Jump to content

عشقیہ کہانی

From Wikisource
عشقیہ کہانی (1955)
by سعادت حسن منٹو
325052عشقیہ کہانی1955سعادت حسن منٹو

میرے متعلق عام لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ میں عشقیہ کہانیاں نہیں لکھتا۔ میرے افسانوں میں چونکہ عشق و محبت کی چاشنی نہیں ہوتی، اس لیے وہ بالکل سپاٹ ہوتے ہیں۔ میں اب یہ عشقیہ کہانی لکھ رہا ہوں تاکہ لوگوں کی یہ شکایت کسی حد تک دور ہو جائے۔

جمیل کا نام اگر آپ نے پہلے نہیں سنا تو اب سن لیجیے۔ اس کا تعارف مختصر طور پر کرائے دیتا ہوں۔ وہ میرا لنگوٹیا تھا۔ ہم اکٹھے اسکول میں پڑھے، پھر کالج میں ایک ساتھ داخل ہوئے۔ میں ایف اے میں فیل ہوگیا اور وہ پاس۔ میں نے پڑھائی چھوڑ دی مگر اس نے جاری رکھی۔ ڈبل ایم۔ اے کیا اور معلوم نہیں کہاں غائب ہوگیا۔ صرف اتنا سننے میں آیا تھا کہ اس نے ایک پانچ بچوں والی ماں سے شادی کرلی تھی اور آبادان چلا گیا تھا۔ وہاں سے واپس آیا یا وہیں رہا، اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔

جمیل بڑا عاشق مزاج تھا۔ اسکول کے دنوں میں اس کا جی بے قراررہتا تھا کہ وہ کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جائے۔ مجھے ایسی گرفتاری سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن اس کی سرگرمیوں میں جو عشق سے متعلق ہوتیں، برابرکا حصہ لیا کرتا تھا۔جمیل دراز قد نہیں تھا مگر اچھے خدوخال کا مالک تھا۔ میرا مطلب ہے کہ اسے خوبصورت نہ کہا جائے تو اس کے قبول صورت ہونے میں شک و شائبہ نہیں تھا۔ رنگ گورا اور سرخی مائل، تیز تیز باتیں کرنے والا، بلا کا ذہین، انسانی نفسیات کا طالب علم، بڑا صحت مند۔اس کے دل و دماغ میں سن بلوغت تک پہنچنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی عشق کرنے کی زبردست خواہش پیدا ہوگئی تھی۔ اس کو غالب کے اس شعر کا مفہوم اچھی طرح معلوم تھا،

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے

مگر اس کے برعکس وہ یہ آگ خود اپنی ماچس سے لگانا چاہتا تھا۔اس نے اس کوشش میں کئی ماچسیں جلائیں۔ میرا مطلب ہے کہ کئی لڑکیوں کے عشق میں گرفتار ہو جانے کے لیے نت نئے سوٹ سلوائے، بڑھیا سے بڑھیا ٹائیاں خریدیں، سینٹ کی سینکڑوں قیمتی شیشیاں استعمال کیں مگر یہ سوٹ، ٹائیاں اور سینٹ اس کی کوئی مدد نہ کرسکے۔میں اور وہ، دونوں شام کو کمپنی باغ کا رخ کرتے۔ وہ خوب سجا بنا ہوتا۔اس کے کپڑوں سے بہترین خوشبو نکل رہی ہوتی۔ باغ کی روشوں پر متعدد لڑکیاں بد صورت، خوبصورت، قبول صورت محو خرام ہوتی تھیں۔ وہ ان میں سے کسی ایک کو اپنے عشق کے لیے منتخب کرنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔

ایک دن اس نے مجھ سے کہا،’’سعادت! میں نے آخر کار ایک لڑکی چن ہی لی ہے۔ خدا کی قسم چندے آفتاب، چندے ماہتاب ہے۔میں کل صبح سیر کے لیے نکلا۔ بہت سی لڑکیاں مائی کے ساتھ اسکول جارہی تھیں۔ ان میں ایک برقع پوش لڑکی نے جو اپنی نقاب ہٹائی تو اس کا چہرہ دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ کیا حسن و جمال تھا! بس میں نے وہیں فیصلہ کرلیا کہ جمیل اب مزید تگ و دو چھوڑو، اس حسینہ ہی کے عشق میں تمہیں گرفتار ہونا چاہیے۔ ہونا کیا’’تم ہو چکے ہو۔‘‘

اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ہر روز صبح اٹھ کر اس مقام پر جہاں اس نے اس کافرجمال حسینہ کو دیکھا تھا، پہنچ جایا کرے گا اور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرے گا۔اس کے لیے اس کے ذہین دماغ نے بہت سے پلین سوچے تھے۔ ایک جودوسروں کے مقابلے میں زیادہ قابل عمل اور زود اثر تھا، اس نے مجھے بتا دیا تھا۔اس نے حساب لگا کر سوچا تھا کہ دس دن متواتر اس لڑکی کو ایک ہی مقام پر کھڑے رہ کر دیکھنے اورگھورنے سے اتنا معلوم ہو جائے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے یعنی وہ کیا چاہتا ہے۔ اس مدت کے بعد وہ اس کا ردعمل ملاحظہ کرے گا اور اس تجزیےکے بعد کوئی فیصلہ مرتب کرے گا۔یہ اغلب تھا کہ وہ لڑکی اس کا دیکھنا گھورنا پسند نہ کرے۔ مائی سے یا اپنے والدین سے اس کے غیر اخلاقی رویے کی شکایت کردے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ راضی ہو جاتی۔ اس کی ثابت قدمی اس پر اتنا اثر کرتی کہ اس کے ساتھ بھاگ جانے کو تیارہو جاتی۔

جمیل نے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرلیا تھا۔ شاید ضرورت سے زیادہ۔ اس لیے کہ دوسرے روز جب وہ الارم بجنے پر اٹھا تو اس نے اس مقام پر جہاں اس لڑکی سے اس کی پہلی مرتبہ مڈبھیڑ ہوئی تھی، جانے کا خیال ترک کردیا۔اس نے مجھ سے کہا،’’سعادت! میں نے یہ سوچا ہے کہ ہو سکتا ہے اسکول میں چھٹی ہو کیوں کہ جمعہ ہے۔ معلوم نہیں اسلامی اسکول میں پڑھتی ہے یا کسی گورنمنٹ اسکول میں۔ پھر یہ بھی ممکن تھا کہ اگر میں اسے زیادہ شدت سے گھورتا تو وہ بھنا جاتی۔ اس کے علاوہ اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ دس دن کے اندر اندر مجھے اس کا رد عمل یقینی طور پر معلوم ہو جائے گا۔ بفرض محال وہ رضا مند ہو جاتی، میرا مطلب ہے مجھے بالمشافہ گفتگو کا موقع دے دیتی، تو میں اس سے کیا کہتا! ‘‘میں نے کہا،’’یہی کہ تم اس سے محبت کرتے ہو۔‘‘

جمیل سنجیدہ ہوگیا۔ ’’یار، مجھ سے کبھی کہا نہ جاتا۔۔۔تم سوچو نا اگر یہ سن کر وہ میرے منہ پر تھپڑ دے مارتی کہ جناب آپ کو اس کا کیا حق حاصل ہے، تو میں کیا جواب دیتا۔ زیادہ سے زیادہ میں کہہ سکتا کہ حضور محبت کرنے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے مگر وہ ایک اور تھپڑ میرے مار سکتی تھی کہ تم بکواس کرتے ہو، کون کہتا ہے کہ تم انسان ہو۔

قصہ مختصر یہ کہ جمیل اس حسین و جمیل لڑکی کی محبت میں خود کو اپنے تجزیہ خودی کے باعث گرفتار نہ کراسکا۔ مگر اس کی خواہش بدستور موجود تھی۔ ایک اور خوبرو لڑکی اس کی تلاش کرنے والی نگاہوں کے سامنے آئی اور اس نے فوراً تہیہ کرلیا کہ اس سے عشق لڑانا شروع کردے گا۔

جمیل نے سوچا کہ اس سے خط و کتابت کی جائے، چنانچہ اس نے پہلے خط کے کئی مسودے پھاڑنے کے بعد ایک آخری، عشق و محبت میں شرابور، تحریر مکمل کی، جو میں یہاں من و عن نقل کرتا ہوں۔

جان جمیل!

اپنے دل کی دھڑکنیں سلام کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ حیران نہ ہو ئیے گا کہ یہ کون ہے جو آپ سے یوں بے دھڑک ہم کلام ہے۔ میں عرض کیے دیتا ہوں۔ کل شام کو سوا چھ بجے۔۔۔ نہیں، چھ بج کر گیارہ منٹ پر جب آپ امرت سینما کے پاس ٹانگے میں سے اتریں تو میں نے آپ کو دیکھا۔ بس ایک ہی نظر میں آپ نے مجھے مسحورکرلیا۔آپ اپنی سہیلیوں کے ساتھ پکچر دیکھنے چلی گئیں اورمیں باہر کھڑا آپ کو اپنی تصور کی آنکھوں سے مختلف روپوں میں دیکھتا رہا۔ دو گھنٹے کے بعد آپ باہر نکلیں۔ پھر زیارت نصیب ہوئی اور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کا غلام ہوگیا۔

میری سمجھ میں نہیں آتا میں آپ کو اور کیا لکھوں۔ بس اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کیا آپ میری محبت کو اپنے حسن و جمال کے شایان سمجھیں گی یا نہیں۔اگر آپ نے مجھے ٹھکرا دیا تو میں خود کشی نہیں کروں گا، زندہ رہوں گا تاکہ آپ کے دیدار ہوتے رہیں۔

آپ کے حسن و جمال کا پرستار

جمیل

یہ خط اس نے میرے گھر میں ایک خوشبودار کاغذ پر اپنی تحریر سے منتقل کیا تھا۔ لفافہ پھول دار اور خوشبودار تھاجس کو جمالیاتی ذوق نے پسند نہیں کیا تھا۔چند روز کے بعد جمیل مجھ سے ملا تو معلوم ہوا کہ اس نے یہ خط اس لڑکی تک نہیں پہنچایا۔اولاً اس لیے کہ عشق کا آغاز خط سے کرنا نامناسب ہے۔ثانیاً اس لیے کہ اس خط کی تحریر بے ربط اور بے اثر ہے۔ اس نے خود کو لڑکی متصور کرکے یہ خط پڑھا اور اس کو بہت مضحکہ خیز معلوم ہوا۔

ثالثاً اس لیے کہ تفتیش کرنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ لڑکی ہندو ہے۔یہ مرحلہ بھی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔

اس کے گھر میں میرا آنا جانا تھا۔ مجھ سے کوئی پردہ وغیرہ نہیں تھا۔ ہم گھنٹوں بیٹھے پڑھائی یا گپ بازیوں میں مشغول رہتے۔ اس کی دو بہنیں تھیں۔ چھوٹی چھوٹی۔ ان سے بڑی بچکانہ قسم کی پرلطف باتیں ہوتیں۔ اس کی موسی کی ایک انتہا درجے کی سادہ لوح لڑکی عذرا تھی۔ عمر یہی کوئی سترہ اٹھارہ برس ہوگی۔ اس کا ہم دونوں بہت مذاق اڑایا کرتے تھے۔

جمیل کی جب دوسری کوشش بھی بار آور ثابت نہ ہوئی تو وہ دو مہینے تک خاموش رہا۔ اس دوران میں اس نے عشق میں گرفتار ہونے کی کوئی نئی کوشش نہ کی۔ لیکن اس کے بعد اس کو ایک دم دورہ پڑا اور اس نے ایک ہفتے کے اندر اندر پانچ چھ لڑکیاں اپنی عشق کی بندوق کے لیے نشانے کے طور پر منتخب کرلیں۔ پر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ صرف چار لڑکیوں کے متعلق مجھے اس کی عشقیہ مہم کے بارے میں علم ہے۔

پہلی نے جو اس کی دور دراز کی رشتے دار تھی، اپنی ماں کے ذریعے اس کی ماں تک یہ الٹی میٹم بھجوا دیا کہ اگر جمیل نے اس کو پھر بری نظر سے دیکھا تو اس کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔دوسری غور سے دیکھنے پر چیچک کے داغوں والی نکلی۔تیسری کی چھٹے، ساتویں روز ایک قصائی سے منگنی ہوگئی۔چوتھی کو اس نے ایک لمبا عشقیہ خط لکھا جو اس کی موسی کی بیٹی عذرا کے ہاتھ آگیا۔ معلوم نہیں کس طرح۔ پہلے جمیل اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا، اب اس نے اڑانا شروع کردیا، اتنا کہ جمیل کا ناک میں دم آگیا۔

جمیل نے مجھے بتایا، ’’سعادت! یہ عذرا جسے ہم بے وقوفی کی حد تک سادہ لوح سمجھتے ہیں، سخت ظالم ہے، سب سمجھتی ہے۔ جس لڑکی کو میں نے خط لکھا تھا اور غلطی سے اپنے میز کے دراز میں رکھ کر یہ سوچنے میں مشغول تھا کہ وہ اس کا کیا جواب لکھے گی، یہ کم بخت جانے کیسے لے اڑی۔ اب اس نے میرا ناطقہ بند کردیا۔ بعض اوقات ایسی تلخ باتیں کرتی ہے کہ مجھے رلاتی ہے اور خود بھی روتی ہے۔ میں تو تنگ آگیا ہوں۔‘‘

اس سے بہت زیادہ تنگ آکر اس نے اپنے عشق کی مہم اور تیز کردی۔ اب کی اس نے چودہ لڑکیاں چنیں مگر اچھی طرح غور کرنے کے بعد ان میں سے صرف ایک باقی رہ گئی۔ دس اس کے مکان سے بہت دور رہتی تھیں، جن کو ہر روز حتمی طور پر دیکھنے کے متعلق اس کا دل گواہی نہیں دیتا تھا۔ دو ایسی تھیں، جن کا خاندانی ہونے کے بارے میں اسے شبہ تھا۔ بارہ ہوئیں۔ تیرھویں نے ایک دن ایسی بری طرح گھورا کہ اس کے اوسان خطا ہوگئے۔

چودھویں جو کہ چودھویں کا چاند تھی، ملتفت ہو جاتی مگر وہ کم بخت کمیونسٹ تھی۔ جمیل نے سوچا کہ اس کا التفات حاصل کرنے کے لیے وہ ضرور کمیونسٹ بن جاتا، کھادی کے کپڑے پہن کر مزدوروں کے حق میں دس بارہ تقریریں بھی کردیتا، مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کے والد صاحب ریٹائرڈ انجینئر تھے، ان کی پنشن یقیناً بند ہو جاتی۔ یہاں سے ناامیدی ہوئی تو اس نے سوچا کہ عشق بازی فضول ہے، شرافت یہی ہے کہ وہ کسی سے شادی کرلے۔ اس کے بعد اگر طبیعت چاہے تو اپنی بیوی کی محبت میں گرفتار ہو جائے۔ چنانچہ اس نے مجھے اس فیصلے سے آگاہ کردیا۔ طے یہ ہوا کہ وہ اپنی امی جان اور اپنے ابا جان سے بات کرے۔

بہت دنوں کی سوچ بچار کے بعد اس نے اس گفتگو کا مسودہ تیار کیا۔۔۔ سب سے پہلے اس نے اپنی امی سے بات کی۔ وہ خوش ہوئیں۔۔۔ ادھر ادھر اپنے عزیزوں میں انھوں نے جمیل کے لیے موزوں رشتہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔۔۔ پڑوس میں خان بہادر صاحب کی لڑکی تھی۔۔۔ ایم۔ اے۔ بڑی ذہین اور طبیعت کی بہت اچھی۔۔۔مگر اس کی ناک چپٹی تھی۔ خالہ کی بیٹی حسن آراء تھی پر بے حد کالی۔ صغریٰ تھی مگر اس کے والدین بڑے خسیس تھے۔جہیز میں جتنے جوڑے جمیل کی ماں چاہتی تھی، اس سے وہ آدھے دینے پر بھی رضا مند نہیں تھے۔ عذرا کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

جمیل کی ماں نے بڑی کوششوں کے بعد راولپنڈی کے ایک معزز اور متمول خاندان کی لڑکی سے بات چیت طے کرلی۔ جمیل اپنی ناکام عشق بازیوں سے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اس نے اپنی ماں سے یہ بھی نہ پوچھا کہ شکل و صورت کیسی ہے۔ ویسے اس نے اپنے زندہ تصور میں اس کا اندازہ لگالیا تھا اور مفصل طور پر سوچ لیا تھا کہ وہ اس کی محبت میں کس طرح گرفتار ہوگا۔یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ میں خوش تھا کہ جمیل کی شادی ہورہی ہے۔ اس کے مرض متعلقہ بہ عشق کا ایک فقط یہی واحد علاج تھا۔چھ مہینے گزر گئے ،آخرراولپنڈی کے اس معزز اور متمول خاندان کی لڑکی سے،جس کا نام غالباً شریفہ تھا، اس کی منگنی ہوگئی۔

اس تقریب پر اسے سسرال کی طرف سے ہیرے کی انگوٹھی ملی، جو وہ ہر وقت پہنے رہتاتھا۔ اس پر اس نے ایک نظم بھی لکھی جس کا کوئی شعر مجھے یاد نہیں۔ ایک برس تک سوچتا رہا کہ اسے اپنی دلہن کو کب اپنے یہاں لانا چاہیے۔ آدمی چونکہ آزاد اور روشن خیال قسم کا تھا اس لیے اس کی خواہش تھی کہ ماں باپ سے علیحدہ اپنا گھر بنائے۔ یہ کیسا ہونا چاہیے، اس میں کس ڈیزائن کا فرنیچر ہو، نوکر کتنے ہوں، ماہوار خرچ کتنا ہوگا، ساس کے ساتھ اس کا کیا سلوک ہوگا، ان تمام امور کے بارے میں اس نے کافی سوچ بچار کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی والے تنگ آگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ رخصتی کا مرحلہ جلد از جلد طے ہو۔

جمیل اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ لیکن اس کی امی نے ایک تاریخ مقرر کردی۔ کارڈ وارڈ چھپ گئے۔ ولیمے کی دعوت کے لیے ضروری سامان کا بندوبست کرلیا گیا۔ اس کے والد بزرگوار شیخ محمد اسماعیل صاحب ریٹائرڈ انجینئر بہت مسرور تھے مگر جمیل بہت پریشان تھا۔ اس لیے کہ وہ اپنے بننے والے گھر کا آخری نقشہ تیار نہیں کرسکا تھا۔

رخصتی کی تاریخ9 اکتوبر کی صبح کو۔۔۔ منہ ادھیرے جمیل میرے پاس سخت اضطراب اور کرب کے عالم میں آیا اور اس نے مجھے یہ خبر سنائی کہ اس کی موسی کی لڑکی عذرا نے جو بیوقوفی کی حد تک سادہ لوح تھی، خودکشی کرلی ہے، اس لیے کہ اس کو جمیل سے والہانہ عشق تھا۔ وہ برداشت نہ کرسکی کہ اس کے محبوب و معبود کی شادی کسی اور لڑکی سے ہو۔ اس ضمن میں اس نے جمیل کے نام خط لکھاجس کی عبارت بہت درد ناک تھی۔ میرا خیال ہے کہ یہ تحریریادگار کے طور پر اس کے پاس محفوظ ہوگی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.