فرق کچھ تو چاہیئے اغیار سے
Appearance
فرق کچھ تو چاہیئے اغیار سے
سر الفت ہم چھپائیں یار سے
اپنی آنکھوں سے اگر تشبیہ دوں
اشک ٹپکے روزن دیوار سے
بات ان کی معتبر ہے سچ کہا
حال میرا پوچھئے اغیار سے
اس کی چوٹی میں نہیں موباف سرخ
اٹھے ہیں شعلے دہان مار سے
دھوپ میں بیٹھوں کہ خجلت سے عدو
بھاگ جائیں سایۂ دیوار سے
پاس سے تیرے اٹھاتی غیر کو
زور ہو سکتا جو چشم زار سے
چھوٹتی ہیں منہ پہ کیا مہتابیاں
وصل کے دن سایۂ دیوار سے
سو طرح کی فکر میں تسکیںؔ پڑے
دل لگا کر اس بت عیار سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |