فدوی کے سیاحت اور سفر کے یہی دن ہیں۔ چاہتا ہوں کہ آپ کے بہ قیدِ حیات سفر کو جاؤں؛ گرم و سردِ زمانہ دیکھوں، جودتِ طبع سب کو دکھاؤں۔

آخر مِجِسٹن نے دس بارہ جہاز پر متاع و مال اور کچھ رفیقِ قدیم کار گُزار، دیانت دار، امانت شعار ہمراہ کر رُخصت کیا۔ نشیب و فرازِ دوراں، نیرنگیِ جہاں سے آگاہ کر دیا۔ جہاز ایک سمت روانہ ہوئے۔ دو مہینے کے بعد ہوائے جورِ گردوں سے سرنِگوں ہو کے تباہ ہو گئے۔ مِجِسٹن کے بیٹے کا بھی جہاز ڈوب گیا۔ یارانِ ہمراہی عالمِ بقا کو راہی ہوئے، کچھ طعمۂ نِہنگ و ماہی ہوئے۔ یہ ایک تختے پر ڈوبتا تِرتا بہہ چلا۔ حیاتِ مُستعار باقی تھی؛ ساتویں دن ہِرتا پھرتا تختہ کنارے پر لگا۔ غش سے جو افاقہ ہوا؛ آنکھیں کھولیں، سر اُٹھایا، تختے کوگھاٹ پر پایا۔ بہرکیف اُترا۔ کچھ گھانس لا، رسی بنا، وہ تختۂ کشتیِ شکستہ پتھر سے اٹکا دیا۔ پھر آپ بہ تلاشِ آب و دانہ روانہ ہوا۔ تھوڑی مسافت بہ صد آفت طے کی۔ شہر عظیمُ الشان، بہت آبادان نمود ہوا۔ آہستہ آہستہ، بیٹھتا اُٹھتا شہر میں داخل ہوا۔ وہاں عجیب سانحہ، طُرفہ ماجرا نظر آیا؛ دُکان ہر ایک وا، اشرفی روپے کا ڈھیر جا بہ جا، اسباب سب طرح کا نایاب موجود، مگر آدمی کا پتا مُفقود۔ اس قرینے سے ثابت ہو اکہ عرصے سے یہ بازار جِنسِ بشر سے خالی ہے۔ ویرانِ مطلق ہے، شہر کا وارِث ہے نہ والی ہے۔ پھرتا پھرتا قلعے میں آیا۔ باغ سر سبز، پُر میوہ؛ بیچ میں بنگلا، زربفت کے نفیس پردے پڑے ہوئے، در و دیوار میں جواہر بیش بہا قرینے سے جڑے ہوئے۔ پردہ اُٹھا بنگلے میں گیا۔ پلنگ جواہر نگار گُستردہ، اس پر بہ شکلِ مُردہ ایک شخص دوپٹا تانے، نہ کوئی پائنتی نہ سرھانے، پڑا ہے۔ اس نے دوپٹا جو سرکایا، وہ عورت تھی۔ نیند سے چونک پڑی، سَر اُٹھایا، مُتعجب ہو کے اس کی صورت دیکھی، مُتاسف ہو کے یہ سُنایا کہ اے عزیز! اپنی جوانی پر رحم کر۔ یہ مکان نہیں، سیلِ فنا ہے؛ تو نا آشنا ہے۔ اس سے درگُزر، وگرنہ آفت کا مبتلا ہو گا، خدا جانے ایک دم میں کیا ہو گا! اس نے کہا: ایسا ماجرا کیا ہے، بیان تو کر۔ عورت نے کہا: پہلے تو اپنے یہاں آنے کا حال سُنا کہ کیوں کر آ پھنسا۔ اس نے کہا: ہفتہ گزرا بے دانہ و آب، خستہ و خراب ہوں؛ جو کچھ کھاؤں تو داستان پریشانی کی سُناؤں۔ عورت بولی: مدت کے بعد کھانے کا نام تیرے مُنہ سے سُنا ہے؛ سُو کھانا یہاں کہاں، بجُز غم کھانے کے اور پانی، سوا اشک بہانے کے۔ آنسو پینے کا نام ہے، اس سے نہیں پیتی ہوں اور کھانے کی قِسم سے قسم تک نہیں کھاتی۔ مُتحیر ہوں کیوں کر جیتی ہوں! مگر تنہائی میں ہاں، خوف کھا کے، رُوز دن بھرتی ہوں۔ ہر شب کہ شبِ اولینِ گور ہے، جاں کنی رہتی ہے؛ سخت جانی کی بدولت نہیں مرتی ہوں۔ جُرأتؔ:

یہ غلط کہتے ہیں، بے آب و خُوِرِش جیتے ہیں

لختِ دل کھاتے ہیں اور خونِ جگر پیتے ہیں

تو اس باغ میں جا، جس میوے پر رغبتِ خاطر ہو، کھا۔ مِجِسٹن کے بیٹے نے جا کے میوہ کھایا، نہر سے پانی پیا۔ گونہ رنجِ فاقہ کشی سے اِفاقہ ہوا۔ پھر عورت کے پاس بنگلے میں آ کے حسب و نسب اپنا اور باعِثِ سفر، جہاز کی تباہی کی مُفصل سرگذشت سُنائی۔ پھر اُس کا ماجرا پوچھا۔ وہ بولی: اے شخص! اس شہر بے چراغ کی میں شہ زادی ہوں۔ باپ میرا اس ملک کا حاکم تھا۔ چھوٹا بڑا یہاں کا شاد و خرم تھا۔ باپ جو تاج دار تھا، مجھ کو مشغلۂ سیر و شکار تھا۔ ایک روز لبِ دریا مصروفِ تماشا بیٹھی تھی، دفعتاً ایک سانپ پانی سے نکل کے میری طرف بڑھا۔ میں نے اُس کو تیر مارا۔ معلوم نہیں لگا یا خطا کر گیا۔ پھر جو دیکھا تو اژدہائے مُہیب بہ شکلِ عجیب جھپٹا آتا ہے۔ میں تو ڈر، گھوڑے پر چڑھ کر بھاگی۔ جو جو ہمراہِ رکاب تھے، طُعمۂ دہنِ مارِ خوں خوار ہوئے۔ کہاں تک بیان کروں؛ ساکنانِ شہر مع بادشاہ، انسان تا حیوان، کوئی نہ بچا، سب ہلاک ہوئے، تہِ خاک ہوئے؛ فقط میں سخت جان باقی ہوں۔ اور یہ صحبت ہے کہ قریبِ شام وہ مارِ خوں آشام آ کر اس بنگلے کے نیچے بیٹھتا ہے؛ دو گھڑی کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ مجھ پر جب بھوک پیاس کا غلبہ ہوتا ہے؛ اسی باغ سے میوہ کھا، پانی پیتی ہوں، اس خرابی سے جیتی ہوں۔ کوئی غم خوار بجُز ذاتِ پروردگار نہ تھا، جس کو حالِ زار سُناتی۔ اِتنے دنوں میں آج تجھے دیکھا؛ خوفِ خُدا آیا، مُطلع کر دیا۔

پِسر مِجِسٹن نے کہا: خاطِرِ پریشاں جمع رکھ؛ اگر فضلِ الٰہی مددگار ہے تو جلد اُس کو فی النار کر، تجھ کو اس آفت سے نجات دیتا ہوں۔ یہ کہہ کے، جس جگہ سانپ کے بیٹھنے کی جگہ عورت نے بتائی تھی، وہاں گڑھا کھُود اور قلعے سے باروت لا کر دور تک نقب سی بنا، باروت اُس میں چھڑک دی۔ پھر گھانس ہری اُس پر جمائی۔ شہ زادی نے کہا: اب وہ آتا ہی ہو گا۔ یہ جا کے سرِ نقب پوشیدہ ہو کر بیٹھ رہا؛ کہ دفعتاً وہ افعیِ پُر زہر، خدا کا قہر آیا اور اپنی جگہ پر اُس سبز قدم نے فرشِ زمُردیں پایا؛ بہت خوش ہو کر بیٹھا۔ یہ تو تاک میں تھا؛ پتھر سے آگ نکال، اُس نقب میں ڈال دی۔ فوراً ایک دھماکا پیدا ہوا، وہ ٹکڑا زمین کا مع سانپ آسمان پر پہنچا۔ دونوں نے شُکر کا سجدہ بہ درگاہِ دافِعُ البلیات کیا۔ باہم بے اندیشہ و غم رہنے لگے۔ سات برس دونوں ساتھ رہے۔ اس عرصے میں دو لڑکے بھی پیدا ہوئے۔ ایک دن رنجِ تنہائی کی شہ زادی نے شکایت کی کہ اکیلے طبیعت نہیں لگتی۔ سعدیؔ:

بہارِ عُمر، ملاقاتِ دوستدارانست

چہ حظ بَرَد خِضر از عُمرِ جاوِداں تنہا

کب تک تنہائی میں بسر کریں، شامِ غم انجام رو رو سحر کریں۔ کوئی ترکیب ایسی نکالو کہ پھر یہ ویران شہر آباد ہو، خاطِرِ غمگین شاد ہو۔ وہ بولا: اگر وطن جاؤں اور مِجِسٹن کو یہاں لاؤں، تو یہ بستی بسے۔ عورت نے کہا: اکیلی میں کیوں کر بسر کروں گی، میں بھی ساتھ چلوں گی۔ آخرشِ، ایک ایک لڑکا دونوں گود میں لے کے چل نکلے۔

قضارا، وہاں پہنچے جہاں تختہ بندھا تھا؛ ذِہن میں آیا: پیادہ پا لڑکوں کا لے چلنا مُحال ہے، یہ بے جا خیال ہے، توکلتُ علی اللہ کہہ کے اسی تختے پر سوار ہو، رسی کھول دو؛ کہیں تو جا نکلو گے۔ یہ سوچ کر دونوں سوار ہوئے۔ وہ تختہ کھولنے لگا، شہ زادی نے کہا: مال و اسباب تو اس قدر ہے کہ بیان میں زبان قاصر ہے؛ مگر ایک ناریل اکسیر سے بھرا ہے، دولتِ لا انتہا ہے، رتی باون تولے کا تجربہ ہو چکا ہے۔ بہت تردُد سے ظِلِّ سبحانی نے پایا تھا، سب سے چھپایا تھا؛ جو تو اجازت دے تو اُسے لے آؤں۔ مصر؏:

بد وزد طمع دیدۂ ہوشمند

مِجِسٹن کے بیٹے نے کہا: اچھا۔ وہ تختہ کچھ کھُلا کچھ بندھا، یوں ہی رہا۔ شہ زادی لڑکا لیے اُتری۔ اس کے اُترتے ہی ایسی تُند ہوا چلی کہ رسی، تکان سے ٹوٹ گئی؛ تختہ بہہ چلا۔ ہر چند اس نے ہاتھ پاؤں مارے، وہ ساحلِ مطلب سے کنارے ہوا۔ کنارے پر شہ زادی بہ حالِ خراب، دریا میں وہ با دلِ کباب بہہ نکلا۔ دل سے کہتا تھا: دیکھیے، مرضیِ ناخُدائے کشتیِ بادباں شکستہ کیا ہے! یہ جھونکا ہوائے قومِ ثمود، عاد کاہے۔ اس سوچ میں چلا جاتا تھا کہ ایک جہاز نمود ہوا۔ اہل جہاز نے جو دیکھا: تختے پر کوئی جوان گود میں لڑکا نادان لیے بہا جاتا ہے؛ رحم کھا، پنسوہی کو دوڑا جہاز پر لیا۔ اتفاقِ زمانہ، مالکِ جہاز مِجِسٹن کا دوست و دم ساز تھا؛ اُس کو پہچانا، بہت تعظیم تکریم سے پیش آیا۔

برس رُوز میں جہاز کلکتے میں داخل ہوا۔ جہاز کا حاکم مجسٹن کی ملاقات کو آیا، بچھڑے بیٹے کو باپ سے ملایا۔ یہاں جس دن سے جہاز کی تباہی مِجِسٹن نے سُن پائی تھی، محیطِ رنج و الم، غریق لُجّۂ غم تھا۔ بارے، بیٹے کو دیکھ کر سجدہ بہ درگاہِ باری کیا، پوتا گھاتے میں مِلا، اور کلمات شکریہ اُس سے کرنے لگا۔ اُس نے کہا: بندہ پرور! خیر ہے، دُنیا اسی کا نام ہے۔ جس کا کام جس سے نکلے، وہ فخر و سعادت سمجھے۔

بعد چند روز مِجِسٹن نے بیٹے سے رودادِ سفر پوچھی۔ اُس نے ابتدا سے انتہا تک حکایت، فلک کج رفتار کی شکایت بیان کی۔ وہ یہ سُن کر سمجھا: مشکل پیچ پڑا؛ مگر سہل انگاری سے یہ جواب دیا کہ الخیر فی مَا وَقَعَ خیریت اسی میں تھی جو ہوا۔ مصر؏

بر سرِ فرزندِ آدم ہرچہ آید، بگذرد

مگر یہ مقدمہ اور بیان ’’سرود بمستاں‘‘ ہُوا، بیٹے نے کہا: مناسب یہ ہے کہ اب جلد چلیے۔ ایسا مُلکِ مالا مال، یہ دولتِ لازوال ہاتھ سے نہ دیجیے، نصیبِ دُشمناں نہ کیجیے۔ مِجِسٹن نے کہا: خیر ہے بابا جان! کیسا آنا، کیسا جانا! یہ بھی ایک فسانہ تھا جو تم نے کہا، ہم نے سُنا؛ اور وہ بھی خوابِ پریشاں تھا جو تو نے دیکھا۔ اس کو یاد رکھ، لا اعلم:

ایامِ وِصال و صحبت سیم تناں

در عالمِ خواب اِحتلامے شد و رفت

بیٹے نے جواب دیا: آپ سا عقل مند ایسا کلمہ فرمائے تو نہایت بعید ہے۔ دُنیا میں تین معرکے ہیں: زر، زمین، زن؛ یہ سامان جمع ہیں؛ اگر آپ نہ جائیں گے، فِدوی تنہا جائے گا، پھر نہ آئے گا۔ مِجِسٹن نے کہا: افسوس! ہم تجھے دانا جانتے تھے؛ اِلّا، ہماری نادانی تھی۔ حُمُق کی مُقتضی تمہاری نوجوانی تھی۔ اے بھائی! کوئی نادان سے نادان عورت کی بات کا دھیان نہیں کرتا۔ یہ باتیں جب تک تھیں، جو تم اور وہ باہم تھے۔ وہ مونس تھی، تم ہم دم تھے۔ اب خیریت ہے۔ سعدیؔ:

زن دوست بود، ولے زمانے

چوں در برِ دیگرے نشیند

تا جُز تو نیافت مہربانے

خواہد کہ ترا دگر نہ بیند

مصر؏:

اسپ و زن و شمشیرِ وفا دار کہ دید

ہر چند اُس نے سر پھرایا، مغز خالی کیا، یہ مُقدمہ اُس پر حالی کیا؛ وہ بے مغز نہ سمجھا۔ مصحفی:

مصحفی! سود نصیحت کا نہیں عاشق کو

میں نہ سمجھوں تو بھلا کیا کوئی سمجھائے مجھے

ناچار مِجِسٹن نے کہا: تم جب تک ذلت نہ اُٹھاؤ گے اور ہمیں خراب نہ کرو گے؛ اس حرکتِ بے جا سے باز نہ آؤ گے، نہ چین لو گے۔ اُسی دن مِجِسٹن سامانِ سفر درست کر، ساٹھ جہاز مع اسباب اور چند مُشیر خوش تدبیر ہمراہ لے کر روانہ ہوا۔ عقل کے دشمن بیٹے کو ساتھ لیا۔ چند روز میں ہوا جو مُوافق تھی، وہ جزیرہ ملا۔ جہازوں کو لنگر ہوا۔ مِجِسٹن کا بیٹا اُترا۔ مگر جہاں ویرانہ، بوم و غول کا آشیانہ تھا، وہاں بستی دیکھی۔ اور جس جگہ بیہڑ تھا، اُسے ہموار پایا، بلندی نظر آئی، نہ پستی دیکھی۔ دشت مُصفیٰ، آدمی ہر سمت سرگرمِ کاروبار، شہر پناہ تیار۔ اسے تعجب ہوا، سمجھا کہ میں بھول گیا۔ کسی سے پوچھا: اس شہر کا نام کیا ہے؟ والی مُلک کون سا ہے؟ وہ بُولا: مدت سے یہ مُلک بہ سببِ آفتِ آسمانی اُجاڑ ہو گیا تھا۔ رِعایا برایا، بلکہ بادشاہ بھی نہ بچا تھا، فقط بادشاہ کی بیٹی باقی تھی۔ اب برس دن سے اُس نے وہشر کیا ہے۔ شہر از سرِ نو آباد ہوا، نیا طرز ایجاد ہوا۔ زمین یہاں کی زر رِیز، چشمے سرد و شیریں، ہوا فرحت انگیز، ٹھنڈی ہے۔ عورت نے بسایا ہے۔ اس باعث سے نام اس کا شہزادی منڈی ہے۔

مِجِسٹن نے یہ ماجرا سُن کر بیٹے سے کہا: خوش تو بہت ہوئے ہو گے! لو سیدھے پھِر چلو، یہاں نہ ٹھہرو۔ اُس نے کہا: اتنی سفر کی صُعوبت اُٹھائی، اُس کی صورت بھی نظر نہ آئی۔ دو باتیں کر لوں تو پھر چلوں۔ مِجِسٹن نے کہا: یہ مصیبت کچھ نہ تھی، جو بات کرنے میں ایذا اُٹھے گی۔ وہ کسی کی کب مانتا تھا، عورت کو اپنے اوپر فریفتہ جانتا تھا؛ انھیں لوگوں سے پھر پوچھا: شہ زادی کبھی سوار بھی ہوتی ہے؟ کسی سے دوچار بھی ہوتی ہے؟ وہ بولے: روز ہر گلی کوچے میں آتی ہے، دیکھ بھال کے چلی جاتی ہے۔ غرض کہ سواری کا وقت دریافت کر، لڑکے کا ہاتھ پکڑ کے سرِ راہ جا کھڑا ہوا؛ کہ شہ زادی شبدِیز کو مہمیز کرتی آ پہنچی۔ یہ پُکارا: ہم نے ایفائے وعدہ کیا، حاضر ہوئے، آئے اور لڑکا بھی فضلِ الٰہی سے سلامت موجود ہے، ساتھ لائے؛ کیا ارشاد ہوتا ہے؟ اُس نے بے گانہ وار، جیسے کسی اجنبی کو کوئی دیکھتا ہے، گھورا؛ مگر جواب کچھ نہ دیا، چلی گئی۔ یہ خفیف گھر پھرا۔

مِجِسٹن نے حال پوچھا، کیا گزری؟ یہ بولو: ملاقات نہ ہوئی، کل پھر جاؤں گا۔ اُس نے کہا: صُبح کا جانا؛ رُوزِ سیاہ، شامِ غم دکھائے گا؛ بھُور ہو جائے گی، بہت پچھتائے گا۔ اُس نے نہ مانا۔ دوسرے رُوز بیٹے کو سکھایا کہ جب سواری قریب آئے، گھوڑے سے لِپٹ جانا اور یہ زبان پرلانا کہ دُنیا کا لہو سفید ہو گیا۔ مہرِ مادری سے محبتِ پدری میں لطف زیادہ پایا کہ ہمیں ساتھ بہ آرامِ تمام لیے پھرتا ہے؛ تم بات بھی نہیں پوچھتی ہو، بلکہ پہچانتی نہیں۔ جس دم سواری قریب آئی؛ یہ تو بہت جلا تھا اور سمجھ چکا تھا کہ کھیل بگڑ گیا، کہا: شہ زادی! بات کو روکو، شیروں کا نعرہ سُن لو۔ وہ خود تو رُکی تھی، باگ بھی خود بہ خود رک گئی۔ پسرِ مِجِسٹن نے اور تو کچھ نہ کیا، یہ مُسدس شروع کیا، مُؤلف:

یاد ایام، کہ نفرت تھی زمانے سے تجھے

خوف آتا تھا کہیں آنے سے جانے سے تجھے

ہوتی وحشت تھی بہت غیر کے آنے سے تجھے

مکر تھا یاد، خبر تھی نہ بہانے سے تجھے


بے دھڑک غیر سے باتوں کا کبھی طور نہ تھا

ہمیں ہم تھے، تری صحبت میں کوئی اور نہ تھا


کبھی چوٹی کی خبر تھی نہ تھا کنگھی کا خیال

پان کے لاکھے سے اور مسّی سے ہوتا تھا ملال

بارہا اُلجھے ہی رہتے تھے ترے سلجھے بال

مجھ کو افسوس یہ آتا ہے کہ گُزرا نہیں سال


ایسی کیا بات تیرے دل میں سمائی ظالم!

دفعتاً سب وہ رہ و رسم بھلائی ظالم!


تھی لگاوٹ ہی تجھے یاد نہ خُلطا سب سے

بیٹھنا کونے میں ہر دم تجھے تنہا سب سے

گرم جوشی کا بھلا کب تھا یہ لپکا سب سے

تجھ کو لگ چلتے کبھی ہم نے نہ دیکھا سب سے


اب تو ٹٹی میں کیا چھید، غضب تو نے کیا

کھُل گیا سب پہ ترا بھید، غضب تو نے کیا


شکر صد شکر، ہوئی جلد رہائی تجھ سے

وضع اپنی نہیں، کیا کیجے بُرائی تجھ سے

اب تو تا حشر مکدر ہے صفائی تجھ سے

نہ ملیں پر، جو کہے ساری خُدائی تجھ سے


بہ خُدا، ملنے سے ہم ہاتھ ترے دھو بیٹھے

اُٹھو بس جاؤ، تمھیں کھُول کے دل رو بیٹھے


سوچ اکثر ہے مگر دل یہ ہمارا کرتا

ایسا بدنام تو وہ بھی نہ بچارا کرتا

گرچہ حیوان سے تو ربط گوارا کرتا

بحرِ اُلفت سے نہ اس طرح کنارا کرتا


مُفت لی پیارے! زمانے کی بُرائی ہم نے

سخت اوقات یہ بیہودہ گنوائی ہم نے


اب قسم کھاتا ہوں لو، دل نہ لگاؤں گا کبھی

گر طرح دار بھی اس دہر میں پاؤں گا کبھی

ذلت و رنج نہ اس طرح اُٹھاؤں گا کبھی

اُٹھ کھڑا ہوں گا، نہ میں پاس بٹھاؤں گا کبھی


موسم اب دل کے لگانے ہی کا، جانا، نہ رہا

ربط کیا خاک کریں ہم، وہ زمانا نہ رہا


بر زباں یاروں کے یہ ذکر رہے گا ہر بار

دیکھ بد وضع، کیا دیکھیے ایسا انکار

گو کہ عاشق تھا، مگر تھا یہ بڑا غیرت دار

سر پٹک مر گئے سب، پر نہ ملا وہ زنہار


کرے معشوق کسی سے تو دغا ایسی کرے

پچ کرے بات کی عاشق، تو بھلا ایسی کرے

یہ سُن کر وہ شرمندہ ہوئی۔ پھر لڑکا گھوڑے سے لپٹا۔ یہ بے چارہ نادان، اُن باتوں کا سود و زیاں کچھ نہ سمجھا؛ جو کچھ باپ نے سکھایا تھا، کہنے لگا۔ جب کہہ چُکا؛ شہ زادی نے تپنچہ قُبور سے کھینچ لڑکے پر جھونک دیا۔ دھم سے گر پڑا؛ دایۂ اجل نے کنارِ عاطفت میں اُٹھا، اہل قُبور سے ملا دیا۔ پھر باگ اُٹھا چل نکلی۔ مِجِسٹن کے بیٹے نے بہت خاک اُڑائی، بیٹے کی لاش باپ کو دکھائی۔ اُس نے کہا: ہماری بات جو سُنتا تو کیوں سر دھُنتا! وہ بدنصیب دشمنِ عقل بولا: صبح اختتام ہے؛ جو ہونا ہے، ہو جائے گا۔ مِجِسٹن نے کہا: تو اپنا بھی حال ایسا ہی بنائے گا۔ دمِ سحر جب وہ چلا؛ مِجِسٹن کا جی نہ رہ سکا، ساتھ ہوا۔ جس دم شہ زادی کی سواری پاس آئی، باگ پکڑ لی۔ ہنُوز زبان نہ ہلائی تھی، شہ زادی نے کہا: اے مِجِسٹن! ہم نے سُنا تھا کہ تو مردِ جہاں دیدہ، سرد و گرمِ روزگار چشیدہ، تجربہ رسیدہ ہے؛ مگر افسوس! بہ ایں ریش و فش پیرِ نابالغ ہے۔ تو نے سُنا نہیں، لا اعلم:

زحادثاتِ جہاں بس ہمیں پسند آمد

کہ خوب و زِشت، بد و نیک در گُذر دیدم

اس پیرانہ سالی میں تجھ پر ہزار سانحے گزرے ہوں گے؛ کچھ الم و رنج کا مزہ، یا فرحت و خوشی کا نشہ باقی ہے؟ اے ناداں! دُنیائے دوں کے مُعاملے بو قلموں ہیں۔ کس کس بات کو یاد کیجیے۔ کس کا غم، کس بات سے خاطر شاد کیجیے۔ اگر عقلِ رسایا یا کچھ فہم و ذکا ہو، تو دُنیا میں کافی ہے یہ بات: گُذشتہ را صلوات۔ مصحفی:

اے مصحفی! میں روؤں کیا پچھلی صُحبتوں کو

بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئے ہیں

یہ کہہ کر گھوڑا چھُچکارا کہ پھر سلسلہ جُنبانی اس امرِ بے معنی کی موجب مضرتِ جاں جاننا۔ مِجِسٹن نے بیٹے کو سلام کیا اور نہ کچھ کلام کیا۔ وہ بھی نُطفہ ضعیف کا پیدا، بوڑھے باپ کا بیٹا؛ محجوب وطن پھرا، جیتے جی باپ سے آنکھ چار نہ کی۔

یہ جُملہ اُس انگریز نے تمام کر کے کہا: مطلب اس سمع خراشی سے یہ ہے کہ آدمی وہ بات نہ کرے جس کا حُصول ذلت و خفت ہو۔ کہو اب کیا کہتے ہو؟ یہ قصہ سُن کر وہ فرہادِ بیسُتونِ عشق شیریں زبانی سے یہ کہنے لگا: یہ سب میں سُنا مگر بہ قولِ اُستاد:

کب تلک جیوں گا میں، موت اک دن آنی ہے

ہجر میں جو آ جاوے، عین مہربانی ہے

سب جلسہ سر پٹک کر اُٹھ کھڑا ہوا، کہا: جب یہ جان گنوائے گا، تب جھگڑا جائے گا۔ آخِر کار جب اُس کا حال رَدی ہوا؛ دوستوں کو چٹھیاں لکھ کر جمع کیا، کہا: دُنیا مقامِ گُذراں ہے۔ جو ہے، روَاں دوَاں ہے۔ کل اِس مَقام سے ہمارا کوچ ہے۔ یہ سَرا، سَراسَر پُوچ ہے۔ اگر ہماری وَصیت بجا لاؤ گے؛ دُنیا میں نام، حَشْر کو بہ خیر انجام ہو گا۔ سب نے اِقرار کیا کہ سَرِ مو اِس میں کمی بیشی نہ ہو گی، مطلق عاقبت اندیشی نہ ہو گی، جو جی میں ہو شوق سے کہو۔ اُس نے کہا: بعد اِنتِقال ہمارا جنازہ تکلُّف کا بنا کر بَجرے کی چھت پر صندوقِ نَعْش دھر، باجے بجاتے؛ ہمارے معشوق کی کوٹھی جو لبِ دریا ہے، دارِ فنا ہے، اُس کے نیچے سے لے جانا۔ اور دل میں یہ کہتا تھا، استاد:

ساتھ وہ میرے جنازے کے لَحَد تک آئے

اے اَجَل! تیرا قدم مجھ کو مبارک ہووے

قصہ مختصر، اُسی شب کو تڑپ کر اُس مریضِ فرقت کا ہجر میں وصال ہوا، سرائے فانی سے انتقال ہوا۔ گویاؔ:

مرنے کو بھی لوگ کہتے ہیں وصال

یہ اگر سچ ہے تو مر جاتے ہیں ہم

مُؤلف:

مر کے حاصل کیا فرقت ہی میں لو نامِ وصال

جان دی ہم نے، مٹایا ہے خلش ہجراں کا

صبح کو یہ خبر عام ہوئی کہ سوداگر بچی کے عاشقِ محروم، ناکام کا کام تمام ہوا، مر گیا۔ شُدہ شُدہ سوداگر کو اور اُس ماہ پیکر کو یہ حال معلوم ہوا۔ جذبِ محبت سے حال تغییر ہوا، مگر ضبط سے کام لیا، دلِ بے قرار کو تھام لیا۔ انگریز جمع ہو، بہ صد پریشانی وصیت بجا لائے۔ جنازہ درست کر، بجرے کی چھت پر دھر؛ لباس سب نے سیاہ کیا، نالہ و فریاد کر کے حال تباہ کیا۔ سر ننگے، غُل مچاتے، باجے بجاتے چلے۔ عجب سانحہ تھا کہ ہزارہا زن و مرد کنارے کنارے گریاں چلا آتا تھا۔ صندوقِ نعش کی طرف دیکھا نہ جاتا تھا۔ اُسی دن سے آج تک اندوہ میں دریا دریا اشک بحرِ عُماں کی چشم سے رواں ہے۔ مثلِ سیماب بے قرارانہ دواں ہے۔ اور جسے احباب حباب کہتے ہیں؛ یہ فرطِ قلق سے ہر مُحیط کی چھاتی میں پھپولا پڑتا ہے اور پھوٹتا ہے،، موجوں سے تلاطُم نہیں چھوٹتا ہے۔ ماہیانِ بحر کا خنجرِ الم سے حنجر یعنی گلا زخم دار ہے، سِنانِ غم سینے کے پار ہے۔ ساکنانِ دریا کو بس کہ شمشیرِ عشق کا خوف و خطر ہے، اس ڈر سے ہر سنگ پُشت کی پُشت پر سپر ہے۔

جس وقت اس حالِ خراب سے جنازہ اُس کی کوٹھی تلے آیا اور فرنگیوں نے شُور و غُل زیادہ مچایا؛ اُس زندۂ جاوید نے بہ آوازِ بلند سُنایا، اُستاد:

اے فلک! آخری پھیرا ہے، نہ ہو تجھ سے گر اور

اُس کے کوچے میں جنازہ مرا سنگین تو ہو

اُس وقت وہ ماہ سیما کشش دل اور تپشِ مُتصِل سے مُطلع ہو؛ دیوانہ وار بے قرار کُوٹھے پر چڑھی اور بے تابانہ پوچھا کہ یہ لاشِ دل خراش کس جگر پاش پاش کی ہے کہ حاجِبانِ بارگاہِ عشق سے صدا ’’دور باش دور باش‘‘ کی ہے۔ وہ سب بولے: عجب ماجرا ہے! یہ کشتہ تمھارا ہے۔ رنجِ مُفارقت نے آپ کے اسے بے اجل مارا ہے۔ افسوس کہ اس بے کس نے جان دی اور تم کو مُطلق خبر نہ ہوئی! اور کسی شخص نے عمداً اُسے سُنا کر یہ شعر پڑھا، جُرأتؔ:

مُکر جانے کا قاتل نے نرالا ڈھب نکالا ہے

سبھوں سے پوچھتا ہے: کس نے اس کو مار ڈالا ہے؟

یہ باتیں سُن کر، سر دھُن کر؛ دفعتاً نعرۂ جاں سُوز، آہِ دل دُوز سینۂ بریاں سے کھینچ، آتشِ غیرت میں بھن کر کود پڑی۔ عشق کا نشانہ دیکھیے: صندوقِ نعش پر گِر، ٹکڑے ٹکڑے مثلِ جگرِ عاشقِ زار ہو، خوابِ مرگ میں سو، بختِ خُفتۂ عاشق جگایا؛ کشش محبت نے اس طرح بچھڑوں کو ملایا۔ دیکھنے والے تھرا گئے، دل گُدازُوں کو غش آ گئے۔ شہر میں یہ چرچا گھر گھر ہوا، منزلوں یہ اخبار مشتہر ہوا۔ اُس کے ماں باپ نے بہت سی خاک سر پر اُڑا، دونوں کو پیوندِ زمیں کیا۔ اس عشقِ فتنہ انگیز نے کیا کیا نہیں کیا! تہِ خاک ہجر کے ماروں کو، بے قراروں کو قرار آیا۔ ہزارہا شخص دیکھنے کو سرِ مزار آیا، مطابق قولِ میر تقی:

حیرتِ کارِ عشق سے، مردُم

شکلِ تصویر، آپ میں تھے گُم


کام میں اپنے عشق پکا ہے

ہاں، یہ نیرنگ ساز یکا ہے


جس کے ہو التفات اُس کی، نصیب

ہے وہ مہمانِ چند روز، غریب


ایسی تقریب ڈھونڈھ لاتا ہے

کہ وہ ناچار جی سے جاتا ہے


کون محروم وصل یاں سے گیا

کہ نہ یار اُس کا اِس جہاں سے گیا


اپنی قدرت جہاں دکھاتا ہے

اس سے جو کچھ کہو سو آتا ہے

پھر یہاں سے خامۂ مصیبت نگار حالِ ملکۂ زار لکھتا ہے کہ آخر جی بتنگ ہُوا، تپِ دوری سے یہ ڈھنگ ہوا، اُستاد:

لگے زمین پر اب سب اُتارنے ہم کو

یہ دن دکھائے ترے انتظار نے ہم کو


فراق میں ترے، بن موت اب تو مارا ہے

تڑپ تڑپ کے، دلِ بے قرار نے ہم کو


جب اپنا، آہ، دمِ نزع کنٹھ بیٹھ گیا

تم آئے بالیں پر اُس دم پکارنے ہم کو

صبح سے تا شام ٹکٹکی جانب در و دستِ تاسُف بر سر اور دیوانوں کی طرح یہ کلمہ زبان پر، اُستاد:

زبس کہ رہتا ہے آنے کا اُس کے دھیان لگا

صدائے در پہ ہے در پردہ اپنا کان لگا


بہ یادِ زُلف، نہ تا دودِ آہ سب پہ کھُلے

میں مُنہ پر اس لیے رہتا ہوں پیچوان لگا


ہزار خار ہوئے تجھ سے، عندلیب! یہاں

یہ بے ثبات چمن ہے، نہ آشیان لگا

آخر کثرتِ انتظار سے نظر کمی کرنے لگی اور جانِ زار، تڑپنے سے دلِ بے قرار کے، برہمی کرنے لگی۔ یہ نوبت ہوئی، شعر:

گئے دن ٹکٹکی کے باندھنے کے

اب آنکھیں رہتی ہیں دو دو پہر بند

اُس وقت کشش محبتِ ملکۂ مہر نگار نے جان عالم کے دل کو بے چین کیا، خیال آیا کہ خُدا جانے صدمۂ فُرقت سے اُس کا کیا حال ہو گا! دل نے کہا: جینا وبال ہو گا۔ گھبرا کر دست پاچہ ہوا، عیش و نشاط بھولا؛ یہ تازہ گُل پھولا۔ انجمن آرا سے کہا: زیادہ طاقتِ مُفارقتِ احباب دلِ بے تاب کو، اور گوارا دوریِ وطن مجھ خستہ تن کو نہیں؛ آج بادشاہ سے رُخصت خواہ ہوں گا۔ وہ بہ ہر حال اطاعت اور رضا اس کی جمیع اُمور پر مُقدم جانتی تھی، کہا: مجھے بھی تمنائے سیرِ کُوہ و بیاباں، بے بیاں ہے۔

شہ زادہ مُوافقِ معمول دربار میں آیا اور سلسلۂ سُخن بہ طلبِ رُخصتِ وطن کھول کے، عزمِ بالجزم سُنایا۔ بادشاہ محزون و غم ناک ہو فرمانے لگا: یہ کیا کہا، جو کلیجا مُنہ کو آنے لگا! جانِ من! تابِ جُدائی نہیں، رُخصتِ بادیہ پیمائی نہیں۔ اگر خواہش سیر ہے، تو فِضا اس نواح کی جا بہ جا مشہور ہے۔ خزانہ موجود، فوج فرماں بردار، مُلک حاضر، میری جان نثار؛ اگر منظور ہے۔ حکمِ سفر، اجازتِ دوری بہت دور ہے۔

جان عالم نے دست بستہ عرض کی: اے شہر یارِ باوقار، پُر تمکین! برس دِن میں حُضور کو مجھ غمگیں سے یہ محبت ہوئی کہ مال، مُلک، سلطنت، بلکہ جان تک دریغ نہیں؛ وائے بر حالِ مادر و پدرِ سُوختہ جگر! جنھوں نے لاکھ منتوں، کرو رمُرادوں سے، دن کو دن نہ رات کو رات جان کر، سُولہ سترہ برس دُنیا کی خاک چھان کر مجھ کو پالا۔ شومیِ طالع، ولولۂ طبیعت نے گھر سے نکالا۔ اب مُدتِ مَدید، عرصہ بعید گُزرا؛ انھیں میرے جینے مرنے کا حال معلوم نہیں۔ اُن کے صدمے کو غور کیجیے، رُخصت بہ ہر طور کیجیے۔ آدمیت سے بعید ہے: آپ عیش و نشاط کرے، ماں باپ کو رنج و تعب میں چھُوڑ دے، سر رشتۂ اطاعتِ والدین توڑ دے۔ اُمید وار ہوں اِس امر میں حُضور کد نہ کریں، بہ کُشادہ پیشانی اجازتِ وطن دیں۔ اگر حیاتِ مُستعار، زیستِ نا پائیدار باقی ہے؛ پھر شرفِ آستاں بُوس حاصل کروں گا؛ نہیں تو اس فکر میں گھُٹ گھُٹ کر مروں گا۔ دین برباد ہو گا، دُنیا میں عزت و آبرو نہ رہے گی۔ خدا ناخوش ہو گا؛ خلقت تن پرور، راحت طلب کہے گی۔

بادشاہ سمجھا یہ اب نہ رُکے گا، آنسو آنکھوں میں بھر کر کہا: خیر بابا! مرضیِ خُدا، جو تیری رضا؛ مگر تیاریِ سامانِ سفر کو، چالیس دن کی مہلت چاہیے۔ جان عالم نے یہ بات قبول کی۔ یہ تو رُخصت ہو کر گھر آیا، خبر داروں نے اس حال کا خاص و عام میں چرچا مچایا۔ خُلاصہ یہ کہ شُدہ شُدہ غُلغُلہ گھر گھر ہوا۔ خُرد و کلاں، بوڑھا اور جوان شہر کا اس خبر سے باخبر ہوا۔