Jump to content

فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے

From Wikisource
فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
by میر انیس
294943فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہےمیر انیس

فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
سادات کی بستی کے اجڑنے کی خبر ہے
در پیش ہے وہ غم، کہ جہاں زیر و زبر ہے
گل چاک گریباں ہیں صبا خاک بہ سر ہے
گل رو صفتِ غنچہ کمر بستہ گھڑے ہیں
سب ایک جگہ صورتِ گلدستہ کھڑے ہیں

آراستہ ہیں بہر سفر، سروِ قبا پوش
عمامے سروں پر ہیں عبائیں بسر دوش
یارانِ وطن ہوتے ہیں آپس میں ہم آغوش
حیراں کوئی تصویر کی صورت کوئی خاموش
منہ ملتا ہے رو کر کوئی سرور کے قدم پر
گر پڑتا ہے کوئی علیؔ اکبر کے قدم پر

عباسؔ کا منہ دیکھ کے کہتا ہے کوئی آہ
اب آنکھوں سے چھپ جائے گی تصویر یداللہ
کہتے ہیں گلے مل کے یہ قاسم کے ہوا خواہ
واللہ دلوں پر ہے عجب صدمۂ جانکاہ
ہم لوگوں سے شیریں سخنی کون کرے گا
یہ انس، یہ خُلقِ حسنی کون کرے گا

روتے ہیں وہ، جو عون و محمد کے ہیں، ہم سن
کہتے ہیں کہ مکتب میں نہ جی بہلے گا تم بن
اس داغ سے چین آئے ہمیں، یہ نہیں ممکن
گرمی کا مہینہ ہے سفر کے یہ نہیں دن
تم حضرتِ شبیرؔ کے سایے میں پلے ہو
کیوں دھوپ کی تکلیف اٹھانے کو چلے ہو

ہم جولیوں سے کہتے تھے وہ دونوں برادر
ہاں بھائیو تم بھی ہمیں یاد آؤ گے اکثر
پالا ہے ہمیں شاہ نے، ہم جائیں نہ کیوں کر
ماموں رہیں جنگل میں تو اپنا ہے وہی گھر
وہ دن ہو کہ ہم حقِّ غلامی سے ادا ہوں
تم بھی یہ دعا مانگو کہ ہم شہ پہ فدا ہوں

رخصت کے لئے لوگ چلے آتے ہیں باہم
ہر قلب حزیں ہے، تو ہر اک چشم ہے پُر نم
ایسا نہیں گھر کوئی کہ جس میں نہیں ماتم
غل ہے کہ چلا دلبرِ مخدومۂ عالم
خدام کھڑے پیٹتے ہیں قبر نبی کے
روضہ پہ اداسی ہے رسولِ عربی کے

ہے جب سے کھلا حالِ سفر بند ہے بازار
یہ جنسِ غم ارزاں ہے کہ روتے ہیں دکاں دار
خاک ارتی ہے ویرانیِ یثرب کے ہیں آثار
ہر کوچے میں ہے شور، کہ ہے ہے شہِ ابرار
اب یاں کوئی والی نہ رہا آہ ہمارا
جاتا ہے مدینے سے شہنشاہ ہمارا

تدبیر سفر میں ہیں ادھر سبطِ پیمبر
گھر میں کبھی آتے ہیں کبھی جاتے ہیں باہر
اسباب نکلواتے ہیں عباسؔ دلاور
تقسیم سواری کے تردد میں ہیں اکبرؔ
شہ کو جنہیں لے جانا ہے، وہ پاتے ہیں گھوڑے
خالی ہوا اصطبل، چلے آتے ہیں گھوڑے

حاضر درِ دولت پہ ہیں، سب یاور و انصار
کوئی تو کمر باندھتا ہے اور کوئی ہتھیار
ہودج بھی کسے جاتے ہیں، محمل بھی ہیں تیار
چلاتے ہیں درباں، کؤی آئے نہ خبردار
ہر محمل و ہودج پہ گھٹا ٹوپ پڑے ہیں
پردے کی قناتیں لئے فراش کھڑے ہیں

عوراتِ محلہ چلی آتی ہیں بصد غم
کہتی ہیں یہ دن رحلتِ زہراؔ سے نہیں کم
پُرسے کی طرح رونے کا غل ہوتا ہے ہر دم
فرش اٹھتا ہے کیا بچھتی ہے گویا صفِ ماتم
غل ہوتا ہے ہر سمت، جدا ہوتی ہے زینبؔ
ہر اک کے گلے ملتی ہے اور روتی ہے زینبؔ

لے لے کے بلائیں یہی سب کرتی ہیں تقریر
اس گرمی کے موسم میں کہاں جاتے ہیں شبیرؔ
سمجھاتی نہیں بھائی کو اے شاہ کی ہمشیر
مسلم کا خط آ لے تو کریں کوچ کی تدبیر
للّٰلہ ابھی قبر پیمبرؐ کو نہ چھوڑیں
گھر فاطمہؔ زہرا کا ہے اس گھر کو نہ چھوڑیں

وہ گھر ہے ملک رہتے تھے جس گھر کے نگہباں
کیوں اپنے بزرگوں کا مکاں کرتے ہیں ویراں
کوفے کی بھی خلقت تو نہیں صاحب ایماں
بی بی یہ مدینے کی تباہی کا ہے ساماں
ایک ایک شقی دشمنِ اولادِ علیؔ ہے
شمشیر ستم واں سرِ حیدر پہ چلی ہے

اجڑے گا مدینہ جو یہ گھر ہوئے گا خالی
بربادیِ یثرب کی بنا چرخ نے ڈالی
کیا جانیں پھر آئیں کہ نہ آئیں شہِ عالی
حضرت کے سوا کون ہے اس شہر کا والی
زہراؔ ہیں نہ حیدرؔ نہ پیمبر نہ حسنؔ ہیں
اب ان کی جگہ آپ ہیں یا شاہِ زمن ہیں

گرمی کا یہ دن اور پہاڑوں کا سفر آہ
ان چھوٹے سے بچوں کا نگہبان ہے اللہ
رستے کی مشقت سے کہاں ہیں ابھی آگاہ
ان کو تو نہ لے جائیں سفر میں شہِ ذی جاہ
قطرہ بھی دمِ تشنہ دہانی نہیں ملتا
کوسوں تلک اس راہ میں پانی نہیں ملتا

منہ دیکھ کے اصغر کا چلا آتا ہے رونا
آرام سے مادر کی کہاں گود میں سونا
جھولا یہ کہاں اور کہاں نرم بچھونا
لکھا تھا اسی سن میں مسافر انہیں ہونا
کیا ہوگا جو میداں میں ہوا گرم چلے گی
یہ پھول سے کمھلائیں گے، ماں ہاتھ ملے گی

ان بیبیوں سے کہتی تھی یہ شاہ کی ہمشیر
بہنوں ہمیں یثرب سے لئے جاتی ہے تقدیر
اس شہر میں رہنا نہیں ملتا کسی تدبیر
یہ خط پہ خط آئے ہیں کہ مجبور ہیں شبیرؔ
مجھ کو بھی ہے رنج ایسا کہ کچھ کہہ نہیں سکتی
بھائی سے جدا ہو کے مگر رہ نہیں سکتی

اماں کی لحد چھوڑ کے میں یاں سے نہ جاتی
فاقے بھی اگر ہوتے تو غم اس کا نہ کھاتی
بھائی کی طرف دیکھ کے شق ہوتی ہے چھاتی
بے جائے، مجھے بات کوئی بن نہیں آتی
ظاہر میں تو مابین لحد سوتی ہیں اماں
میں خواب میں جب دیکھتی ہوں روتی ہیں اماں

ہے روح پہ اماں کی قلق کرتی ہیں زاری
سر پیٹتے میں نے انہیں دیکھا کئی باری
روداد بیاں کر گئی ہیں مجھ سے وہ ساری
فرماتی تھیں بھائی سے خبر دار میں واری
غم خوار ہے تو اور خدا حافظِ جاں ہے
نہ باپ ہے سر پر مرے بچے کے نہ ماں ہے

یاد آتی ہے ہر دم مجھے اماں کی مصیبت
کچھ جان کی تھی فکر نہ ان کو دمِ رحلت
آہستہ یہ فرماتی تھیں باصد غم و حسرت
شبیرؔ سدھارے جو سوئے وادیِٔ غربت
اس دن مری تربت سے بھی منہ موڑیو زینبؔ
اس بھائی کو تنہا نہ کبھی چھوڑیو زینبؔ

اماں کی وصیت کو بجا لاؤں نہ کیوں کر
گھر بھائی سے تھا بھائی نہ ہوگا تو کہاں گھر
دو بہنیں ہیں ماں جائیاں اور ایک برادر
رسی سے بندھے ہاتھ کہ بلوے میں کھلے سر
جو ہووے سو ہو بھائی کے ہمراہ ہے زینبؔ
اس کوچ کے انجام سے آگاہ ہے زینبؔ

یہ کہتی تھی زینبؔ کہ پکارے شہِ عادل
تیار ہیں دروزاے پہ سب ہودج و محمل
طے شام تلک ہوگی کہیں آج کی منزل
رخصت کرو لوگوں کو بس اب رونے سے حاصل
چلتی ہے ہوا سرد ابھی وقت سحر ہے
بچے کئی ہمراہ ہیں گرمی کا سفر ہے

رخصت کرو ان کو جو کہ ہیں ملنے کو آئے
کہہ دو کوئی گہوارۂ اصغر کو بھی لائے
نادان سکینہؔ کہیں آنسو نہ بہائے
جانے کی خبر میری نہ صغراؔ کہیں پائے
ڈر ہے کہیں گھبرا کے نہ دم اس کا نکل جائے
باتیں کرو ایسی کہ وہ بیمار بہل جائے

رخصت کو ابھی قبر پیمبر پہ ہے جانا
کیا جانیے پھر ہو کہ نہ ہوئے مرا آنا
اماں کی لحد پر ہے ابھی اشک بہانا
اس مرقدِ انور کو ہے آنکھوں سے لگانا
آخر تو لئے جاتی ہے، تقدیر وطن سے
چلتے ہوئے ملنا ہے ابھی قبرِ حسن سے

سن کر یہ سخن بانوئے ناشاد پکاری
میں لٹتی ہوں کیسا سفر اور کیسی سواری
غش ہو گئی ہے فاطمہؔ صغرا مری پیاری
یہ کس کے لئے کرتے ہیں سب گریہ و زاری
اب کس پہ میں اس صاحبِ آزار کو چھوڑوں
اس حال میں کس طرح سے بیمار کو چھوڑوں

ماں ہوں میں، کلیجہ نہیں، سینہ میں سنبھلتا
صاحب مرے دل کو ہے کوئی ہاتھوں سے ملتا
میں تو اسے لے چلتی، یہ کچھ بس نہیں چلتا
رہ جاتیں جو بہنیں بھی تو دل اس کا بہلتا
دروازے پہ تیار سواری پہ کھڑی ہے
پر اب تو مجھے جان کی صغراؔ کی پڑی ہے

چلاتی تھی کبراؔ کہ بہن آنکھ تو کھولو
کہتی تھی سکینہؔ کہ ذرا منہ سے تو بولو
ہم جاتے ہیں تم اٹھ کے بغل گیر تو ہو لو
چھاتی سے لگو باپ کی دل کھول کے رو لو
تم جس کی ہو شیدا وہ برادر نہ ملے گا
گھر بھر میں جو ڈھونڈو گی تو اکبر نہ ملے گا

ہشیار ہو کیا صبح سے بیہوش ہے خواہر
اصغرؔ کو کرو پیار کلیجے سے لگا کر
چھاتی سے لگو اٹھ کے کھڑی روتی ہیں مادر
ہم روتے ہیں دیکھو تو ذرا آنکھ اٹھا کر
افسوس، اسی طور سے غفلت میں رہو گی
کیا آخری بابا کی زیارت نہ کرو گی

سن کر یہ سخن شاہ کے آنسو نکل آئے
بیمار کے نزدیک گئے سر کو جھکائے
منہ دیکھ کے بانو کا سخن لب پہ یہ لائے
کیا ضعف و نقاہت ہے، خدا اس کو بچائے
جس صاحبِ آزار کا یہ حال ہو گھر میں
دانستہ میں کیوں کر اسے لے جاؤں سفر میں

کہہ کر یہ سخن بیٹھ گئے سید خوش خو
اور سورۂ الحمد پڑھا تھام کے بازو
بیمار نے پائی گلِ زہراؔ کی جو خوش بو
آنکھوں کو تو کھولا پہ ٹپکنے لگے آنسو
ماں سے کہا مجھ میں جو حواس آئے ہیں اماں
کیا میرے مسیحا مرے پاس آئے ہیں اماں

ماں نے کہا ہاں ہاں وہی آئے ہیں مری جاں
جو کہنا ہو کہہ لو کہ یہاں اور ہے ساماں
دیکھو تو ادھر روتے ہیں بی بی شہِ ذی شاں
صغراؔ نے کہا ان کی محبت کے میں قرباں
وہ کون سا ساماں ہے جو یوں روتے ہیں بابا
کھل کر کہو مجھ سے کہ جدا ہوتے ہیں بابا

یہ گھر کا سب اسباب گیا کس لئے باہر
نہ فرش، نہ ہے مسندِ فرزند پیمبر
دالان سے کیا ہوگیا گہورۂ اصغرؔ
اجڑا ہوا لوگو نظر آتا ہے مجھے گھر
کچھ منہ سے تو بولو مرا دم گھٹتا ہے اماں
کیا سبطِ پیمبر سے وطن چھٹتا ہے اماں

شبیرؔ کا منہ تکنے لگی بانوئے مغموم
صغراؔ کے لئے رونے لگیں زینبؔ و کلثومؔ
بیٹی سے یہ فرمانے لگی سیدِ مظلوم
پردہ رہا اب کیا تمہیں خود ہوگیا معلوم
تم چھٹتی ہو اس واسطے سب روتے ہیں صغراؔ
ہم آج سے آوارہ وطن ہوتے ہیں صغراؔ

اب شہر میں اک دم ہے ٹھہرنا مجھے دشوار
میں پا بہ رکاب، اور ہو تم صاحبِ آزار
پھر آتا ہے وہ گھر میں، سفر میں جو ہو بیمار
تکلیف تمہیں دوں یہ مناسب نہیں زنہار
غربت میں بشر کے لئے سو طرح کا ڈر ہے
میرا تو سفر رنج و مصیبت کا سفر ہے

لُو چلتی ہے خاک اڑتی ہے گرمی کے ہیں ایام
جنگل مین نہ راحت، نہ کہیں راہ میں آرام
بستی میں کہیں صبح، تو جنگل میں کہیں شام
دریا کہیں حائل، کہیں پانی کا نہیں نام
صحّت میں گوارا ہے جو تکلیف گذر جائے
اس طرح کا بیمار نہ مرتا ہو تو مرجائے

صغراؔ نے کہا کھانے سے خود ہے مجھے انکار
پانی جو کہیں راہ میں مانگوں تو گنہگار
کچھ بھوک کا شکوہ نہیں کرنے کی یہ بیمار
تبرید فقط آپ کا ہے شربتِ دیدار
گرمی میں بھی راحت سے گزر جائے گی بابا
آئے گا پسینہ تپ اتر جائے گی بابا

کیا تاب اگر منہ سے کہوں درد ہے سر میں
اف تک نہ کروں، بھڑکے اگر آگ جگر میں
بھولے سے بھی شب کو نہ کراہوں گی سفر میں
قربان گئی، چھوڑ نہ جاؤ مجھے گھر میں
ہو جانا خفا راہ میں گر روئے گی صغراؔ
یاں نیند کب آتی ہے جو واں سوئے گی صغراؔ

وہ بات نہ ہوگی، کہ جو بے چین ہوں مادر
ہر صبح میں پی لوں گی دوا آپ بنا کر
دن بھر، مری گودی میں رہیں گے علی اصغرؔ
لونڈی ہوں سکینہؔ کی، نہ سمجھو مجھے دختر
میں یہ نہیں کہتی کہ عماری میں بٹھا دو
بابا مجھے فضہ کی سواری میں بٹھا دو

شہہ بولے کہ واقف ہے مرے حال سے اللہ
میں کہہ نہیں سکتا مجھے درپیش ہے جو راہ
کھل جائے گا یہ راز بھی، گو تم نہیں آگاہ
ایسا بھی کوئی ہے جسے بیٹی کی نہ ہو چاہ
ناچار یہ فرقت کا الم سہتا ہوں صغراؔ
ہے مصلحتِ حق یہی جو کہتا ہوں صغراؔ

اے نورِ بصر آنکھوں پہ لے کر تجھے چلنا
تو مجھ سے بہلتی، مرا دل تجھ سے بہلتا
تپ ہے تجھے، اور غم سے جگر ہے مرا جلتا
یہ ضعف کہ دم تک نہیں سینے میں سنبھلتا
جز ہجر علاج اور کوئی ہو نہیں سکتا
دانستہ تمہیں ہاتھ سے میں کھو نہیں سکتا

منہ تکنے لگی ماں کا وہ بیمار بصد غم
چتون سے عیاں تھا کہ چلیں آپ موئے ہم
ماں کہتی تھی مختار ہیں، بی بی شہ عالم
میرے تو کلیجے پہ چھری چلتی ہے اس دم
وہ درد ہے جس درد سے چارا نہیں صغراؔ
تقدیر سے کچھ زور ہمارا نہیں صغراؔ

صغراؔ نے کہا کوئی کسی کا نہیں زنہار
سب کی یہی مرضی ہے کہ مر جائے یہ بیمار
اللہ نہ وہ آنکھ کسی کی ہے، نہ وہ پیار
اک ہم ہیں کہ ہیں، سب پہ فدا سب کے ہیں غم خوار
بیزار ہیں سب ایک بھی شفقت نہیں کرتا
سچ ہے کوئی مردے سے محبت نہیں کرتا

ہمشیر کے عاشق ہیں سلامت رہیں اکبرؔ
اتنا نہ کہا مر گئی یا جیتی ہے خواہر
میں گھر میں تڑپتی ہوں وہ ہیں صبح سے باہر
وہ کیا کریں برگشتہ ہے اپنا ہی مقدر
پوچھا نہ کسی نے کہ وہ بیمار کدھر ہے
نہ بھائیوں کو دھیان نہ بہنوں کو خبر ہے

کیا ان کو پڑی تھی جو وہ غم کھانے کو آتے
میں کون جو صورت مجھے دکھلانے کو آتے
ہوتی جو غرض چھاتی سے لپٹانے کو آتے
زلفیں جو الجھتی تو، سلجھوانے کو آتے
کل تک تو مرے حالِ پریشاں پہ نظر تھی
تقدیر کے اس پیچ کی مجھ کو نہ خبر تھی

مانوس سکینہؔ سے ہیں عباسؔ دلاور
میں کون ہوں جو میری خبر پوچھتے آ کر
سرسبز رہے خلق میں نو بادۂ شبّر
شادی میں بلائیں مجھے یہ بھی نہیں باور
بے دولہا بنے منہ کو چھپاتے ہیں ابھی سے
میں جیتی ہوں اور آنکھ چراتے ہیں ابھی سے

کس سے کہوں اس درد کو میں بیکس و رنجور
بہنیں بھی الگ مجھ سے ہیں اور بھائی بھی ہیں دور
اماں کا سخن یہ ہے کہ بیٹی میں ہوں مجبور
ہمراہیٔ بیمار کسی کو نہیں منظور
دنیا سے سفر، رنج و مصیبت میں لکھا تھا
تنہائی کا مرنا مری قسمت میں لکھا تھا

سب بیبیاں رونے لگیں سن سن کے یہ تقریر
چھاتی سے لگا کر اسے کہنے لگے شبیرؔ
لو صبر کرو، کوچ میں اب ہوتی ہے تاخیر
منہ دیکھ کے چپ رہ گئی وہ بیکس و دلگیر
نزدیک تھا دل چیر کے پہلو نکل آئے
اچھا تو کہا منہ سے پہ آنسو نکل آئے

بانو کو اشارہ کیا حضرت نے کہ جاؤ
اکبر کو بلاؤ، علیؔ اصغر کو بھی لاؤ
آئے علیؔ اکبر تو کہا شاہ نے آؤ
روٹھی ہے بہن تم سے گلے اس کو لگاؤ
چلتے ہوئے جی بھر کے ذرا پیار تو کر لو
لینے انہیں کب آؤ گے اقرار تو کر لو

پاس آن کے اکبرؔ نے یہ کی پیار کی تقریر
کیا مجھ سے خفا ہوگئیں صغراؔ مری تقصیر
چلانے لگی، چھاتی پہ منہ رکھ کے، وہ دلگیر
محبوب برادر ترے قربان یہ ہمشیر
صدقے ترے سر پر سے اتارے مجھے کوئی
بل کھائی ہوئی زلفوں پہ وارے مجھے کوئی

رخساروں پہ سبزے کے نکلنے کے میں صدقے
تلوار لئے شان سے چلنے کے میں صدقے
افسوس سے ان ہاتھوں کے ملنے کے میں صدقے
کیوں روتے ہو اشک آنکھوں سے ڈھلنے کے میں صدقے
جلد آن کے بھینا کی خبر لیجیو بھائی
بے میرے کہیں بیاہ نہ کر لیجیو بھائی

لکھنا مجھے نسبت کا اگر ہو کہیں سامان
حقدار ہوں میں نیگ کی میرا بھی رہے دھیان
اور مر گئی پیچھے تو رہے دل میں سب ارمان
لے آنا دولہن کو مری تربت پہ میں قربان
خوشنود مری روح کو کر دیجیو بھائی
حق نیگ کا تم قبر پہ دھر دیجیو بھائی

پیارے مرے بھیا مرے مہ رو، علیؔ اکبر
چھپ جائیں گے آنکھوں سے یہ گیسو، علیؔ اکبر
یاد آئے گی یہ جسم کی خوشبو، علیؔ اکبر
ڈھونڈھیں گی یہ آنکھیں تمہیں، ہر سو علیؔ اکبر
دل سینے میں کیوں کر تہہ و بالا نہ رہے گا
جب چاند چھپے گا تو اجالا نہ رہے گا

کیا گذرے گی جب گھر سے چلے جاؤ گے بھائی
کیسے مجھے ہر بات میں یاد آؤ گے بھائی
تشریف خدا جانیے کب لاؤ گے بھائی
کی دیر تو جیتا نہ ہمیں پاؤ گے بھائی
کیا دم کا بھروسہ کہ چراغِ سحری ہیں
تم آج مسافر ہو تو ہم کل سفری ہیں

ہا سچ ہے کہ بیمار کا بہتر نہیں جانا
صحت سے جو ہیں ان میں کہاں میرا ٹھکانا
بھیا جو اب آنا تو مری قبر پہ آنا
ہم گور کی منزل کی طرف ہوں گے روانا
کیا لطف کسی کو نہیں گر چاہ ہماری
وہ راہ تمہاری ہے تو یہ راہ ہماری

مرنا تو مقدم ہے، غم اس کا نہیں زنہار
ڈھڑکا ہے کہ جب ہوں گے عیاں موت کے آثار
قبلہ کی طرف، کون کرے گا رخِ بیمار
یٰسین بھی پڑھنے کو نہ ہوگا کوئی غم خوار
سانس اکھڑے گی جس وقت تو فریاد کروں گی
میں ہچکیاں لے لے کے تمہیں یاد کروں گی

ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغراؔ ترے قربان
گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جان
بیکس مری بچی، ترا اللہ نگہبان
صحّت ہو تجھے میری دعا ہے یہی ہر آن
کیا بھائی جدا بہنوں سے ہوتے نہیں بیٹا
کنبے کے لئے جان کو کھوتے نہیں بیٹا

میں صدقے گئی بس نہ کرو گریہ و زاری
اصغرؔ مرا روتا ہے صدا سن کے تمہاری
وہ کانپتے ہاتھوں کو اٹھا کر یہ پکاری
آ آ مرے ننھے سے مسافر ترے واری
چھٹتی ہے یہ بیمار بہن جان گئے تم
اصغرؔ مری آواز کو پہچان گئے تم

تم جاتے ہو اور ساتھ بہن جا نہیں سکتی
تپ ہے تمہیں چھاتی سے میں لپٹا نہیں سکتی
جو دل میں ہے لب پر وہ سخن لا نہیں سکتی
رکھ لوں تمہیں اماں کو بھی سمجھا نہیں سکتی
بیکس ہوں مرا کوئی مددگار نہیں ہے
تم ہو سو تمہیں طاقتِ گفتار نہیں ہے

معصوم نے جس دم یہ سنی درد کی گفتار
صغراؔ کی طرف ہاتھوں کو لٹکا دیا اک بار
لے لے کے بلائیں یہ لگی کہنے وہ بیمار
جھک جھک کے دکھاتے ہو مجھے آخری دیدار
دنیا سے کوئی دن میں گذر جائے گی صغراؔ
تم بھی یہ سمجھتے ہو کہ مر جائے گی صغراؔ

عباس نے اتنے میں یہ ڈیوڑھی سے پکارا
چلنے کو ہے اب قافلہ تیار ہمارا
لپٹا کے گلے فاطمہؔ صغرا کو دوبارا
اٹھے شہِ دیں، گھر تہہ و بالا ہوا سارا
جس چشم کو دیکھا سو وہ پر نم نظر آئی
اک مجلسِ ماتم تھی، کہ برہم نظر آئی

بیت الشرفِ خاص سے نکلے شہِ ابرار
روتے ہوئے ڈیوڑھی پہ گئے عترتِ اطہار
فراشوں کو عباس پکارے یہ بہ تکرار
پردے کی قناتوں سے خبردار! خبردار
باہر حرم آتے ہیں، رسول دوسرا کے
شقہ کوئی جھک جائے نہ جھونکے سے ہوا کے

لڑکا بھی جو کوٹھے پہ چڑھا ہو وہ اتر جائے
آتا ہو ادھر جو وہ، اسی جا پہ ٹھہر جائے
ناقے پہ بھی کوئی نہ برابر سے گذر جائے
دیتے رہو آواز جہاں تک کہ نظر جائے
مریمؔ سے سوا حق نے شرف ان کو دیئے ہیں
افلاک پہ آنکھوں کو ملک بند کیے ہیں

عباسؔ علی سے علیؔ اکبر نے کہا تب
ہیں قافلہ سالارِ حرم حضرت زینبؔ
پہلے وہ ہوں اسوار تو محمل میں چڑھیں سب
حضرت نے کہا ہاں یہی میرا بھی ہے مطلب
گھر میں مرنے زہراؔ کی جگہ بنتِ علیؔ ہے
میں جانتا ہوں ماں مرے ہمراہ چلی ہے

پہنچی جو ہیں ناقے کے قریں دخترِ حیدرؔ
خود ہاتھ پکڑنے کو بڑھے سبطِ پیمبر
فضہ تو سنبھالے ہوئے تھی گوشۂ چادر
تھے پردۂ محمل کو اٹھائے علیؔ اکبر
فرزند کمر بستہ چپ و راس کھڑے تھے
نعلین اٹھا لینے کو عباسؔ کھڑے تھے

اک دن تو مہیا تھا، یہ سامانِ سواری
اک روز تھا وہ، گرد تھے نیزے لئے ناری
محمل تھا، نہ ہودج، نہ کجاوہ، نہ عماری
بے پردہ تھی وہ حیدر کرار کی پیاری
ننھے کئی بچوں کے گلے ساتھ بندھے تھے
تھے بال کھلے چہروں پہ اور ہاتھ بندھے تھے

زینت دہِ محمل جو ہوئی دخترِزہراؓ
ناقوں پہ چڑھے سب حرمِ سیدِ والا
آنے لگے رہوار، کھلا گرد کا پردا
عباسؔ سے بولے یہ شہِ یثرب و بطحا
صدمہ ہے بچھڑنے کا مرے روحِ نبی پر
رخصت کو چلو قبرِ رسولِ عربی پر

ہے قبر پہ نانا کی مقدم مجھے جانا
کیا جانیے پھر ہو کہ نہ ہو شہر میں آنا
اماں کی ہے تربت پہ ابھی اشک بہانا
اس مرقدِ انور کو ہے آنکھوں سے لگانا
آخر تو لیے جاتی ہے تقدیرِ وطن سے
چلتے ہوئے ملنا ہے ابھی قبرِ حسنؔ سے

پیدل شہِ دیں روضۂ احمد کو سدھارے
تربت سے صدا آئی کہ آ آ مرے پیارے
تعویذ سے شبیرؔ لپٹ کر یہ پکارے
ملتا نہیں آرام نواسے کو تمہارے
خط کیا ہیں اجل کا یہ پیام آیا ہے نانا
آج آخری رخصت کو غلام آیا ہے نانا

خادم کو کہیں امن کی اب جا نہیں ملتی
راحت کوئی ساعت مرے مولا نہیں ملتی
دکھ کون سا اور کون سی ایذا نہیں ملتی
ہیں آپ جہاں، راہ وہ اصلا نہیں ملتی
پابندِ مصیبت ہوں گرفتارِ بلا ہوں
خود پاؤں سے اپنے طرفِ قبر چلا ہوں

میں اک تنِ تنہا ہوں ستم گار ہزاروں
اک جان ہے اور درپئے آزار ہزاروں
اک پھول سے رکھتے ہیں، خلشِ خار ہزاروں
اک سر ہے فقط اور خریدار ہزاروں
واں جمع کئی شہر کے خوں ریز ہوئے ہیں
خنجر مری گردن کے لئے تیز ہوئے ہیں

فرمایے اب جائے کدھر آپ کا شبیرؔ
یاں قید کی ہے فکر ادھر قتل کی تدبیر
تیغیں ہیں کہیں میرے لئے اور کہیں زنجیر
خوں ریزی کو کعبہ تلک آ پہنچے ہیں بے پیر
بچ جاؤں، جو پاس اپنے بلا لیجئے نانا
تربت میں نواسے کو چھپا لیجئے نانا

یہ کہہ کے مَلا قبر سے شہہ نے جو رخِ پاک
ہلنے لگا صدمے سے مزارِ شہِ لولاک
جنبش جو ہوئی قبر کو تھرا گئے افلاک
کانپی جو زمیں صحنِ مقدس میں اڑی خاک
اس شور میں آئی یہ صدا روضۂ جد سے
تم آگے چلو ہم بھی نکلتے ہیں لحد سے

باتوں نے تری دل کو مرے کر دیا مجروح
تو شہر سے جاتا ہے تڑپتی ہے مری روح
بے تیغ کیا، خنجرِ غم نے ترے مذبوح
ہے کشتیِٔ امت پہ تباہی، کہ چلا نوح
افلاکِ امامت کا تجھے بدر نہ سمجھے
بے قدر ہیں ظالم کہ تری قدر نہ سمجھے

مارا گیا جس روز سے شبرؔ مرا پیارا
اس روز سے ٹکڑے ہے کلیجہ مرا سارا
اب قتل میں ہوتا ہوں ترے ساتھ دوبارا
امت نے کیا پاسِ ادب خوب ہمارا
زہراؔ کی جو بستی کو اجاڑیں تو عجب کیا
اعدا مجھے تربت سے اکھاڑیں تو عجب کیا

اس ذکر پہ رویا کیے شہہ سر کو جھکائے
واں سے جو اٹھے فاطمہؔ کی قبر پہ آئے
پائینِ لحد گر کے بہت اشک بہائے
آواز یہ آئی کہ میں صدقے مرے جائے
ہے شور ترے کوچ کا جس دن سے وطن میں
پیارے میں اسی دن سے تڑپتی ہوں کفن میں

تربت میں جو کی میں نے بہت گریہ و زاری
گھبرا کے علیؔ آئے نجف سے کئی باری
کہتے تھے کہ اے احمدِ مختار کی پیاری
تم پاس ہو تربت ہے بہت دور ہماری
گھر لٹتا ہے کیوں کر ہمیں چین آئے گا زہراؓ
کیا ہم سے نہ رخصت کو حسینؔ آئے گا زہراؓ

میں نے جو کہا قبر سے کیوں نکلے ہو باہر
نہ سر پہ عمامہ ہے نہ ہے دوش پہ چادر
فرمایا کہ ماتم میں ہوں اے بنتِ پیمبر
مرنے کو پسر جاتا ہے برباد ہوا گھر
ترسیں گے وہ پانی کو جو نازوں کے پلے ہیں
تلواریں ہیں اب اور مرے بچوں کے گلے ہیں

پھرتا ہے مری آنکھوں میں شبیرؔ کا مقتل
وہ نہرِ فرات اور کئی کوس کا جنگل
وہ بجلیاں تلواروں کی اور شام کا بادل
دریا سے وہ پیاسوں کے ہٹا دینے کی ہلچل
شبیرؔ کے سر پر سے یہ آفت نہ ٹلے گی
دسویں کو محرم کی چھری مجھ پہ چلے گی

سن کر یہ بیاں باپ کا مادر کی زبانی
رو رو کے پکارا اسد اللہ کا جانی
ہاں والدہ سچ ہے نہ ملے گا مجھے پانی
پیاسے ہیں مرے خون کے یہ ظلم کے بانی
بچپن میں کیا تھا، مرا ماتم شہ دیں نے
نانا کو خبر دی تھی مری روح امیں نے

پہلو میں جو تھی فاطمہؔ کے تربتِ شبرؔ
اس قبر سے لپٹے بہ محبت شہِ صفدر
چلائے کہ شبیرؔ کی رخصت ہے برادر
حضرت کو تو پہلو ہوا اماں کا میسر
قبریں بھی جدا ہیں تہِ افلاک ہماری
دیکھیں ہمیں لے جائے کہاں خاک ہماری

یہ کہہ کے چلے قبر حسن سے شہِ مظلوم
رہوار جو مانگا تو سواری کی ہوئی دھوم
یارانِ وطن گرد تھے افسردۂ مغموم
چلاتے تھے خادم کہ چلا خلق کا مخدوم
خالی ہوا گھر آج رسول عربی کا
تابوت اسی دھوم سے نکلا تھا بنی کا

جب اٹھ گئی تھیں خلق سے مخدومۂ عالم
سر پیٹتے تھے لوگ اسی طرح سے باہم
برپا تھا جنازے پہ علیؔ کے یونہیں ماتم
تھا رحلتِ شبرؔ میں محبوں کا یہی غم
بس آج سے بے وارث و والی ہے مدینہ
اب پنجتن پاک سے خالی ہے مدینہ

چلاتی تھیں رانڈیں کہ چلی شہہ کی سواری
لے گا خبر اب کون مصیبت میں ہماری
آنکھوں سے یتیموں کی دُرِ اشک تھا جاری
مضطر تھے اپاہج ضعفا کرتے تھے زاری
کہتے تھے گدا، ہم کو غنی کون کرے گا
محتاجوں کی فاقہ شکنی کون کرے گا

تھا، ناکے تلک شہر کے اک شورِ قیامت
سمجھاتے ہوئے سب کو چلے جاتے تھے حضرت
رو رو کے وہ کہتا تھا جسے کرتے تھے رخصت
پائیں گے کہاں ہم، یہ غنیمت ہے زیارت
آخر تو بچھڑ کر کفِ افسوس ملیں گے
دس بیس قدم اور بھی ہمراہ چلیں گے

قسمیں انہیں دے دے کے کہا شہ نے کہ جاؤ
تکلیف تمہیں ہوتی ہے اب ساتھ نہ آؤ
اللہ کو سونپا تمہیں آنسو نہ بہاؤ
پھرنے کے نہیں، ہم سے بس اب ہاتھ اٹھاؤ
اس بیکس و تنہا کی خبر پوچھتے رہنا
یارو مری صغراؔ کی خبر پوچھتے رہنا

روتے ہوئے وہ لوگ پھرے شاہ سدھارے
جو صاحبِ قسمت تھے وہ ہمراہ سدھارے
کس شوق سے مردانِ حق آگاہ سدھارے
عابد طرفِ خانۂ اللہ سدھارے
اترے نہ مسافر کسی مخلوق کے گھر میں
عاشق کو کشش لے گئی معشوق کے گھر میں

روشن ہوئی کعبہ کی زمیں نورِ خدا سے
مکہ نے شرف اور بھی پایا شرفا سے
جھک جھک کے ملے، سبطِ پیمبر غربا سے
آباد ہوا شہر، نمازوں کی صدا سے
خوش ہو کے ہوا خواہ یہ کہتے تھے علیؓ کے
سب باپ کی خو بو ہے نواسے میں نبی کے

کعبے مین بھی اک دن نہ ملا شاہ کو آرام
کوفے سے چلے آتے تھے نامے سحر و شام
اعدا نے گذرنے نہ دیے، حج کے بھی ایام
کھولا پسرِ فاطمہ نے باندھ کے احرام
عازم طرفِ راہِ الٰہی ہوئے حضرت
تھی ہشتم ذی الحجہ کہ راہی ہوئے حضرت

جاتے تھے دل افسردہ و غمگیں شہِ ابرار
ہر گام پہ ہوتے تھے عیاں موت کے آثار
قبریں نظر آتیں کسی صحرا میں جو دو چار
فرماتے تھے شہ فاعتبرو یا اولی الابصار
جز خاک نہ ہوئے گا نشان بھی بدنوں کا
انجام یہ ہے ہم سے غریب الوطنوں کا

احباب کہیں، گھر ہے کہیں، آپ کہیں ہیں
آگے تو زمیں پر تھے پر اب زیرِ زمیں ہیں
خالی ہیں مکاں آپ تہِ خاک مکیں ہیں
جو دور نہ رہتے تھے وہ اب پاس نہیں ہیں
حسرت یہ رہی ہوگی کہ پہنچے نہ وطن میں
کیا منہ کو لپیٹے ہوئے سوتے ہیں کفن میں

باتیں تھیں یہی یاس کی اور درد کی تقریر
منزل پہ بھی آرام سے سوتے تھے نہ شبیرؔ
شب کو کہیں اترے، تو سحر کو ہوئے رہگیر
جلدی تھی کہ، ہو جائے شہادت میں نہ تاخیر
مقتل کا یہ تھا شوق شہِ جن و بشر کو
جس طرح سے ڈھونڈھے کوئی معشوق کے گھر کو

ملتا تھا کوئی مرد مسافر جو سر راہ
یوں پوچھتے تھے اس سے بہ حسرت شہہ ذی جاہ
ایسا کوئی صحرا بھی ہے اے بندۂ اللہ
اک نہر سوا جس میں ہو چشمہ نہ کوئی چاہ
کیا ملتا ہے، اس دشت میں اور کیا نہیں ملتا
ہم ڈھونڈھتے پھرتے ہیں، وہ صحرا نہیں ملتا

وہ عرض یہ کرتا تھا کہ سبطِ شہِ لولاک
ہے سخت پُر اندوہ، وہ صحرا تہہ افلاک
ہنستا ہوا واں جائے تو ہو جاتا ہے غمناک
سنتا ہوں وہاں دن کو اڑاتا ہے کوئی خاک
واں راتوں کو آتی ہے صدا سینہ زنی کی
درویش کی ممکن ہے سکونت نہ غنی کی

چلاتی ہے عورت کوئی ہے ہے مرے فرزند
اس دشت میں ہو جائے گا تو خاک کا پیوند
تلواروں سے ٹکرے یہیں ہوں گے ترے دلبند
پانی یہیں ہو جائے گا بچوں پہ ترے بند
پیارے تو اسی خاک پہ گھوڑے سے گرے گا
ہے ہے یہیں خنجر تری گردن پہ پھرے گا

اک شیر ترائی میں یہ چلاتا ہے دن رات
کٹ جائیں گے یاں ہاتھ مرے لال کے ہیہات
کیا حال کہوں نہر کا، اے شاہِ خوش اوقات
پانی تو نہیں شور، پہ مشہور ہے یہ بات
طائر بھی دمِ تشنہ دہانی نہیں پیتے
وحشی کبھی واں آن کے پانی نہیں پیتے

اس جا نہ اترتا ہے نہ دم لیتا ہے رہ گیر
ہے شور کہ اس آب میں ہے آگ کی تاثیر
پیاسوں کے لئے اس کی ہر اک موج ہے شمشیر
اس طرح ہوا چلتی ہے جس طرح چلیں تیر
بجھتی نہیں واں پیاس کس تشنہ گلو کی
بو آتی ہے اس نہر کے پانی میں لہو کی

اس شخص سے یہ کہہ کے چلے قبلۂ عالم
اللہ نے چاہا تو بسائیں گے اسے ہم
عاشق پہ بلا بعد بلا آتی ہے ہر دم
غم اور بڑھا، وصل کا عرصہ جو رہا کم
آفت یہ نئی فوج شہنشاہ میں آئی
مسلم کی شہادت کی خبر راہ میں آئی

غربت میں نہ ماتم کی سنائے خبر اللہ
طاری ہوا حضرت پہ عجب صدمۂ جانکاہ
گوندھے ہوئے سر کھول کے پیٹے حرمِ شاہ
فرماتے تھے شہ سب کو ہے درپیش یہی راہ
ہو گا وہی اللہ کو جو مدِ نظر ہے
آج ان کا ہوا کوچ، کل اپنا بھی سفر ہے

وارث کے لئے زوجۂ مسلم کا تھا یہ حال
محمل سے گری پڑتی تھی بکھرائے ہوئے بال
روتے تھے بہن کے لئے عباس خوش اقبال
وہ کہتی تھی ساتھ آئے تھے چھوٹے مرے دو لال
پوچھو تو کدھر وہ مرے پیارے گئے دونوں
فرماتے تھے شبیرؔ کہ مارے گئے دونوں

محمل تھے سب اس بی بی کے ہودج کے برابر
تھا شور کہ بیوہ ہوئی شبیرؔ کی خواہر
گھبرا گئی تھی مسلمِؔ مظلوم کی دختر
ہر بار یہی پوچھتی تھی ماں سے لپٹ کر
کیوں پیٹتی ہو کون جدا ہو گیا اماں
غربت میں مرے باپ پہ کیا ہو گیا اماں

اس دن سے تو اک ابر ستم فوج پہ چھایا
کھانا کئی دن قافلہ والوں نے نہ کھایا
رستے میں ابھی تھا اسداللہ کا جایا
جو چاند محرم کا فلک پر نظر آیا
سب نے مہِ نو لشکرِ شبیرؔ میں دیکھا
منہ شاہ نے آئینۂ شمشیر میں دیکھا

خویش و رفقا چاند کی تسلیم کو آئے
مجرے کو جھکے اور سخن لب پہ یہ لائے
یہ چاند مبارک ہو یداللہ کے جائے
کفار پہ تو فتح، اسی چاند میں پائے
رتبہ مہہ و خورشید سے بالا رہے تیرا
تا حشر زمانے میں اجالا رہے تیرا

حضرت نے دعا پڑھ کے یہ کی حق سے مناجات
کر رحم گنہگاروں پہ اے قاضیِٔ حاجات
سر دینے کا مشتاق ہوں عالِم ہے تری ذات
خنجر مری آنکھوں میں پھرا کرتا ہے دن رات
باقی ہیں جو راتیں وہ عبادت میں بسر ہوں
یہ زیست کے دس دن تری طاعت میں بسر ہوں

پہنچا دے مجھے جلدی بس اے خالقِ افلاک
اُس خاک پہ جس خاک سے ملتی ہے مری خاک
طالب ہے ترے قرب کا سبطِ شہہ لولاک
نہ ملک کی خواہش ہے نہ درکار ہے املاک
بیتاب ہے دل صبر کا یارا نہیں مجھ کو
اب فصل بجز وصل گوارا نہیں مجھو کو

اتنے میں یہ فضہؔ علیؔ اکبر کو پکاری
لو دیکھ چکی چاند ید اللہ کی پیاری
عادت ہے کہ وہ دیکھتی ہیں شکل تمہاری
آنکھوں کو کیے بند یہ فرماتی ہیں واری
آئے تو رخِ اکبرِ ذی قدر کو دیکھوں
شکل مہِ نو دیکھ چکی بدر کو دیکھوں

شہ داخلِ خیمہ ہوئے فرزند کے ہمراہ
منہ دیکھ چکی چاند ید اللہ کی پیاری
یہ چاند ہے کس طرح کا اے فاطمہؓ کے ماہ
فرمانے لگے رو کے بہن سے شہہِ ذی جاہ
سر تن سے مرا اس مہِ پُر غم میں کٹے گا
زینبؔ یہ مہینہ تمہیں ماتم میں کٹے گا

یہ آل نبی کی ہے مصیبت کا مہینا
یہ ظلم کا عشرہ ہے یہ آفت کا مہینا
پہنچا ہے غریبوں کی شہادت کا مہینا
آخر ہے بس اب عمر کی مدت کا مہینا
یہ بار امامت مری گردن سے اتر جائے
ہو خاتمہ بالخیر جو سر تن سے اتر جائے

گردوں پہ مہِ نو جو نمایاں ہے یہ ہمشیر
چڑھتی ہے مرے سر کے لئے چرخ پہ شمشیر
اس چاند میں کٹ جائے گا سب لشکرِ شبیر
نیزہ کوئی کھائے گا کلیجہ پہ، کوئی تیر
برچھی کسی جانباز کے پہلو میں لگے گی
شمشیر، کسی شیر کے پہلو میں لگے گی

خیمے کو جلا دیں گے، لٹے گا زر و زیور
اس ماہ میں ہوں گے نہ پدر اور نہ برادر
ماؤں سے پسر چھوٹیں گے بہنوں سے برادر
بیوہ کئی سیدانیاں ہوویں گی مقرر
گھڑکیں گے ستمگار جو رووے گی سکینہؔ
اس ماہ میں بے باپ کی ہووے گی سکینہؔ

دولہا کوئی ٹاپوں کے تلے ہوئے گا پامال
پیٹے گی کوئی تازہ دلہن کھولے ہوئے بال
تیروں سے کسی ماں کا جگر ہووئے گا غربال
نکلے گی کوئی کہتی ہوئی ہائے مرا لال
معصوموں کے سونے کی جگہ پائیں گے خالی
بچوں سے بھری گودیاں ہو جائیں گی خالی

اس عشرۂ اوّل میں نہ ہوئیں گے بہن ہم
تاریخِ سفر ہے دہم ماہِ محرم
عشرہ یہ وہ عشرہ ہے کہ اے زینبِؔ پُر غم
جس لال کی عاشق ہو وہ ہو جائے گا بے دم
دیکھو گی نہ پھر منہ علیؔ اکبر سے پسر کا
اب شام میں ہوئے گا تمہیں چاند صفر کا

رونے کے لئے حق نے بنائے ہیں یہ دس دن
ان روزوں خوشی ہو کہ کسی کو نہیں ممکن
لیویں گے مرا تعزیہ ہر شہر کے ساکن
اکبر کو جواں روئیں گے معصوموں کو کم سن
بھولیں ہمیں ایسے نہیں غم خوار ہمارے
ہوئیں گے سیہ پوش عزادار ہمارے

غش ہو گئی سن کر یہ بیاں زینبؔ پُر غم
خیمے میں اسی رات سے برپا ہوا ماتم
بیدار رہیں صبح تلک بیبیاں باہم
خیموں کو اکھڑوا کے چلے قبلۂ عالم
آخر وہی صحرا، وہی جنگل نظر آیا
تھی دوسری تاریخ کہ مقتل نظر آیا

اترے اسی میدانِ بلا خیز میں سرور
استادہ ہوئے، خیمۂ ناموسِ پیمبر
صحرا کی طرف دیکھ کے خوش ہو گئے اکبرؔ
دریا پہ ٹہلنے لگے عباسِؔ دلاور
شہہ بولے ہوا نہر کی بھائی تمہیں بھائی
ہاں شیر ہو دریا کی ترائی تمہیں بھائی

خامے کو بس اب روک انیسؔ جگر افگار
خالق سے دعا مانگ کہ اے ایزدِ غفار
زندہ رہیں دنیا میں شہہ دیں کے عزادار
غیر از غمِ شہ، ان کو نہ غم ہو کوئی زنہار
آنکھوں سے مزارِ شہِ دلگیر کو دیکھیں
اس سال میں بس روضۂ شبیرؔ کو دیکھیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.