Jump to content

غلام

From Wikisource
319547غلاممرزا فرحت اللہ بیگ

خدا بہتر جانتا ہے کہ مجھ کو کس غرض کی تکمیل اور کس خیال کو پیش نظر رکھ کر پیدا کیا گیا ہے؟ مجھے تو بظاہر اپنے یہاں آنے کی کوئی خاص وجہ نہیں معلوم ہوتی۔ ہاں اگر سرکار کے چانٹوں کے لیے کسی گدی کی، بیگم صاحبہ کے طمانچوں کے لیے کسی کلے کی، صاحب زادے صاحب کی ٹھوکروں کے لیے کسی پنڈلی کی اور صاحب زادی صاحبہ کی چٹکیوں کے لیے کسی ہاتھ کی ضرورت تھی تو میرے پیدا کرنے کے بہت کافی وجوہ موجود تھے اور شاید اسی خیال سے میری ہڈیاں مضبوط، میرا گوشت سخت اور میری گدی چوڑی بنائی گئی ہے یا رفتہ رفتہ بن گئی ہے۔

میں کہاں پیدا ہوا؟ اور کب پیدا ہوا؟ اس کا داخلہ قضا و قدر کے دفتر میں شاید مل سکے تو مل سکے، دنیا میں ان واقعات کا پتا چلنا ناممکن ہے۔ میرے ماں باپ کون تھے؟ اس کا حال بھی کسی کو معلوم نہیں اور کیوں کر معلوم ہو سکتا ہے، جب باوجود ان کا بیٹا ہونے کے مجھے خود معلوم نہیں تو بھلا دوسروں کو کیا معلوم ہوگا؟ ہاں اتنا جانتا ہوں کہ جب میں بہت چھوٹا سا تھا اس وقت ایک عورت مجھے گود لیے پھرتی تھی۔ اس کے بعد وہ غائب ہو گئی اور کسی نے مجھے سڑک کے کنارے ایک مکان میں لا بٹھایا۔ ہمارے سرکار آئے، کچھ لکھا پڑھی ہوئی، مجھے گاڑی میں بٹھا کر گھر لائے۔ اس کے بعد اب تک نہ یہ گھر ہم سے چھوٹا ورنہ ہم اس گھر سے چھوٹے۔

گھر میں آتے ہی ماروں مار میرے لیے نئے کپڑے سلے اور نہلا دھلا، کپڑے پہنا، مجھے خاصا بھلا آدمی بنا دیا۔ تھوڑی دیر میں دستر خوان بچھا، بیگم صاحبہ نے مجھے بھی دستر خوان پر بٹھا لیا۔ یہ پہلا اور آخری دن تھا جو اس گھر میں مجھے دستر خوان پر کھانا کھانا نصیب ہوا۔ کھانے بڑے مزے کے تھے، میں بھوکا بھی تھا۔ ایسا بے تاب ہو کر گرا کہ جب پیٹ تن کر نقارہ ہو گیا اس وقت کہیں جا کر کھانے سے ہاتھ اٹھایا۔ جس پیٹ میں کبھی آدھی روٹی نہیں پہنچی تھی، اس میں اتنا ملغوبا بھر گیا، بد ہضمی ہوئی، علاج ہوئے، خدا خدا کر کے اچھا ہوا۔ اس کے بعد میں کھانے میں احتیاط کرتا یا نہ کرتا، ہاں کھانا دینے میں بیگم صاحبہ بہت احتیاط کرتیں۔ گھٹتے گھٹتے آدھی روٹی پر نوبت آگئی۔

حکم تھا کہ ’’میرے سامنے کھا۔‘‘ بھلا بڑھتے معدے کو آدھی روٹی کیا معلوم ہو لیکن وہاں آدھی روٹی سے پون روٹی نہ ہوئی۔ اس پر یہی مامائیں طعنوں کی بوچھاڑ سے کلیجہ چھلنی کر ڈالتیں کہ ’’اے بوا دیکھنا! اس کی عمر دیکھواور اس کا کھانا دیکھو! ذرا بڑا ہوا تو پانچ سیر آٹا چٹ کر جائے گا۔‘‘

ہوتے ہوتے بیگم صاحبہ نے بھی یہی سبق پڑھنا شروع کر دیا۔ خود ایک وقت میں آدھی روٹی دیتی تھیں۔ پھر بھی میرے بڑ پیٹے ہونے کی شکایت تھی۔ ان کی ایک لڑکی بس میرے ہی برابرتھی۔ یقین مانئے گا کہ ہر وقت اس کا منہ چلتا تھا۔ یہ سودے والا آیا، مچل گئی، دو پیسے لے کھا گئی، کوئی خوانچے والا آیا، بپھر گئی، ایک آنہ لے چٹ کر گئی۔ کاچھن آئی، لوٹ گئی، دو چار پیسے کے کچالو ہضم کیے۔ کھانے پر بیٹھی تو سب کے بعد اٹھی۔ جب دیکھو پیٹ تنا ہوا ہے، دست آ رہے ہیں مگر بیگم صاحبہ ہیں کہ یہی کہے جاتی ہیں کہ ’’اے ہے، نہ یہ بچی کچھ کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔ آخر کیسے جئے گی؟ ذرا کھانے بیٹھی اور اس موئے (یہ میری طرف اشارہ تھا) نے گھورنا شروع کر دیا۔ جیسے کا ویسا نکل گیا۔ جب سے آیا ہے میری بچی کی تو بھوک ہی مر گئی ہے۔ بھر بھر رکابیاں دیتی ہوں جب بھی تو موئے کاپیٹ نہیں بھرتا۔ مرغی کا معدہ ہے ادھر کھایا اور ادھر ہضم۔‘‘

نظر وظر لگانا تو مجھے آتا نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ گھورنا اکثر میرے لیے مفید ثابت ہوا ہے۔ شروع شروع میں تو میری یہ حالت تھی کہ کسی کو کچھ کھاتے دیکھا، اور الگ ہٹ گیا، لیکن کوئی اللہ کا بندہ یہ بھی خیال نہیں کرتا تھا کہ اس معصوم اور لاوارث بچے کو کچھ دے دو، آخر کہاں تک دل مارا جاتا۔ میں نے بھی رنگ بدلا۔ جہاں کسی نے ذرا منہ چلایا اور میں نے گھورا۔ ادھر میں نے گھورا اور ادھرمجھ پر صلواتیں پڑنی شروع ہوئیں، مگر تھوڑا بہت یاروں کے حصے میں آ ہی گیا۔ ہوتے ہوتے میری نظر کا شہرہ ہو گیا۔ ایک د فعہ میں نے بہت گھورا تھا مگر کسی نے مجھ کو کچھ نہیں دیا تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس کا سارا کھایا پیا جوں کا توں نکل گیا اور میری نظر لگنے کا اثر سمجھا گیا۔ اب کیا تھا، ذرا میں نے کھانے والے کی طرف گھور کر دیکھا اور میں اس کا حصہ دار ہوگیا۔ غرض نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی کوئی نعمت نہ تھی جو گھر میں آتی ہو اوراس میں تھوڑا بہت مجھے نہ مل جاتا ہو۔

ہمارے سونے کی شان بھی عجیب شان تھی۔ دوسروں کے پاس بچھونے تھے۔ ہمارے پاس بھی تھے مگررضائی تو ایسی تھی کہ اس میں سے آسمان دکھائی دے، اور تکیہ ایسا کالا تھا کہ اس پر میل بڑھنے یا گھٹنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ میری رنگت اور بالوں کی سیاہی میں کچھ 19-20 ہی کا فرق ہوگا، مگر میرے بالوں اور تکئے کی سیاہی میں انیس بیس نہیں، 15 اور 20 کا فرق تھا۔ ساتھ ہی چپ چپاہٹ ایسی تھی کہ سر کے ساتھ تکیہ زمین سے اٹھ آتا تھا۔ اب رہی دری تو وہ کسی زمانے میں دری کی تعریف میں آتی ہو تو آتی ہو، میرے زمانہ استعمال میں بچھنے کے بعد زمین میں اس میں تمیز کرنا ذرا مشکل کام تھا۔

یہ سب کچھ تھا مگر بچھونے سے ہم کوواسطہ بھی بہت کم پڑتا تھا۔ ادھر آنکھ لگی اور ہم کروٹ لے، زمین پر آ رہے۔ تکیہ ایک طرف گیا، دری ایک طرف گئی۔ اب رہی رضائی تو اس کا بچھونے سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ ہم نے خدا کی دی ہوئی زمین پر لوٹ ماری اور گھر کے کتے نے ہمارا بچھونا سنبھالا۔ سردی لگی تو سوتے ہی سوتے میں کتے کی اور ہماری دری پر جنگ ہو گئی۔ کبھی ہم نے کتے کو دری سے ہٹا دیا اور کبھی کتے نے ہم کو دھکیل کر بچھونے پر قبضہ کر لیا۔ ادھر صبح ہوئی اور ادھر بیگم صاحبہ یا کسی ماما نے اٹھ کر ہم کو ٹھوکر کے ذریعے سے ہوشیار کر دیا۔ ہم پہلے تو ذرا کسمسائے مگر دوسری یا تیسری ٹھوکر نے آنکھیں کھول ہی دیں۔ اٹھ کر بچھونے کو لپیٹا ایک کونے میں رکھا۔ نل پر جا کر دو ایک چلو سے آنکھیں دھوئیں اور’’چل بھیا، چڑھ جا سولی پر، رام بھلی کریں گے‘‘ پھر وہی ہم ہیں اوروہی ایک بولی اور تین کام۔

خیر کام سے تو ہم نہیں گھبراتے، مگر ہر وقت کی مار پیٹ ذرا بری معلوم ہوتی ہے، آخر کوئی کہاں تک پٹے جائے۔ یہ آیا مار گیا، وہ آیا مار گیا، بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں، ’’لوٹا لا۔‘‘ صاحبزادے صاحب کہہ رہے ہیں، ’’پانی لا۔‘‘ صاحب زادی فرما رہی ہیں، ’’چل میرے ساتھ کھیل۔‘‘ یہ کہہ رہا ہے، ’’ادھر آ۔‘‘ وہ کہہ رہا ہے، ’’ادھر جا۔‘‘ آخر آدمی نہ ہوا گھن چکر ہو گیا۔ جس کا حکم نہ مانو، وہی مارے، اور حکم مانو تو کیوں کر مانو، بھلا تین کام ایک آدمی کیوں کر کرے؟ آخر میں نے بھی بے حیائی کا جامہ پہن لیا۔ پٹنا قسمت میں لکھا ہے تو یوں ہی سہی۔ یوں بھی پٹنا، ووں بھی پٹنا، پھر کام کر کے اپنے آپ کو مفت میں کیوں تھکائیں۔ نکمے کا خطاب ملا ہے تو ملنے دو۔ برا بھلا کہتے ہیں تو کہنے دو۔ اس کان سنو، اس کان اڑا دو، آپ ہی بک بک کر تھک جائیں گے۔

یہ چال بھی گھورنے کی طرح کار گر ہوئی۔ سب چیختے چلاتے مگر میں ٹس سے مس نہ ہوتا۔ جہاں کسی نے ذرا ہاتھ لگایا اور میں نے اس زور سے چیخ ماری گویا کسی نے گلا گھونٹ دیا ہے۔ کبھی کسی نے میری اس ترکیب کو دیکھ لیا تو راز کھل گیا، نہیں تو مارنے والا خود گھبرا گیا۔ دوسروں نے غل مچایا کہ ’’اے ہے! لونڈے کو مار ڈالا۔‘‘ کبھی تو مارنے والے صاحب مجھ سے زیادہ پٹ گئے اور کبھی ڈانٹ ڈپٹ ہو گئی مگر ہم کام سے بچ گئے۔ تھوڑی دیر چیختے چلاتے رہے، اس کے بعد یا تو پڑ کر سو گئے یا آنکھ بچایا باہر نکل گئے، مگر بابا ’’ہر فرعونے را موسیٰ۔‘‘ چھوٹی صاحبزادی صاحبہ کچھ مجھ سے زیادہ تیز تھیں، خود ہی مجھے مارتیں اور خود ہی رونے بیٹھ جاتیں۔ بھلا ان کے مقابلے میں مجھ بچارے کی کیا ہستی تھی، الٹی مجھ ہی پر لے دے ہوتی۔

غرض اس لڑکی کے ہاتھوں ناک میں دم آ گیا تھا مگر میں بھی بدلہ لیے بغیر تھوڑی مانتا تھا۔ مارنے کی تو ہمت نہ ہوتی تھی، ہاں کبھی بیگم صاحبہ ان پر خفا ہوتیں تو میں بھی الٹی سیدھی بہت کچھ لگاتا۔ مہینا مہینا بھر پہلے کی باتیں یاد دلاتا، اگر قسمت نے یاوری کی تو کام بن گیا اور صاحب زادی صاحبہ کی خوب کندی ہو گئی۔ نہیں تو لتراپے کا الزام لگا، بیگم صاحہ نے بیٹی کا غصہ مجھ غریب پر اتار لیا۔

ہمارے کپڑوں کی کچھ نہ پوچھو۔ ادھر پہنے اور ادھر میلے ہوئے۔ بدن میں کانٹے تھے کہ نیا جوڑا بھی پنڈے سے ثابت نہیں اترنا تھا۔ خیر گریباں تو ہمیشہ چاک رہتا ہی تھا۔ ہاں اکثر یہ بھی ہوتا تھا کہ سینے کے نمونے کا گریبان پیٹھ پر بھی بن جاتا تھا۔ اب رہے ہمارے چاک، تو ان کا بڑھتے بڑھتے بغل تک آ جانا معمولی بات تھی۔ موٹے موٹے لٹھے اور گاڑھے کے کپڑے بنائے گئے مگر کوئی کپڑا بدن سے ثابت نہ اترنا تھا، نہ اترا۔ پاجامہ پہلے ٹخنوں سے گزر کر شرعی ہوا، اس کے بعد گھٹنوں تک آیا اور آخر گھٹتے گھٹتے جانگیہ بن گیا۔

اب رہی ٹوپی اور اچکن، تو وہ ہمیشہ ’’فس کلاس‘‘ رہتی تھی اور کیوں نہ رہتی، پہنتا ہی کون مسخرا تھا، کبھی عید، برات کو پہن لی تو پہن لی۔ نہیں تو ٹوپی میں اچکن ٹھسی ہوئی، کمرے کے کسی کونے میں پڑی رہتی تھی۔ ٹوپی کے ساتھ ہی سر کا بھی خیال آ گیا، اس کا حال بھی سن لیجئے۔ جمعے کے جمعہ ہماری ٹانٹ گھونٹ کر باجرے کا پیڑا بنا دی جاتی تھی۔ ذرا بالوں کی کھونٹیاں نکلیں اور استرا پھرا۔ ا سترے کا پھرنا قیامت ہوتا تھا۔ جس کے پاس سے نکلے، اسی نے چانٹا رسید کیا۔ کچھ گھٹی ہوئی ٹانٹ پر چانٹا ایسا پڑتا ہے کہ سبحان اللہ۔ چھینٹیں اڑ جاتی ہیں۔ مارنے والوں کو مزہ آتا ہو تو آتا ہو، میرا تو بعض وقت سر جھنا جاتا تھا۔ اور تو اور بڑے سرکار بھی مذاق میں چلتے چلتے دو ایک چانٹے ضرور رسید کر دیا کرتے تھے۔

کہتے ہیں، ’’باپ پر پوت، پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا ہی تھوڑا۔‘‘ میرا باپ بھی شاید کوئی چور تھا کیونکہ جہاں میں نے کسی اچھی چیز کو دیکھا اور چرانے کو جی چاہا، پہلے تو دل مارتا رہا، آخر فطرت طبیعت پر غالب آ گئی، اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی چوری میں نے شروع کر دی۔ کھلونا اٹھایا، چھپا دیا، رومال دیکھا، غائب کر دیا، لیکن آخر ان چیزوں کو لے کر کہاں جاتا۔ میری دنیا تو اسی مکان کی چار دیواری تھی۔

سچ ہے خدا بڑا کار ساز ہے، یہ مشکل بھی آسان ہوئی، ایک نئی ماما آئیں، ہاتھ کی بڑی تیز تھیں۔ موقع ملتا تو گھر بھر میں جھاڑو دے دیتیں، مگر مشکل یہ آ پڑی کہ بیگم صاحبہ کچھ ان کی شکل سے تاڑ گئی تھیں، اس لیے ان کے حدود باورچی خانے اور صحن سے آگے نہ بڑھے، اس پر بھی وہ اپنا پوتھ پورا کر لیتی تھیں۔ رات کو گھر جاتیں، صبح ہی صبح آ تیں۔ دوپہر کا کھانا لے کر جاتیں تو کوئی دو بجے واپس آتیں۔ کوئی روز روز پوٹلی کھلوانے سے تورہا۔ خدا معلوم کتنا دال آٹا باندھ کر لے جاتی تھیں۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ جب سے وہ آئی تھیں دستر خوان پر ہر چیز تھڑنے لگی تھی۔ ہماری بیگم صاحبہ کی سمجھ دیکھو کہ بجائے یہ معلوم کرنے کے کہ کھانا کیوں کم پڑتا ہے، الٹا غلہ بڑھا دیا، مگر ماما جی نے اس پر بھی بس نہ کی، ادھر غلہ بڑھا اور ادھر ان کی چوری بڑھی۔

غرض جب تک وہ رہیں، کھانے میں ہمیشہ برکت ہی برکت رہی۔ ماما جی بچہ سمجھ کرمیرے سامنے پوٹلی باندھنے میں ذرا احتیاط کم کرتی تھیں۔ اس لیے مجھے ان کے کرتوتوں کا حال خوب معلوم ہے۔ رکابی اور پیالے سے لگا، چھوٹی پتیلی اور سر پوش تک ان کی پوٹلی میں ہمارے گھر سے رخصت ہوئے ہیں۔ ان چیزوں کے جانے کے متعلق جس زمانے میں کچھ گڑ بڑ ہوتی، تو بی ماما جی ذرا ہاتھ روک لیتیں۔ خود پوٹلی سارے گھر کو دکھا کر جاتیں۔ جہا ں ذرا معاملہ ٹھنڈا پڑا اور چیزیں کھسکنی شروع ہوئیں۔ ان کو معلوم تھا کہ میں ان کی ساری کارروائیوں سے واقف ہوں، اس لیے میری بڑی خاطر داری کرتیں۔ چپکے ہی چپکے باورچی خانے میں خوب کھلاتیں۔ کبھی کبھی مٹھائی بھی لا کر دیتیں۔ رفتہ رفتہ مجھے بھی ان سے کچھ انس ہو گیا اور کیوں نہ ہوتا۔ گھر والے میرے ساتھ کون سی بھلائی کرتے تھے جو میں ان کے مال کا غم کھاتا۔

آخر یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں میں خود میں نے ماما جی کو چرا چرا کر چیزیں دینی شروع کیں۔ ذرا بیگم صاحبہ نے کوئی چیز رکھی اور غائب، تکئے کے نیچے سے پیسے غائب، جیب میں سے روپے غائب، کھونٹی پر سے تولیہ غائب، آخر یہاں تک ہوا کہ پٹاری میں سے سونے کا چھلا اڑ گیا۔ اس پر بڑا غل مچا۔ چھری پڑھوا کر رکھوائی گئی۔ کچے چاول چبوائے گئے، مگر پتا نہ چلا۔ مجھ پر تو شبہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جانتے تھے کہ چرائے گا تو کہاں لے جائے گا۔ ماما پر شبہ کی گنجائش ہی نہیں تھی کیونکہ ان سے باورچی خانہ کب چھوٹتا تھا۔ اب رہیں بی مغلانی اورآیا تو وہ جانیں اور بیگم صاحبہ جانیں۔

غرض تھوڑے دن گئی گزری بات ہوئی۔ چھلے کے عوض بی ماما نے مجھے دو لڈو لا کر دیے۔ اب کیا تھا مجھے لڈووں کی چاٹ پڑ گئی۔ میں نے بھی اپنا گھر صاف کر ماما جی کا گھر بھرا اور خوب بھرا۔ ان کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی۔ سارا جہیز ہمارے گھر سے رفتہ رفتہ وہاں پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ دری، چاندنی اور مچھر دانی تک اٹھ گیا۔ بیگم صاحبہ پریشان تھیں کہ یا اللہ سامان کے پر لگ گئے ہیں کہ ادھر رکھا اور ادھر غائب۔ آخر حاضرات کی ٹھہری۔ چھوٹی بی بی آئینے کے سامنے بٹھائی گئیں، جنوں کے بادشاہ آئے، ان سے چور کا حال پوچھا گیا۔ چھوٹی بی بی تو میری جان کی دشمن تھیں ہی، انہوں نے میرا نام لے دیا۔ کسی کو یقین نہ آیا، مگر بڑے سرکار کچھ کھٹک گئے۔ شاید میرے اور ماما جی کے زیادہ میل جول سے ان کو کوئی خیال پیدا ہو گیا۔ ماما جی سمجھیں کہ چلو یہ مال بھی ہضم ہوا۔ ایک دن مجھ سے کہا، ’’دیکھو بیٹا! ابھی بیگم صاحبہ پٹاری میں چمپا کلی رکھ کر کوٹھے پر گئی ہیں، اس وقت لان میں کوئی ہے بھی نہیں، ذرا چپکے سے نکال تولا، اتنے لڈو کھلاؤں گی کہ پیٹ بھر جائے گا۔‘‘

ہم باورچی خانے سے نکل ٹہلتے ٹہلتے دالان میں آئے۔ ادھر ادھر دیکھا، میدان صاف تھا، پٹاری کھولی، چمپکا کلی نکال، نیفے میں اڑس، باورچی خانے میں آ ماما جی کے حوالے کی۔ انہوں نے اپنے خشکے کی رکابی میں ٹھونس، رکابی پوٹلی میں باندھ دی۔ بیگم صاحبہ نیچے آئیں۔ پٹاری کھول پان کھایا، مگر کچھ نہ بولیں۔ تھوڑی دیر میں بڑے سرکار، بی مغلانی اور آیا بھی دالان میں آ گئے۔ کھانامنگوایا گیا، سب نے کھا پی فراغت کی۔ بی ماما اپنی پوٹلی دکھا دروازے کے باہر نکلی ہی تھیں کہ ایک غل مچ گیا۔ میں دوڑتا ہوا باہرآیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ماما جی کو ایک سپاہی پکڑے کھڑا ہے، اورماما جی وہ شور مچا رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ گھر والوں کوبھی کوسنے دے رہی ہیں، سپاہی کو بھی صلواتیں سنا رہی ہیں۔ مجھے جو ماما جی نے دیکھا تو کہا، ’’بیٹا! ذرا یہ کھانا تو لے جا کر میرے گھر میں دے آ۔ بچی بھوکی بیٹھی ہوگی، بارہ بج چکے ہیں، دیکھئے ان کالی وردی والوں سے کب پیچھا چھٹتا ہے۔ خدا نہ کرے کوئی ایسے گھر میں نوکر ہو، یہ نہ شریف کو دیکھیں نہ رذیل کو، گھوڑے گدھے کو ایک لاٹھی ہانکتے ہیں۔‘‘

یہ کہہ، انہوں نے پوٹلی میری طرف بڑھائی، میں نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سپاہی نے اس زور سے ڈانٹا کہ میرا دم ہی نکل گیا، اورو ماما جی کچھ سہم سی گئیں۔ اتنے میں داروغہ (سب انسپکٹر پولیس) بھی آ گئے۔ کچھ لوگ اور جمع ہوئے، پوٹلی کھلوائی گئی، خشکے میں سے چمپا کلی نکلی، یہ دیکھ کر ماما جی بپھر گئیں، کہنے لگیں، ’’ہیں! یہ چمپا کلی میرے خشکے میں کہاں سے آئی؟ بیگم صاحبہ نے خود نکال کر مجھے خشکا دیا تھا، ان ہی نے رکھ دی ہوگی، ہاں بابا بڑے لوگ ہیں، آج خشکے میں مدعا (چوری کا مال) رکھ کرپولیس کے حوالے کردیا، کل خدا جانے کیا کریں، نا، بابا، نا میں اس گھر میں اب نہیں رہوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر ماما جی جانا چاہتی تھی کہ سپاہی نے چٹیا پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ اس پر تو بڑھیا نے وہ اودھم مچایا کہ معاذ اللہ۔ سارا محلہ چیخ چیخ کر اور رو رو کر سر پر اٹھا لیا۔

اس وقت تو میں نہیں سمجھا تھا مگر ہاں اب سمجھا ہوں کہ غل مچانے سے اس کا کیا مطلب تھا۔ اس کا مکان قریب ہی تھا۔ یہ اپنی بیٹی کو نوٹس تھا کہ ’’مال گھر سے نکال دے۔‘‘ وہ بھی اپنی ماں کی بیٹی تھیں، سمجھ گئی ہوگی کہ اماں پر آفت آئی ہے۔ مال لے کرنکل رہی تھی کہ دوسرے سپاہی نے اس کو پکڑ کر مال کے ساتھ ماں کے برابر لا کھڑا کیا، اس کے بعد ہم سے تفتیش شروع ہوئی۔ مار سے ڈرایا، مٹھائی کا لالچ دیا، بھلا ہم کو ان ماں بیٹیوں سے کیا دلچسپی تھی، مار کے ڈر اور مٹھائی کی لالچ سے سارا قصہ کہہ سنایا۔

اس کے بعد معلوم نہیں کہ وہ دونوں کہاں جہنم رسید ہوئیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم سے جو وعدے ہوئے تھے ان میں کا پہلا حصہ بہت دل بھر کر ہم کو پہنچا دیا گیا۔ گھر میں اب بھی ہم رہتےہیں لیکن ماماؤں اور نوکروں سے ہم کو ذرا کم ملنے دیا جاتا ہے اور بھئی اب ہم خود بھی سمجھ دار ہو گئے ہیں۔ اگر کچھ چراتے بھی ہیں تو خود ہی کھا پی کر برابر کر دیتے ہیں، کسی کو دیتے دلاتے نہیں۔ بھلا سر کار کے مال کے جب ہم حق دار موجود ہیں تو پھر یہ مال دوسروں کو کیوں پہنچے۔ بچپنا تھا، غلطی ہو گئی، اللہ معاف کرے گا۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.