فروغ مہر سے رندوں کا آخر کام کیا ہوگا
Appearance
فروغ مہر سے رندوں کا آخر کام کیا ہوگا
زمیں پر دور چلتا ہے فلک پر جام کیا ہوگا
یہ میں جانوں کہ میں نے کیوں کیا آغاز الفت کا
یہ وہ جانیں کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا
ترا ترک ستم تمہید ہے ترک تعلق کی
مجھے اس دل شکن آرام سے آرام کیا ہوگا
پریشاں میں نہیں لیکن جفا پر تم پشیماں ہو
وفا پر میری اس سے بڑھ کے اور الزام کیا ہوگا
شرابی ہے وہی رگ رگ میں جس کی قدرتی مے ہو
نہ ہو کیف آفریں جو دل وہ مے آشام کیا ہوگا
خوشی ہوگی دوامی غم زدوں کو جب کبھی ہوگی
جسے ہر وقت ہو آرام اسے آرام کیا ہوگا
گماں تھا نیک مجھ پر نیک لوگوں کا سو اب تک ہے
مگر اب میں کہاں ناطقؔ مجھے الہام کیا ہوگا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |