Jump to content

عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیا

From Wikisource
عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیا
by منتظر لکھنوی
331198عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیامنتظر لکھنوی

عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیا
وہ مسیحا بھی دم دیا ہی کیا

تھا وہ نا آشنا مزاج ولے
آخرش ہم نے آشنا ہی کیا

عاشقی کے سوا بھی ہم نے اور
جو کیا کام سو برا ہی کیا

کر گئے قیس و کوہکن جو جو
ہم نے اس سے بھی کچھ سوا ہی کیا

گو بھلا یا برا تھا شعر اپنا
سن کے یاروں نے واہ وا ہی کیا

اک نہ اک اس کی زلف برہم سے
پیچ دل پر مرے پڑا ہی کیا

شب فرقت میں منتظرؔ ہر روز
شمع سا دل مرا جلا ہی کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.