غنچۂ دل کھلے جو چاہو تم
Appearance
غنچۂ دل کھلے جو چاہو تم
گلشن دہر میں صبا ہو تم
بے مروت ہو بے وفا ہو تم
اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
کون ہو کیا ہو کیا تمہیں لکھیں
آدمی ہو پری ہو کیا ہو تم
پستۂ لب سے ہم کو قوت دو
دل بیمار کی دوا ہو تم
ہم کو حاصل کسی کی الفت سے
مطلب دل ہو مدعا ہو تم
یہی عاشق کا پاس کرتے ہیں
کیوں جی کیوں درپئے جفا ہو تم
اسی اخترؔ کے تم ہوے معشوق
ہنسو بولو اسی کو چاہو تم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |