غم نہیں مجھ کو جو وقت امتحاں مارا گیا
Appearance
غم نہیں مجھ کو جو وقت امتحاں مارا گیا
خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جان جاں مارا گیا
تیغ ابرو سے دل عاشق کو ملتی کیا پناہ
جو چڑھا منہ پر اجل کے بے گماں مارا گیا
منزل معشوق تک پہنچا سلامت کب کوئی
رہزنوں سے کارواں کا کارواں مارا گیا
دوستی کی تم نے دشمن سے عجب تم دوست ہو
میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا
زہر سے کچھ کم نہ تھی دعوت مری غیروں کے ساتھ
کیا غضب ہے گھر بلا کر میہماں مارا گیا
دشت غربت رنج تنہائی ہجوم درد و یاس
ان بلاؤں میں ترا عاشق کہاں مارا گیا
کیا ہلاک عشق تیرے گیسوؤں کا تھا اثرؔ
سنبلستاں ہو گیا ہے دو جہاں مارا گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |