غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوں
by حاتم علی مہر
303358غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوںحاتم علی مہر

غیر ہنستے ہیں فقط اس لئے ٹل جاتا ہوں
میں بیابانوں میں رونے کو نکل جاتا ہوں

جوش وحشت کا ہوا موسم گل آ پہنچا
کچھ دنوں ہوش میں رہتا ہوں سنبھل جاتا ہوں

اپنی رخصت ہے بتوں سے بھی اب انشا اللہ
دیر سے سوئے حرم آج ہی کل جاتا ہوں

کوچۂ قاتل بے رحم جسے کہتے ہیں
میں وہاں دوڑ کے مشتاق اجل جاتا ہوں

جب نکلنے نہیں دیتے ہیں مجھے زنداں سے
اپنے آپے سے میں ناچار نکل جاتا ہوں

غیر البتہ ترے پاؤں میں ملتے ہیں حنا
میں تو آ کر کف افسوس ہی مل جاتا ہوں

میں جو روتا ہوں تو کہتا ہے نہ کر بد‌ شگنی
بات کہتا ہے وہ ایسی کہ دہل جاتا ہوں

دوست ہوتا ہے تو ہوتا ہے وہ دشمن اے مہرؔ
وہ بدل جاتا ہے یا کچھ میں بدل جاتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse