Jump to content

عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ

From Wikisource
عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ
by ظہیر دہلوی
299905عشق اور عشق شعلہ ور کی آگظہیر دہلوی

عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ
آگ اور الفت بشر کی آگ

جس کو کہتے ہیں برق عالم سوز
ہے وہ کافر تری نظر کی آگ

ہائے رے تیری گرمئ رفتار
خاک تک بھی ہے رہ گزر کی آگ

لو شب وصل بھی تمام ہوئی
آسماں کو لگی سحر کی آگ

عشق کیا شے ہے حسن ہے کیا چیز
کچھ ادھر کی ہے کچھ ادھر کی آگ

طور سینا بنا دیا دل کو
اف رے کافر تری نظر کی آگ

حق تعالی بچائے اس سے ظہیرؔ
قہر ہے الفت بشر کی آگ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.