عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو ہوا سو ہوا
Appearance
عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو ہوا سو ہوا
نپٹ ہی تند ہے ظالم کی خو ہوا سو ہوا
خطا سے اس کی نہیں نام کو غبار ملال
میں رو رو ڈالا ہے سب دل سے دھو ہوا سو ہوا
مری خطا یا جفا تھی تری یہ کیا ہے ذکر
ہوا جو چاہیئے پھر تو نہ ہو ہوا سو ہوا
ہنسے ہے دل میں یہ نا دردمند سب سن سن
تو دکھ کو عشق کے اے دل نہ رو ہوا سو ہوا
ستم گرو جو تمہیں رحم کی ہو کچھ توفیق
ستم کی اپنے تلافی کرو ہوا سو ہوا
تو کون ہے کہ ہو ملنے سے غیر کے مانع
دل اس کو ہاتھ سے اپنے نہ کھو ہوا سو ہوا
نہ سرگزشت مری پوچھ مجھ سے کچھ اے بخت
تو اپنے خواب فراغت میں سو ہوا سو ہوا
محبت ایک طرح کی نری سماجت ہے
میں چھوڑوں ہوں تری اب جستجو ہوا سو ہوا
بیان حال سے رکتا ہے حسرتؔ اب یارو
نہ پوچھو اس سے نہ کچھ تم کہو ہوا سو ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |