غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا
Appearance
غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا
مرتے ہیں مگر ناز مسیحا نہیں اٹھتا
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا
بل پڑتے ہیں پہونچے میں لچکتی ہے کلائی
نازک ہیں بہت پھولوں کا گجرا نہیں اٹھتا
فرمائیے ارشاد پہاڑوں کو اٹھا لوں
پر رشک کا صدمہ نہیں اٹھتا نہیں اٹھتا
کوچہ میں منیرؔ ان کے میں بیٹھا تو وہ بولے
ہے ہے مرے دروازے سے پہرا نہیں اٹھتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |