فسانہء مبتلا/18
گیارہواں باب: غیرت بیگم سے انصاف
ایسے ابتلا کے وقت میں خدا نے حاضر کی مدد کی۔ اس کو معلوم تھا کہ ناظر کے پاس سادہ سٹامپ کا ایک بستہ ہے۔ آخر ڈھونڈ سے ملا۔ کھول کر دیکھتا ہے۔ تو اس میں پرانے پچھلے سنوں کے متعدد قطعات ہیں، سمجھا کہ ناظر نے کسی ارادئہ فاسد سے ان کو بہم پہنچایا ہے۔
اس نے اٹھنی کا ایک قطعہ نیا سا دیکھ کر تو لے لیا اور باقی اس فساد کو پوٹ کر چولھے میں جھونک دیا جو قطعہ اس نے نکال لیا تھا۔ اس پر ایک درخواست لکھی جس کی عبارت یہ تھی کہ میں اور سید ناظر اور غیرت بیگم تینوں حقیقی بھائی بہن ہیں، غیرت بیگم کا نام پٹی داری میں داخل ہونے سے رہ گیا میں پٹی کا نمبر دار ہوں اور میرے ہاتھوں پٹی کی تحصیل وصول ہوتی ہے۔
غیرت بیگم کے حق اور قبضہ کومیں تصدیق کرتا ہوں۔ اسی لیے غیرت بیگم کا نام ایک خمس حصے پر چڑھا دیا جائے اور اسی وقت درخواست کو رجسٹری کرا کر حاکم پر گنہ کے نام روانہ کر دیا وہاں سے معمول کے مطابق اشتہار جاری ہوا۔ اشتہار کا آنا تھا کہ سید ناضر نے عذر داری کا مقدمہ لڑنا شروع کیا۔ کلکٹری میں تو سرسری کارروائی ہوتی ہے اور صرف قبضہ دیکھا جاتا ہے۔
چونکہ نمبر دار پٹی نے جس کے ہاتھ سے پٹی کی تحصیل وصول کی تھی غیرت بیگم کے قبضے کی تصدیق کی۔
اس سبب سے ناضر کی عذر داری نا منظور اور غیرت بیگم کا نام ایک خمس پر داخل ہونے کا حکم ہو گیا مگر سید ناظر محکمہ کلکٹری کو یا مال کو کچھ سمجھتا تھا۔ جس وقت داخل خارج کا حکم پہنچا تو اس کے مختار نے تسلی کے طور پر اس سے کہا کہ نمبردار کے بیان مجرد پر حکم ہو گیا ہے۔
یہ حاکم کی رائے ہے، اپیل کی بڑی گنجائش ہے۔ ناظر نے کہا: ارے میاں کہاں اپیل اور کس کا مراقعہ کل تو نہیں پرسوں تم کو والدہ کا تحریری وصیت نامہ لا کر دیتا ہوں۔ اس کی بنیاد پر اثبات حقیقت کا دعویٰ دیوانی میں دائر کرو تو نمبردار کی ساری شیخی کرکری ہو جائے گی۔ ناظر وصیت نامہ لینے گھر دوڑا ہوا آیا اور اسٹامپ کے بستے کی تلاش میں سیدھا کوٹھڑی میں گھسا بستہ ندارد اس کا ماتھا ٹھنکا معلوم ہوا کہ ایک بستہ تو بڑے میاں کوئی ڈیڑھ مہینہ ہوا جلا چکے ہیں۔
یہ سنتے ہی پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ حاضر ناظرکا جھگڑا ہمارے قصے سے متعلق نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ دونوں بھائیوں میں ایسی چلی ایسی چلی کہ سید نگر والوں میں بھی جو سنتا دانتوں میں انگلی رکھ لیتا تھا۔ قاعدہ ہے کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ سید حاضر کے ساتھ غیرت بیگم اور غیرت بیگم کی لپیٹ میں سید متقی کی بھی شامت آئی۔