فرق جب لذت احساس میں پایا نہ گیا
فرق جب لذت احساس میں پایا نہ گیا
درد دیکھا نہ گیا تم کو دکھایا نہ گیا
چٹکیاں کون یہ رہ رہ کے لئے جاتا ہے
میرے دل میں تو مری جاں کوئی آیا نہ گیا
لطف یوں رنجش بے جا کے لئے پہروں تک
بے سبب روٹھنے والے کو منایا نہ گیا
خواب پر کیف کا منظر بھی نشاط آور تھا
دوست کو اس لئے کچھ دیر جگایا نہ گیا
منع کرتی جو رہی خندہ جبینی اس کی
درد دل اپنا کبھی اس کو سنایا نہ گیا
خود ہنسا وہ یہ جوانی کی کرم بخشی ہے
خسرو حسن کو مجھ سے تو ہنسایا نہ گیا
دے تو دی ضبط محبت کی قسم ظالم نے
فائدہ ضبط محبت کا بتایا نہ گیا
کب دکھاتا ہے وہ بربادیٔ حسرت کا سماں
خاک میں جب مری حسرت کو ملایا نہ گیا
روشنی جس کی دکھاتی تھی مجھے بھول ہی بھول
اس قمروش کا وہ انداز بھلایا نہ گیا
طور کی پوری طرح یاد دلائی نہ گئی
ہوش چھینے تو گئے ہوش میں لایا نہ گیا
ان کی مشکوک نظر میں وہ مزا تھا منظور
کہ یقیں اپنی محبت کا دلایا نہ گیا
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |