Jump to content

عرب کی شاعری

From Wikisource
عرب کی شاعری
by وحید الدین سلیم
319492عرب کی شاعریوحید الدین سلیم

ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’الشعردیوان العرب۔‘‘ یعنی عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے۔ دفتر کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ اس میں عرب کا جغرافیہ، عرب کی تاریخ، عرب کا تمدن، عرب کا طریقہ معاشرت، عرب کے خیالات و توہمات، عرب کی ملکی اور قومی خصوصیات سب کچھ ہے۔ اگر کوئی شخص عرب کی شاعری کا مطالعہ کرے تو کوئی بات عرب اور اہل عرب کے متعلق ایسی نہیں ہے جو اس میں نہ مل سکے۔ میں عرب کی شاعری کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ادائے خیالات کے کیا طریقے عربی شاعری میں تھے۔میں نے اس غرض کے لیے ایام جاہلیت کی شاعری پر نظر ڈالی ہے۔ ظہور اسلام کے بعد اوایل بنی امیہ کی شاعری کو بھی شامل کر لیا ہے۔ ایام جاہلیت کی شاعری کا خالص عربی رنگ ہے اور وہ فی الواقع عرب کے تمام حالات و خیالات کا آئینہ ہے۔ اوائل عہد بنی امیہ تک بھی کچھ اصلی خصائص عربی شاعری کے باقی رہے، مگر دولت عباسیہ کے زمانہ میں اس پر عجمیت غالب آ گئی اور شاعری کا خالص عربی رنگ نہیں رہا۔ اگر چہ اس زمانہ کی شاعری اس زمانے کے عربوں کے انقلاب حالت کی تصویر ہے مگر میں نے اس کو اپنے موضوع سے خارج کر دیا ہے۔ میں یہ سب کچھ اپنی محبوب زبان اردو میں لکھنا چاہتا ہوں، اصل عربی اشعار اس مضمون میں نہیں لکھوں گا۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ایک تو یہ کہ بیچ بیچ میں غیرزبان کے اقتباسات لانے سے مضمون کی روانی میں فرق آ جاتا ہے اور پڑھنے والے اس کو دلچسپی کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ دوسرے یہ کہ اہل یورپ کی طرح میری دلی خواہش یہ ہے کہ غیر زبانوں کے ادبیات کے متعلق جو کچھ لکھا جائے، وہ اپنی ہی مادری زبان میں ہوتا کہ ہمارا ادب وسیع ہو اور ترقی حاصل کرے۔ اگر غیرزبانوں کے حاصل کرنے والے ان کے تمام ادبی ذخیروں کو ہماری زبان کے ادب میں بھر دیں تو گھر بیٹھے ہم دنیا کے اعلیٰ اور لطیف خیالات پر عبور حاصل کر سکیں گے۔ دنیا کے ہر قدیم و جدید زبان کے اعلیٰ شاعروں، ادیبوں کے شہ پارے اردو زبان میں بھردینے چاہئیں، تاکہ زبان حال کے انشاء پر دازوں اور شاعروں کو مدد ملے اور ایک محدود دائرہ سے نکل کر آگے بڑھنے کے رستے ان کو نظر آنے لگیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو نہ ہمارا ادب کبھی ترقی کرےگا اور نہ اس میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوگی۔ایک اور بات بھی ہے جس کی وجہ سے ایسے مضامین تحریر کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ اگر ہمارے نوجوان انشاء پرداز اور شاعر جو غیرزبانوں کے ادب سے نابلد ہیں، یہ معلوم کریں گے کہ ہر ملک کا ادب اس ملک کی قومی اور ملکی خصوصیات کا آئینہ ہے، پھر اپنی شاعری اور انشاء پردازی پر نظر ڈالیں گے، تو ا ن کو صاف دکھائی دےگا کہ اس میں اس ملک کی خصوصیات کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ ہماری ساری شاعری اور ساری انشاء پردازی بیرونی ادب کی نقالی ہے اور اس میں ہر چیز باہر سے لائی گئی ہے۔ کیا یہ شرم وغیرت کا مقام نہیں ہے؟ کیا اس نقص کے معلوم ہونے کے بعد ہم کو اپنے ادب کی اس کھلی کمزوری کی تلافی نہیں کرنی چاہیے؟ کیا زمانہ سابق کی طرح آئندہ بھی ہم کو صرف بیرونی ادب کی نقالی پر قناعت کرنا لازم ہے؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی زبان کے ادب میں انقلاب پیدا کریں اور اس کو ایک ملکی ادب بنانے کی کوشش میں سرگرم نہ ہوں؟ اگر یہ ضرورت مسلم ہے تو پھر ایسے مضامین ہی اہل فکروبصیرت کے لیے تحریک و ترغیب کا باعث ہوں گے۔شاعری کے موضوع:عرب کی شاعری کے اہم موضوع حسب ذیل ہیں۔ (۱) بہادری کے جذبات(۲) اخلاقی جذبات(۳) عاشقانہ جذبات(۴) مدح وذم(۵) غم کے جذباتان میں سے ہر موضوع پر جو کچھ عرب شعرا نے کہا ہے، وہ ان کے دلی خیالات اور اصلی حالات کا آئینہ ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہی کر دکھاتے ہیں۔ ان کی شاعری اصلی اور حقیقی شاعری ہے۔ اپنے عیب و صواب سب کھول کر رکھ دیے ہیں۔ کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رکھی۔ ان کی زبان ان کی دلی واردات کی ترجمان ہے۔ ان کی شیخیاں جھوٹی شیخیاں نہیں ہیں۔ ان کے کارنامے ان کی نیتوں کے گواہ ہیں۔ وہ اگر کسی کی مدح کرتے ہیں تو صرف اس کی، جس کے قول و فعل میں مطابقت ہے اور جس کی ذات میں فی الواقع وہ خوبیاں موجود ہیں، جن کا ذکر مدح میں کیا گیا ہے۔ اگر کسی کے مرنے پر آنسو بہاتے اور اس کے اوصاف بیان کرتے ہیں تو وہ درحقیقت ایسا ہی شخص ہوتا ہے جس کا وجود خیر و برکت کا باعث تھا۔ جھوٹی مدح وہ کبھی نہیں کرتے، جھوٹے آنسو وہ کبھی نہیں بہاتے، ان کی زبان اور ان کے دل ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔یہاں مثال کے طور پر چند نمونے عربی شاعری کے پیش کیے جاتے ہیں۔ جن سے ناظرین کو اندازہ ہوگا کہ ان میں کس قدر سچائی اور اصلیت کی جھلک ہے اور اہل عرب کی بیرونی اور اندرونی کیفیات کا صحیح نقشہ ان میں کس طرح کھینچ کر رکھا گیا ہے۔فخریہ اشعاراے ہیضم کے دونو بیٹو! کیا تم نے عزم و ہمت کے وقت میری تدبیر کو سست پایا۔ میں نے دنیا کے بہت سے واقعات کا امتحان کیا ہے اور واقعات نے میرا امتحان کیا ہے، گویا کہ میں گزری ہوئی قوموں کا آدمی ہوں۔ ہم ایسی ماں کے بیٹے نہیں ہیں، جن کی چھاتیاں چھوٹی ہوں اور ان کا دودھ منقطع ہو گیا ہو اور وہ صرف ایک ہی دفعہ جنی ہو۔ ہم ایسی صاحب نصیب عورت کی اولاد ہیں جن نے حوضِ ولادت سے مکرر پانی پیا ہے اور جس نے مکرر اولاد پیدا کی ہے۔ زمین کا انڈا شق ہوا اور ہم اس میں سے نکل پڑے۔ ہم زمین کے سخت حصے اور ریگستانی حصے کے فرزند ہیں، ہمارے قبضے میں اجاء اور سلمی کے پہاڑی قلعے ہیں اور دونوں قلعوں کی مشرقی زمین بھی ہمارے پاس ہے۔ قلعہ تیمار کے مالک بھی ہمیں ہیں، جو قوم عاد کے زمانے سے ہمارے قبضے میں ہے اور ہم نے اپنے برچھوں کے زور سے اس کو بچایا ہے۔ (قبیصہ بن جابر)ہم ہنشل کے پوتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں اور ہمارا داد اہم پر فخر کرتا ہے۔ عزت اور برتری کی کسی حد تک گھوڑے دوڑائے جائیں، سب سے آگے بڑھنے والے جب پاؤگے بنی ہنشل ہی کے گھوڑے پاؤگے۔ ہم میں سے کوئی سردار جب تک کہ کوئی لڑکا اپنا جانشین بننے کے لایق نہیں چھوڑتا، دنیا سے نہیں اٹھتا۔ لڑائی کے دن ہم اپنی جانیں سستی کر دیتے ہیں، مگر امن کے زمانہ میں اگر ان کی قیمت پوچھیے تو وہ انمول ہیں۔ ہماری مانگوں کے بال خوشبوؤں کے استعمال سے سفید ہیں، ہماری دیگیں مہمانوں کے لیے گرم ہیں، ہمارا مال ہمارے مقتولوں کے خون بہاکے لیے وقف ہے۔ میں اس قوم میں سے ہوں جس کے بزرگوں نے دشمنوں کے اتنے کہنے پر کہ کہاں ہیں قوم کے حمایتی؟ اپنے کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ اگر ہزار میں ہماراایک موجود ہو تو بھی جب یہ کہا جائےگا کہ، کون ہے شہسوار تو اس کی اپنے ہی پر نگاہ پڑےگی۔ (بشامہ بن حزن)اگر انسان کی عزت پر بخل کا داغ نہ ہو تو پھر وہ جو لباس پہنے اس کے بدن پر کھلتا اور زیب دیتا ہے، اگر انسان اپنے تئیں بخل کے جذبات سے نہ روکے تو پھر مدح و ستایش کا رستہ اسے نہیں ملتا۔ وہ عورت ہم پر الزام لگاتی ہے کہ ہماری تعداد تھوڑی ہے، میں نے جواب دیا کہ شریف انسان دنیا میں تھوڑے ہی ہوتے ہیں اور قوم کم نہیں سمجھی جائےگی جس کی یادگار ہم جیسے بلند مرتبہ نوجوان اور ادھیڑ عمر کے ہوں۔ تعداد کی کمی ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتی ہے، جب کہ ہمارے ہمسائے طاقتور ہیں، حالانکہ اوروں کے ہمسائے ذلیل ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسے بلند پہاڑ کے مالک ہیں، جس کی طرف اگر نظر اٹھائی جائے تو وہ تھک کر واپس آ جاتی ہے۔ ہم جس کو چاہیں اس پر پناہ لینے کی اجازت دیتے ہیں، اس پہاڑ کی جڑ تحت الثریٰ میں ہے اور اس کی چوٹی لمبی اور اس قدر بلند ہے کہ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ہم وہ قوم ہیں کہ جنگ میں مارے جانے کو عیب نہیں جانتے، حالانکہ بنی عامرہ اور بنی سلول ایسا ہی جانتے ہیں۔ ہم موت کو پسند کرتے ہیں، اس لیے ہماری عمریں کوتاہ ہیں، مگر وہ موت سے بھاگتے ہیں اس لیے ان کی زندگی اکثر دراز ہوتی ہے۔ ہمارا کوئی سردار بچھونے پر پڑکر نہیں مرا، ہماری قوم کا کوئی ایسا مقتول نہیں ہے جس کا انتقام یا خون بہا نہ لیا گیا ہو، ہمارے خون بس تلواروں کی دھاروں پر ہی بہتے ہیں۔ ہم فعل میں خالص اور غیرمکدر ہیں۔ ماؤں اور باپوں نے ہمارے نسب کو خالص اور محفوظ رکھا ہے۔ ہم لطافت اور صفائی میں آب باراں کے مانند ہیں، نہ ہم میں کوئی بخیل ہے، نہ کند ذہن۔ اگر چاہیں تو اوروں کی بات کہیں تو پھر کسی کو انکار کی مجال نہیں ہوتی۔ اگر ہمارا کوئی سردار مرتا ہے تو اس کا جانشین ایک ایسا ہی سردار ہوتا ہے، جس کا دل اور زبان شریفوں کی طرح ایک ہو۔ رات کے آنے والے مہمانوں کے لیے ہماری آگ کبھی نہیں بجھائی گئی اور نہ کسی مہمان نے کبھی ہماری شکایت کی۔دشمنوں کے ساتھ جو معرکے ہمیں پیش آئے، وہ نہایت درخشاں اور نمایاں ہیں۔ ہماری تلواریں مغرب و مشرق میں مشہور ہیں اور زرہ پوشوں پر بار بار پڑنے سے ان میں دندانے پڑ گئے ہیں۔ ہماری تلواروں کی عادت ہے کہ جب تک ایک جماعت کا ستھراؤ نہ ہولے اور وہ اچھی طرح لہونہ چاٹ لیں، میانوں میں نہیں جاتیں۔ اگر تمہیں ہمارا حال معلوم نہ ہو تو دنیا کے لوگوں سے پوچھ لو، اس لیے کہ بنی ویان اپنی قوم کے لیے بمنزلہ قطب کے ہیں اور قوم کے سارے معاملات کی چکیاں اسی قطب کے گرد گھومتی اور چلتی رہتی ہیں۔ (سمول بن عادیا)شجاعت اور بزدلی کی تصویریں: اگر میں بنی ماذن میں سے ہوتا تو مجال نہ تھی کہ میرے اونٹ آل ذھل کے غارت گر لوٹ کر لے جاتے، اگر میں بنی ماذن میں سے ہوتا تو میری حمایت پر ایک ایسی قوم کمربستہ ہوتی جو غیرت اور غصہ کے وقت سخت ہے گو کہ بزدل آدمی اس وقت نرم اور سست پڑ جاتے ہیں۔ بنی ماذن وہ قوم ہے کہ جب لڑائی درندہ کی طرح اپنی داڑھیں یا کچلیاں نکال کر ڈراتی ہے تو یہ اکیلے اور اکٹھے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، وہ طالب حمایت سے کوئی دلیل نہیں پوچھتے اور فوراً اس کی حمایت کے لیے دوڑ پڑتے ہیں، مگر میری قوم باوجود کثرت کے اس قابل نہیں ہے کہ تھوڑی سی مصیبت میں بھی لڑنے پر کمربستہ ہو۔ اگر کوئی ظالم ان پر ظلم کرے تو وہ بزدلی کے سبب اس کو معاف کر دیتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ساتھ بدی سے پیش آئے تو وہ نیکی کرنے پر تلے رہتے ہیں، گویا خدا نے ان کے سوا کوئی ایسی قوم دنیا میں پیدا نہیں کی، جس کے دل میں خوفِ خدا ہو۔ کاش مجھے اس قوم کے بدلے کوئی اور ایسی قوم مل جائے کہ جب وہ گھوڑوں پر یا اونٹوں پر سوار ہو تو خوب غارت گری کرے۔ (قریط بن انیف)ایک سو نو برس کے بوڑھے عرب کے جذبات: اگر میں بہت بوڑھا ہو گیا ہوں تو کیا مضائقہ ہے، میں مدت تک جوان رہ چکا ہوں۔ میری پیدائش کے دن سے ایک سو نو برس گزر چکے ہیں، جن کو میں نے لباس کی طرح اتار پھینکا ہے۔ میں سواروں کے بہت سے رسالے مرتب کر چکا ہوں جو لودوں کی ٹکڑیوں کی طرح ایک جگہ آکر جمع ہوتے تھے۔ وہ ایک ایسی گھٹا تھی جس میں موت بجلی کی طرح چمکتی تھی۔ میں نے ان سواروں کے ساتھ لوٹ مار کی ہے اور بہت مزے اڑائے ہیں، مگر دنیا کے تمام مزے چند روزہ ہیں۔میں نے جنگ بہیما کے دن بہت سی عورتوں کو دیکھا جو مارے خوف کے منھ کے بل گری پڑتی تھیں۔ انہیں میں سے ایک عورت خوف کے سبب پیاسی دکھائی دی۔ اس کا گلا گھٹا جاتا تھا، وہ بول نہیں سکتی تھی، اس کی آنکھوں سے متواتر آنسو بہ رہے تھے۔ جب میں نے اس کے شوہر کو قتل کر دیا تو کہنے لگی کہ اے مجمع تو ہلاک ہو، جیسا کہ تونے مجھے ہلاک کیا ہے۔ میں نے کہا میں نہیں بلکہ اے ام مجاشع! تو اور تیری قوم ہلاک ہوئی ہے۔ میں نے اس عورت کے شوہر کو ایک ایسے لمبے اور چمکدار نیزہ سے قتل کیا تھا کہ جب وہ ہلایا جاتا ہے تو اس سے آگ کے شعلے لپکتے ہیں، اس کے سوا اور بہت سی عزت دار عورتیں تھیں، جن کو میں نے ایسے حال میں چھوڑا کہ ان کے منہ پر خراش تھی۔ وہ غمگین تھیں اور زار زار روتی تھیں۔ (مجمع بن ہلال)فوج کشی کا سماںجب ہم لڑائی پر کمربستہ ہوتے ہیں تو ایسی فوج ساتھ لے کر چلتے ہیں جس کے اطراف میں ابلق گھوڑے غائب ہو جائیں۔ جس کا پچھلا حصہ مدینہ میں اور اگلا حصہ دمشق میں ہوتا ہے۔ جب ہم مشرق اور مغرب کے درمیان چلتے ہیں تو جاگتی اور سوتی زمین لرزنے لگتی ہے۔ یعنی وہ زمین جس پر لوگ چلتے ہیں اور وہ زمین جس پر لوگ نہیں چلتے ہیں، یکساں طور سے زلزلہ میں آ جاتی ہے۔ (ابان بن عبدہ)نشے کی ترنگمیں نے چھوٹے اور بڑے پیالوں میں شراب ڈال کر پی ہے، جب میں نشے میں ہوتا ہوں تو اپنے تئیں بادشاہ نعمان کے شاندار محلات، خورنق اور سدیر کا مالک سمجھتا ہوں مگر جب ہوش میں آتا ہوں تو پھر وہی بکریوں اور اونٹوں والا ہوتا ہوں جو پہلے تھا۔ (منخل بن حارث لشکری)غم کے جذباتقیس کا مرنا ایک شخص کا مرنا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک قوم کی بنیاد تھا جو گر گئی۔ اس سبب سے وہ قوم بھی گر گئی۔ (عبدہ بن طیب)میرے ایک دوست نے قبروں کے پاس رونے سے مجھ کو ملامت کی اور کہا کیا تو ہر قبر کو دیکھ کر روئےگا۔ حالانکہ تو جس قبر کے خیال میں ہے، وہ لویٰ اور وکاوک کے درمیان واقع ہے۔ میں نے کہا ایک غم دوسرے کو اکساتا ہے مگر مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔ میرے نزدیک تو یہ سب قبریں میرے بھائی مالک ہی کی ہیں۔ (متمم بن تو بیرہ)وہ لوگ جو اس کو قبر کی طرف لے گئے، نہیں جانتے کہ انہوں نے کس چیز کو بے پروائی سے کفن میں لپیٹ دیا ہے۔ (محمد بن بشیر خارجی)میں نہیں جانتا تھا کہ لوگوں پر اس کی فیاضی کا کس قدر احسان ہے، یہاں تک کہ اس کو پتھروں کی سلوں نے اپنے اندر چھپا لیا۔ وہ مرکز زمین کی ایک تنگ جگہ میں سما گیا، حالانکہ جب وہ زندہ تھا تو (فوج کی کثرت کے سبب) بڑے بڑے میدانوں میں بھی نہیں سماتا تھا۔ اب میں تیرے مر جانے کے بعد کسی بڑی سی بڑی مصیبت سے بھی گھبرانے والا نہیں ہوں۔ (اشجع سملی)اے معن کی قبر! تو نے اس کی فیاضی کو اپنے اندر کیوں چھپا لیا، حالانکہ جب وہ زندہ تھا تو اس کی فیاضی سے زمین کی خشکی اور تری سب بھر گئی تھی۔ ہاں بے شک، فیاضی خود مر گئی ہے اس لیے وہ تیرے اندر سما سکی اور اگر وہ زندہ ہوتی تو اس کے سبب تو پھٹ جاتی۔ وہ ایسا جوان مرد تھا کہ مرنے کے بعد بھی لوگ اس کی فیاضی سے زندہ ہیں۔ جس طرح سیل کے گزرنے کے بعد زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ معن کے مرنے سے سخاوت بھی مر گئی اور اس کا خاتمہ ہو گیا اور انسانی کمالات اور خوبیوں کی ناک کٹ گئی۔ (حسین بن مطہر اسدی)مرحوم کے احسانات نے مرحوم کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ جب وہ احسان زندہ ہیں تو گویا وہ خود دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ قبر کی زمین کا طول چار گز ہے اور عرض پانچ بالشت۔ پھر تعجب ہے کہ اس میں ایک بلند پہاڑ کیونکر سما گیا۔ (عبداللہ ابن ایوب)اے میری نادان گھروالی! تو اس اونٹ کے جاتے رہنے پر کیوں غم کرتی اور روتی ہے، جس کو بیچ کر میں نے شراب پی لی ہے؟ خدا کرے تیرے آنسو کبھی نہ تھمیں۔ آخر زید الفوارس اور زید اللات پر کیوں نہیں روتی، اور بنی نضر کے دو گزرے ہوئے نامور اشخاص کی موت پر کیوں آنسو نہیں بہاتی، ان نامور اور فیاض لوگوں نے مرکر زمانے کو مجھ پر چھوڑ دیا ہے اور میں اب زمانے کے عملوں کا نشانہ بنا ہوا ہوں۔ (خراز بن عمرو)سچی تعریف کا جذبہہشام بن عبدالملک ایک بار حج کے لیے گیا۔ اس نے سنگ اسود کو بوسہ دینے کے لیے بھیڑ کو چیر کر آگے بڑھنا چاہا مگر ممکن نہ ہوا۔ اس اثناء میں امام زین العابدین تشریف لائے۔ ان کے آتے ہی بھیڑ چھٹ گئی اور وہ آسانی سے سنگ اسود تک پہنچ گئے۔ ہشام نے جان بوجھ کر سرداران شام سے، جو اس کے ساتھ تھے، پوچھا کہ یہ کون شخص ہے۔ اس وقت فرزوق شاعر موجود تھا۔ اس نے چند مدحیہ اشعار امام کی شان میں پڑھے اور ہشام کو بتایا کہ وہ کون ہیں۔ اشعار کا مضمون حسب ذیل تھا۔یہ وہ ہے جس کے قدموں کے نشان کو بطحا کی زمین پہچانتی ہے، کعبہ پہچانتا ہے اور اہل حرم بھی پہچانتے ہیں۔ یہ اس شخص کا فرزند ہے، جو خدا کے بندوں میں سب سے بہتر اور برتر تھا۔ یہ نامور شخص پاک و صاف اور متقی اور پرہیزگار ہے۔ جب قریش اس کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بزرگی اور شرافت کا خاتمہ تو اسی شخص کی ذات پر ہے۔ جب وہ سنگ اسود کو بوسہ دینے کے لیے بڑھا تو قریب تھا کہ اس کے ہاتھ کو پہچاننے کے سبب اس کو روک لے اور اس سے برکت حاصل کرے۔ قبائل عرب میں سے کون قبیلہ ہے، جس کی گردن پر اس شخص کے بزرگوں کے احسانات نہ ہوں۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے جس کی خوشبو ہر طرف پھیل رہی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسے شخص کے پاس ہے جو حسین و جمیل بھی ہے اور بلند مرتبہ بھی۔ وہ شرم و حیا کے سبب آنکھیں جھکائے رہتا ہے اور لوگ اس کے رعب سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں۔ کسی کی مجال اس سے بات کرنے کی نہیں ہوتی مگر جب کہ حسن اتفاق سے وہ مسکرائے۔ اس نے کلمۂ شہادت کے سوا کبھی لا نہیں کہا۔ اگر کلمہ شہادت نہ ہوتا تو اس کا لا (نہیں) نعم (ہاں) سے بدل جاتا۔ (فرزوق)مختلف مدحیہ اشعار وہ میدان جنگ میں ایسے اطمینان سے چلتے ہیں، جیسے شیر زور کی بارش میں حرارت مزاج کے سبب چلتے ہیں۔جب بنی قیس اور ان کے ساتھی بنی ذہل دریائے ذخار کی طرح جوش میں آ جاتے ہیں تو مثل بڑے دریاؤں کے ہوتے ہیں، جن میں اور بڑے دریا آ ملیں۔لطیف اخلاق روحیں ہیں۔ اور آل مہلب ان روحوں کے لیے اجسام ہیں تو ان کی عزت دوسروں کو نہیں دے سکتا۔ جب تک کہ کوہ یسوم کو معہ اس کی پہاڑیوں کے اس کی جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ نہ رکھ دے (یعنی یہ بات ناممکن ہے)وہ اپنے ارادوں کے پورا کرنے میں اور قد کی درازی اور گردنوں کی لمبائی میں تلواروں سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔زیاد کے دونوں بیٹے دو سیدھے گندم گوں خطی تیر تھے۔ زمین ان کے چلنے سے نیچے کو دبی جاتی تھی۔ اے مخالف! تو ایسے ہی لوگوں کے بھروسے پر کسی قوم سے لڑ سکتا یا صلح کر سکتا ہے۔وہ شخص تلوار کے مانند ہے کہ اگر تو اس کو نرمی سے چھوئے تو نرم معلوم ہوتی ہے اور اگر اس کو سختی سے چھوے، پھر اس کی دونوں دھاریں تیز ہیں۔لوگ اس کے سامنے ایسے خاموش بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں کہ اگر ذرا سر ہلائیں تو پھر سے اڑ جائیں (رعب کی تصویر ہے)ہجویہ اشعار

تم ایسے ابر ہو جس میں خوفناک گرج ہے۔ جس کے ساتھ تند ہوا ہے، جو سنگ ریزے اڑاتی اور خیموں کی رسیاں کاٹ دیتی ہے مگر وہ برستا کبھی نہیں۔تمہاری اونٹنیاں موٹی ہیں۔ یعنی تم بخیل و نامرد ہو۔ نہ مہمانوں کے لیے ان کو ذبح کرتے ہو اور نہ ان پر سوار ہوکر میدانِ جنگ کو جاتے ہو۔وہ جب کھانا کھاتے ہیں تو آہستہ بولتے ہیں (تاکہ کوئی مسکین آواز نہ سنے) اور اپنے گھر کے بند دروازے سے عہد لیتے ہیں کہ جب تک ہم کھانا کھائیں، کسی کے کھولنے سے مت کھلیو۔اگر میں تمہارے دروازہ پر شراب لے آتا تو تمہارا کتا مجھے صاحب خانہ خیال کرتا اور نہ بھونکتا۔ (یعنی تم شرابی ہو اور تمہارا کتا اس کی بو سے مانوس ہے) مگر میں جب تمہارے پاس آیا تو مشک اور عود کی خوشبو میرے کپڑوں میں بسی ہوئی تھی (اسی لیے تمہارا کتا چوکنا ہوا اور اس نے بوکو اجنبی سمجھا۔)وہ گفتگو کی قدرت نہ ہونے کے سبب اپنے تالو کو زبان سے چاٹنے لگتا ہے اور اس کے دل کا ابر کبھی نہیں کھتا۔ (یعنی ہمیشہ شک وتردد کی حالت میں رہتا ہے۔)عاشقانہ جذباتاے خدا۔ کے بندہ! کیا سچ مچ جب تک کہ بھورے ہرن اپنی دمیں ہلاتے رہیں گے، میں بریدہ سے نہ مل سکوں گا۔جب اس محبوب کی اونٹنی صبح کو روانہ ہو گئی تو میں نے اپنی اونٹنی کو اس کے پیچھے ہنکایا۔ حالانکہ اس کے پاؤں بندھے ہوئے تھے (یہ بیخودی کا عالم ہے۔)نازنینوں کے شوق سے ہمارے دل اس طرح اہتراز حاصل کرتے ہیں جیسے خیری کے پھول شبنم سے۔زمانہ کی گردش نے اگر مجھے ام عمرو پر کبھی قدرت دی تو پھر میں زمانہ کا قصور معاف نہ کروں گا۔جب ہمارے قافلے کے اونٹ ہمیں شام کی طرف لے جا رہے تھے تو یکایک آدھی رات کے وقت تیرا خیال آیا اور میں شام کی طرف ایک قدم نہ چل سکا۔ میں نے تیرے خیال کو لبیک کہا اور حدی خوانوں سے کہا کہ اونٹوں کو حجاز کی طرف واپس چلاؤ۔ اب شام کی طرف کوچ کرنے کی حاجت نہیں۔تاریک رات کی سردی میں جب کوہ جودی کے پہلوؤں پر بادل سے کچھ پانی برسا ہو اور شمال کی ہوا نے اس کو یخ کر دیا ہو تو وہ پانی میری مجبوبہ کے آب دہن سے اچھا نہیں ہو سکتا، اگرچہ میں نے اس کا مزہ نہیں چکھا۔ مگر جس چیز کو میری آنکھ دیکھتی ہے میں اسے خوب پہچانتا ہوں۔اے نجد کی ہوا! تو کب چلی۔ تیرے جھونکوں نے مجھے عشق کی تہیں چڑھا دیں۔ جب چاشت کے وقت درخت اند کی تروتازہ شاخ پر ایک کبوتری بولی تو اس کی آواز سن کر میں بچوں کی طرح رونے لگا اور وہ بھید جو میرے دل میں مدت سے چھپا ہوا تھا، یکایک فاش ہو گیا۔تو نے مجھے اپنے پاس بلایا اور ایسے نرم و شیریں کلام سے جو وحشی بکریوں کو بھی پہاڑوں کی چوٹیوں سے میدانوں میں اتار لائے، یعنی وحشیوں کو رام کرلے، مجھ پر قبضہ کیا۔ پھر تو مجھ سے دور بھاگ گئی اور تونے میری پسلیوں میں آگ لگا دی۔اے محبوبہ! تو بان کے سبزدرخت سے پوچھ جو ریت کے ایک ٹیلے پر کھڑا ہے۔ کیا میں نے تیری قیام گاہ کے کھنڈروں کو سلام نہیں کیا؟ کیا میں ان کھنڈروں کے پاس شام کو دیر تک وہاں کھڑا نہیں رہا؟ کیا میری آنکھوں نے وہاں صبح کے وقت اس طرح آنسو نہیں بہائے کہ گویا موتیوں کی ایک لڑی ٹوٹ گئی ہے اور اس کے موتی لگاتار گر رہے ہیں؟ لوگ موسم بہار کی آرزو کرتے ہیں مگر میرے لیے موسم بہار تیرا وصال ہے۔ میں دنیا کو دیکھتا ہوں کہ وہ قحط کے نام سے کانپتی ہے مگر میرے لیے قحط تیرا کوچ کر جانا اور جدائی اختیار کرنا ہے۔ جس رات میں نے سنا کہ لیلیٰ صبح یا شام روانہ ہوگی تو میرا دل اس لوہے کی طرح، جو صیاد کے پھندے میں پھنس گیا ہو اور پھندے سے گردن چھڑانے کے لیے پھڑکتا ہو، بے اختیار پھڑکنے لگا۔اے محبوبہ تو میرے ہر سونے میں آخر شے ہے اور ہر جاگنے میں اول شے ہے۔ اگر جنگل کے بھیڑیے میری محبوبہ کے ہم نسب ہوتے تو میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں ان سے بھی محبت کرتا۔ اے لیلیٰ کے کنبے کے لوگو! خدا تم میں لیلیٰ جیسے بہت سے معشوق پیدا کرے تاکہ تم میری لیلیٰ مجھے دے ڈالو اور اس کے دینے میں بخل نہ کرو۔ میری معشوقہ یا تو پری ہے یا اس کے ساتھ کوئی جن ہے، جوبے چلہ کمان سے دلوں پر تیر چلانا اسے سکھاتا ہے۔ وہ معشوقہ مقام جوا کی جنگلی گایوں کی طرح سنہری رنگ کی ہے۔ اے محبوبہ تو نے مجھے ایسے آرام کے وقت گھر سے نکلنے اور اپنی تلاش میں سفر کرنے پر مجبور کیا ہے جب کہ رنگ برنگ کے لوہے نہر کے دونوں کناروں پر زمین سے چھاتی لگائے آرام کر رہے ہیں۔اے محبوبہ! جب تو مجھ سے خفا ہوتی ہے تو میں ایسے ایسے اضطراب میں رات گزارتا ہوں کہ گویا بچھو نے کاٹ کھایا ہے۔ میں نک چھدے اونٹ کی طرح تیرے عشق کا تابع ہوں کہ جہاں وہ لے جاتا ہے اس کے ساتھ جاتا ہوں۔ میں تیرے وصل کا ایسا آرزومند ہوں جیسے کوئی پیاسا کنواں کھودے اور پانی کی جگہ کوئی سخت پتھر کی سل آ جائے، جس کو نہ وہ توڑ سکے نہ اس میں شگاف دے سکے۔ میں فراق کی رات میں اس طرح بے چین تھا جیسے کوئی سانپ کوڑے سے پیٹا جائے اور اس کی پشت کے مہرے ٹوٹ گئے ہوں اور وہ تڑپتا ہوا مرتا نہ ہو، یعنی میں زندوں میں تھا نہ مردں میں۔امرالقیس کی شاعری کا نمونہجب وہ دونوں نازنینیں کھڑی ہوئی تھیں تو ان سے ایسی خوشبو آتی تھی گویا بادصبا لونگوں کے درختوں سے گزر کر آئی ہے۔ آنسو میرے سینے پر اس قدر جاری ہوئے کہ میری تلوار کا تلاتر ہو گیا۔ اے لمبی رات! کیا تیرے ستارے کتان کی مضبوط رسیوں سے سخت پتھر کی چٹان سے باندھ دیے گئے ہیں؟ (کیا اپنی جگہ سے نہیں ہلتے اور صبح ہونے میں نہیں آتی) میں صبح کو ایسے وقت اٹھتا ہوں کہ پرندے اپنے آشیانوں میں ہوتے ہیں۔ پھر گھوڑے پر سوار ہوکر نکل جاتا ہوں۔ اس گھوڑے کا ڈیل بڑا ہے اور بدن پر بال کم ہیں۔ وحشی جانور اس کے آگے سے بھاگ نہیں سکتے۔ جب تم حملہ کرنا چاہو تو وہ بڑاحملہ آور ہے اور جب اس کو پیچھے ہٹانا چاہو تو بڑی تیزی سے پیچھے ہٹتا ہے۔ آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کے اوصاف اس میں ایک ساتھ جمع ہیں۔ تیز رفتاری کا یہ حال ہے کہ گویا پتھر کی ایک چٹان کو سیلاب نے پہاڑ کی بلندی سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ عرق گیر جو زین کے نیچے رہتا ہے اس کی سپاٹ پیٹھ پر سے پھسل جاتا ہے۔ باوجود چھریرے پن کے، جب اس کو ایڑ کا اشارہ کیا جاتا ہے تو وہ بہت گرم ہوجاتا ہے اور چلنے میں ایسی آواز آتی ہے گویا ہنڈیا جوش کھا رہی ہے۔جب اور گھوڑے روندی ہوئی پتھریلی زمین میں تھک کر قدم رگڑنے اور غبار اڑانے لگتے ہیں تو وہ اس حالت میں بھی اس طرح چلتا ہے کہ گویا تازہ دم ہے۔ اگر کوئی نوسوار لڑکا اس کی پشت پر سوار ہو تو اس کی کمر پر سے پھسل جاتا ہے اور اگر کوئی شہسوار ہو تو اس کی تیزی کے سبب سے وہ اپنے کپڑے سنبھال نہیں سکتا۔ کاوے میں اس طرح پھرتا ہے کہ گویا پھرکی ہے جیسے کوئی لڑکا بار بار گھما رہا ہے۔ کمر کی کوکیں ہرن جیسی ہیں۔ ٹانگیں شترمرغ جیسی۔ دوڑ بھیڑیے کی سی ہے اور پویہ چال میں وہ لومڑی کے بچے سے مشابہ ہے۔ اس کے تمام اعضا کامل ہیں۔ سینہ فراخ ہے۔ دم دراز ہے کہ زمین سے کچھ ہی اونچی رہتی ہے اور ایسی گھنی ہے کہ اگر پیچھے کی طرف سے تم اسے دیکھو تو وہ اس کی رانوں کے درمیانی فاصلہ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ کج دم نہیں۔ جب وہ ہمارے مکان کے قریب کھڑا ہوتا ہے تو اس کی پشت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ گویا دلہن کی خوشبو پیسنے کی سل ہے یا اندائن کا پھل توڑنے کا پتھر ہے۔آگے آنے والی نیل گایوں کا خون، جب کہ ان کی سرینوں پر نیزہ لگتا ہے، اس گھوڑے کے سینے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کنگھی کے سفید بالوں میں مہندی کا رنگ ہے۔ نیل گایوں کا ایک گلہ یکایک ہمارے سامنے سے گزرا۔ یہ ایسی خوش نما تھیں کہ جیسے کنواری لڑکیاں ہیں جو لمبی چادریں اوڑھے دواربت کا طواف کر رہی ہیں۔ ہمیں دیکھ کر وہ پیچھے پھریں۔ اس وقت ان کی قطار یمن کے سفید و سیاہ مہروں کا ایک ہار معلوم ہوتی تھی۔ اس گھوڑے نے اگلی گایوں کی طرف ہمیں اس تیزی سے پہنچا دیا کہ ابھی پچھلی گائیں بکھرنے نہ پائی تھیں۔ پھر اس نے ایک جھپٹ میں ایک گائے اور اس کے نرکو آگے پیچھے سے دبا لیا اور باوجود اس قدر دوڑ کے اسے پسینا بالکل نہیں آیا۔ ہمارے ساتھ کے شکاری گوشت پکانے میں مشغول ہو گئے۔ بعض دہکتے کوئلوں پر کباب لگا رہے تھے اور بعض نے ہنڈیاں چولہوں پر چڑھا دی تھیں۔ شکار کے بعد جب شام کو ہم گھر واپس آئے تو باوجود اس قدر محنت کے، گھوڑے کے حسن و جمال میں فرق نہیں آیا تھا۔ اب بھی ہماری نظر اس کے جسم پر پڑ کر پھیل جاتی تھی۔دوست ذرا آسمان کی طرف دیکھ، بجلی کس طرح چمک رہی ہے۔ تہہ بہ تہہ ابر میں گویا کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھوں کو حرکت دے رہا ہے۔ بجلی گویا راہب کا چراغ ہے، جس کی بتی پر تیل خوب چھنکا دیا گیا ہے۔ ہم ضارج اور عذیب کے درمیان بجلی اور بادل کا تماشا دیکھنے کے لیے بیٹھ گئے۔ بجلی کی روشنی میں معلوم ہوتا تھا کہ دائیں طرف بارش کا سلسلہ کوہ قطن تک ہے اور بائیں طرف کوہ ستارا اور یذبل تک۔ موضع کنیف میں اس زور کی بارش نے کھنبل جیسے بڑے بڑے درختوں کو گرا دیا ہے۔ تیماء میں کوئی مکان بے گرائے نہیں چھوڑا۔ بجز ان مکانوں کے جو پتھروں سے بنائے گئے تھے۔کوہ بثیر بارش کی دھاروں میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی بڑا سردار دھاری دار کملی اوڑھے بیٹھا ہے۔ کوہ مجیمر اور اس کے آس پاس کی چوٹیاں پانی کے سیلاب اور کوڑے کرکٹ میں اس طرح معلوم ہوتی ہیں کہ گویا تکلے کا دمکڑا ہے۔ بادل نے پانی کا سارا بوجھ غیظ کے جنگل میں اتار پھینکا۔ گویا ایک یمنی تاجر ہے، جس نے کپڑے کے رنگارنگ تھان کھول کر پھیلادیے ہیں (اس سے مراد نباتات اور پھول ہیں۔ وادی جواء کے پرند ایسی خوشیاں منا رہے ہیں کہ گویا فلفل آمیز شراب ان کو پلا دی گئی۔ وادی میں شام کے وقت وہ درندے جو کیچڑ یا پانی میں غرق تھے دور سے ایسے معلوم ہوتے تھے کہ گویا جنگلی پیاز کی جڑیں ہیں۔

عمرو بن کلثوم کی شاعری کا نمونہ

وہ ایسے چہرہ سے ہنستی ہے کہ گویا آفتاب نے اس پر اپنی روشنی کی چادر ڈال دی ہے۔ جب تلواریں علم کی جاتی ہیں تو ہم ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا سب لوگ ہمارے بچے ہیں۔ ہماری قوم کے لوگ دشمنوں کے سروں کو کاٹ کر اس طرح لڑھکاتے ہیں جیسے لڑکے گیندوں کو لڑھکاتے ہیں۔ ہم ہی ایسے ہیں کہ جس بات کو چاہیں روک دیں اور جہاں چاہیں اتر پڑیں۔ ہم اپنے فرماں برداروں کی حفاظت کرتے ہیں اور فرمانوں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ جب ہم کسی چشمہ پر اترتے ہیں تو بس ہم ہی صاف پانی پیتے ہیں۔ ہمارے سوا اور لوگ گدلا پانی پیتے ہیں۔ ہم نے روئے زمین کی خشکی کو اپنی قوم سے بھر دیا ہے اور سمندر ہماری کشتیوں سے پٹ گیا ہے۔ جب ہمارے کسی بچے کا دودھ چھڑایا جاتا ہے تو دنیا کے زبردست لوگ اس کے سامنے ادب سے زمین پر جھک جاتے ہیں۔ابر کی تعریفابر کے ٹکڑے رات کے ابتدائی حصے میں مستانہ چال چل رہے تھے۔ بادلوں کی قطاریں جنگلوں میں اس طرح گرجتی تھیں جیسے اونٹنیاں ایک دوسرے کو دیکھ کر چلاتی ہوں۔ بادلوں کے بلند کنارے ایسے معلوم ہوتے تھے کہ گویا وہ کوہ لبنان کی چوٹیاں ہیں۔ بارش کا زور ان ہواؤں کا مقابلہ کرتا تھا جو حضرت موت کی طرف سے چلتی تھیں۔ اس بارش نے بلند مقامات کے درخت عرفنج کو اور نمکین گھاسوں کی جڑوں اور مویشیوں کو یکساں طور سے تروتازہ کر دیا۔ ابر کے بوجھل ٹکڑے اس طرح آہستہ چلتے تھے جیسے رسی بندھے ہوے کمزور اونٹ نرم زمین پر چلتے ہوں۔ارقم سانپ کی تصویرتم اس کو سوکھی گھاس اور سوکھی لکڑیوں میں جو ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئی ہوں، چلتا ہوا دیکھو گے۔ اس کی کینچلی چھل گئی ہے۔ اس کی کمر پر یمن کی ایک پرانی منقش چادر پڑی ہوئی ہے۔ اس کی کھلی کھال اور گردن کی دونوں طرفوں میں خوب صورت نقش اور مختلف رنگ ہیں۔ اس کے گلے میں نیچے کی طرف شکن دار اور لٹکی ہوئی کھال ایسی معلوم ہوتی ہے کہ گویا اس کے گلے میں دہرا گندھا ہوا تسمہ پڑا ہوا ہے۔ (سانپ جس قدر زہریلا ہوگا، اس کے گلے کی نیچے کی کھال اسی قدر شکن دار اور لٹکی ہوئی ہوگی) جب گرمی کے موسم میں سانپوں کی کینچلی ڈالنے کا وقت آتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنی قدیم کھال کا استر پہنے رہتا ہے، جس کا پوست اتارا نہیں گیا (یعنی وہ شدت مزاج کے سبب کینچلی نہیں چھوڑتا۔)عورتوں کی مذمتوہ حسن وملاحت سے اس قدر دور ہے جس قدر زمین چاند سورج سے۔ اس کی ناک بجائے طول کے عرض میں بڑی ہے اور اس کی آنکھیں بجائے عرض کے طول میں بڑی ہیں۔ اس کی دونوں باچھوں کے ملنے کی جگہ گدی کا گڑھا ہے۔ اس بدسرشت عورت سے ملاقات کرنا ایسا ہے کہ گویا سانپ کفتار اور مگرمچھ نے ایک ساتھ نکل کر مجھے گھیر لیا ہے۔ اس کی باتیں ایسی تکلیف دہ ہیں جیسے دانت کا اکھاڑنا یا موچھ کا بال نوچنا۔ اس کے غمزے ایسے ہیں جیسے کوئی ناک پر گھونسا مارے۔ وہ زرد میلے دانتوں سے ہنستی ہے اور ایسی لمبی اور موٹی کچلیوں سے گویا وہ قبیلہ طے کی دو پہاڑیاں ہیں یا مصر کے مینار ہیں۔ اگر تو اس کی پست آواز سنے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی پرندے کے بچے کی آواز ہے، جس کو گھونسلے میں چگا دیا جا رہا ہے۔ اگر تو اس کے سر کو بغور دیکھے تو وہ گوپھن کا ایک پتھر ہے۔اس کی ہجو سے میرا مقصد یہ ہے کہ دنیا ایک عجیب الخلقت انسان کو دیکھے۔ اے ریچھ کی ہم شکل عورت! تجھے کیا ہو گیا کہ تو بجائے طول کے عرض میں بڑھتی چلی جاتی ہے؟ کیا خدا نے تیری درازی قد کو عرض میں صرف کر دیا ہے۔ اگر تیرے پیٹ پر سے کوئی انڈا پھیلایا جائے تو وہ ٹوٹ نہیں سکتا (کوتاہ قد ہونے اور جسم کے ہر حصے کے عریض ہونے کی طرف اشارہ ہے) تیرے جسم کا اگلا حصہ موٹا اور پچھلا حصہ پتلا ہے۔ کاش اس کے برخلاف ہوتا۔ وہ عورت مرد صورت ہے۔ اس کا سخت جسم سونٹے جیسا اور اس کا قد کوتاہ ہے۔ وہ چوری میں اس جنگلی کوے کو مات کرتی ہے جس کا رنگ چتکبرا ہو۔ اس کا مونھ سنگار کرنے کے وقت بندر کا سا اور اس کا رنگ لوے کے انڈوں کی طرح چتلا ہے۔ اس کا بدن خون نہ رہنے اور گوشت نہ ہونے کے سبب زرد آلو جیسا ہے۔ اس کی پنڈلیاں سوکھی اور کم گوشت ہیں، جیسے ٹڈی کی پنڈلیاں۔ اس کے چہرے پر مسے کیا ہیں، گویا کسی نے کشمش کے دانے بکھیر دیے ہیں۔ اس کے سر پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں جیسے ہوا میں بازی کرنے والے کبوتر کے پر۔مختلف اشعاراے ضرار کے فرزندو! تم ان ہرن جیسی خوبصورت اور گنگنانے والی نازنینوں کو پسند کرتے ہو جن کے ہاتھوں میں چمکتے کنگن ہیں اور جو ابن محرز گوئیے کے مکان میں نظر آتی ہیں یا ان مکانوں کو پسند کرتے ہو جن کی چھتیں نیزوں اور تلواروں کے ستونوں پر کھڑی ہیں؟ (یعنی عیش پرست بننا چاہتے ہو یا جنگجو بہادر ہونا چاہتے ہو۔) میں ہر قوم کے لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ انہوں نے اپنے اونٹوں کی رسی چھوٹی کر رکھی ہے حالانکہ ہم نے اپنے اونٹوں کے پاؤں سے رسی نکال دی ہے کہ وہ جہاں چاہیں چریں، انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر سلمی پہاڑ پر ہماری مصیبت نازل ہوتی تو اس کے ٹکڑے اڑ جاتے۔ مگر ہماری قوم بنی عامر اس کو صبر کے ساتھ برداشت کر رہی ہے۔ سفیدی اور سیاہی میں اس کی آنکھیں پنیر اور خرما سے بنی ہوئی ہیں اور اس کا باقی بدن گویا ثرید ہے (یعنی معشوقہ سراپا غذا ہے) بعض نازک اندام عورتیں ہیں جن کی آنکھیں اس حلوے کے مانند ہیں جس میں گوشت پڑا ہو یعنی سرخ و سیاہ ہیں اور ان کے دانت سفیدی میں ستو سے مشابہ ہیں۔میں رات کو ایسے وقت چلتا ہوں کہ ستارے دہکتے ہوئے انگاروں کے مانند نمایاں ہوتے ہیں۔ میرے گھوڑے کی پیشانی اور ایال کے بال اس کی کود پھاند کے سبب کبھی ادھر ہوتے ہیں کبھی ادھر۔ وہ نشاط میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی شہباز اپنے پروں سے بارش کے قطرے جھاڑ رہا ہے۔رات کو ایسی سردی تھی کہ کتا ایک دفعہ سے زیادہ نہ بھونکتا تھا اور اگر دوسری دفعہ بھونکنا چاہتا تو اسے اپنی ناک پر اپنی دم کو لپیٹنا پڑتا تھا۔زمانہ جو مصیبتوں کے تیر ہم پر چلاتا ہے تو گویا وہ ایک ایسے بلند اور سیاہ پہاڑ پر تیر مارتا ہے جس کی بلندی ابر کو چیر کر نکل گئی ہے (یعنی وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔)ہندہ کا حال سننے کے بعد جو شخص عورتوں سے کسی بات میں دھوکا کھائے تو جان لو کہ وہ بڑا ہی جاہل اور فریب زدہ ہے۔ عورتوں کی آنکھیں اور ان کی باتیں شیریں ہوتی ہیں مگر جو باتیں ان کے دلوں میں چھپی ہیں وہ سخت کڑوی ہیں۔ کوئی کیوں نہ ہو اور ظاہر میں وہ محبت کی علامتیں کیسی ہی کیوں نہ ظاہر کرے، تم یقین کرلینا کہ اس کی محبت پائدار نہیں ہو سکتی۔ جب خبر دینے والوں نے کلیب کے مرنے کی خبر دی تو میں نے کہا کہ زمین ہل گئی ہے اور پہاڑوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی ہے۔ کاش آسمان ان لوگوں پر گر پڑے جو اس کے نیچے آباد ہیں۔ اور کاش یہ زمین پھٹ جائے اور اہل زمین کے ٹکڑے اڑجائیں۔اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے، مذکورہ بالا نمونے کافی نہیں ہیں، تاہم اس مقولے میں جو بات ظاہر کی گئی ہے، اس کی جھلکیاں جابجا ان نمونوں میں بھی موجود ہیں۔ جو شخص عرب کی تمام شاعری کا مطالعہ کرے، وہ ان نتائج پر ضرور پہنچےگا جو ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں۔جغرافی اشارےعرب کی شاعری میں قدم قدم پر بہت سے مقامات کے نام آتے ہیں۔ مثلاً: یثرب، دمشق، بصرہ، قنسرین، مکہ، بعلبک، اندرین (شام) نجد، یمامہ، صنعا، طائف، حضرموت وغیرہ۔ سینکڑوں دیہات اور چھوٹی بستیاں ہیں جن کے نام شعرائے عرب کے کلام میں نظر ْآتے ہیں۔ مثلاً حزن، لوی، دکاوک، حومل، توضح، جدیس، عسجل، مصامہ، سلسلین، مقراۃ وغیرہ۔ بہت سے پہاڑوں کے نام بھی ان کے اشعاروں میں آتے ہیں۔ مثلاً اجاء، سلمیٰ۔ کویکب، لہیم، ستار، حایل، مجیمر، یذبل، بتیر، قطن، ثرم وغیرہ۔ عرب میں دریا نہیں ہیں مگر برساتی نالے اور چشمے بہت سے ہیں۔ ان کے نام بھی عرب کی شاعری میں جگہ جگہ آتے ہیں۔ مثلاً سجل، صفوان، بہیما، دارجلجل وغیرہ۔ بہت سی وادیوں اور جنگلوں کے نام بھی ہیں جو عربی اشعار میں ملتے ہیں۔ مثلاً غبیط کا جنگل، غمیر کاجنگل، وادی جواء، وادی بطحا وغیرہ۔بہت سے رمنوں اور چراگاہوں کے نام بھی لیے گئے ہیں۔ مثلاً: وقبیٰ، مرج، راہط، حضرا وغیرہ۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جن کی خاص شہرت تھی اور کوئی نہ کوئی بات ان کی طرف منسوب ہوتی تھی۔ مثلاً تمبالہ یمن کا ایک زرخیز شہر ہے۔ اس کی زرخیزی و شادابی مشہور تھی۔ طبی ایک گاؤں کا نام تھا، جہاں خاص قسم کے کیڑے سفید رنگ اور لال سر کے نہایت نرم و نازک ہوتے تھے۔ ان کیڑوں کو اسروع کہتے تھے۔ اندرین ملک شام کا ایک قصبہ تھا، جہاں کی شراب شہرت رکھتی تھی۔ عرب کے خاص خاص جنگل تھے، جہاں شیر رہتے تھے۔ ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ خضیہ، شریٰ، خفاف، عفرین۔ خیبر کا قلعہ مشہور تھا۔ عرب کی شاعری میں اس کا ذکر اس سبب سے بھی آیا ہے کہ وہاں ایک قسم کا مہلک بخار پھیلا۔عکاظ ایک مقام کا نام ہے۔ جو نخلا اور طائف کے درمیان تھا۔ یکم ذی قعدہ سے بیس دن تک یہاں ایک بازار لگتا تھا۔ عرب کے شعرا ہر سال یہاں آتے اور فخر کا اظہار کرتے تھے۔ ضریہ بصریہ کے قریب ایک گاؤں تھا، جہاں شکاری پرندے کثرت سے تھے۔ جواء ایک موضع ہے، جہاں کی وادی میں زردرنگ کی جنگلی گائیں چرا کرتی تھیں اور وہاں چکا کی نام ایک پرندہ بھی کثرت سے پایا جاتا تھا۔ خط یمامہ کا ایک مشہور مقام تھا، جہاں عمدہ نیزے فروخت ہوتے تھے اور وہ خطی نیزے کہلاتے تھے۔ بصریٰ ملک شام کا ایک شہر تھا، جہاں تلوار خالص فولاد کی بنتی تھی اورچوڑی ہوتی تھی۔ ہجریمن کا ایک شہر ہے، جہاں کا خرما مشہور تھا۔ وجدہ ایک ایسا مقام تھا جس کا جنگل وحشی نیل گایوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں کے سفید ہرن بھی مشہور تھے۔ وادی سیدیا حماریمن کی ایک وادی ہے۔ یہ پہلے نہایت سرسبز تھی مگر ایک بار بجلی نے اس کو جلاکر خاک کر دیا۔ اس وقت سے ہر ویران مقام کو وادی حمار سے تشبیہ دینے لگے۔عدولی بحرین کا ایک قریہ تھا، جہاں کشتیاں بنائی جاتی تھیں۔ تنوح ایک گاؤں تھا۔ یہاں کی نیل گائیں بھی مشہور تھیں۔ دومتہ الجندل کا مکھن مشہور تھا۔ ان کے علاوہ یمن کی ریشمی چادریں اور دودھاری تلواریں اور شام کا کاغذ اور اعلیٰ ریشمی کپڑے شہرت رکھتے تھے۔ مشرقی تلواریں بھی شام سے آتی تھیں۔ ریگستانوں اور سرایوں کا ذکر عرب کی شاعری میں بار بار آتا ہے۔ موسموں کے ذکر میں سخت گرمی اور تمتماتی دھوپ، کبھی کبھی بارش کی راتوں کا سرد ہونا اور موسم سرما میں قحط کے آثار نمایاں ہونا عرب کے اشعار سے بار بار معلوم ہوتا ہے۔ شمال کی ہوا کو شمال، جنوب کی ہوا کو جنوب کہتے تھے۔ مشرق کی ہوا صبا اور مغرب کی ہوا دبور کہلاتی تھی۔ نکیا، ایک ہوا چلتی تھی جس سے قحط کی علامت محسوس ہوتی تھی۔ بیانوں کے سفر میں غریب ستاروں کو دیکھ کر چلتے تھے۔ بنات النعش شام کی طرف کے ستارے اور سہیل یمن کی طرف کا ستارہ کہلاتا تھا۔ فرقدین اور کہکشاں کا ذکر بھی بار بار آیا ہے۔ قمری منزلوں سے بارش کے ہونے نہ ہونے کا حساب لگایا کرتے تھے۔ گرمی کا بیان کرتے تھے تو کہتے تھے کہ جب ثریا صبح کو طلوع کرتا ہے اور جب جو زا آسمان پر نمایاں ہوتا ہے۔ سفری ستارے کا طلوع سخت گرمی کی علامت خیال کیا جاتا تھا۔ شامی ہوا کا چلنا جو ٹھنڈی ہوتی تھی قحط کی نشانی تھی۔ مردوں کو دعا دیتے تھے کہ خدا کرے تیری قبر کو ابر قبلہ تر کرے۔ یہ اس لیے کہ عرب میں بھی قبلہ سے جو بادل اٹھتا ہے، وہ بہت برسنے والا سمجھا جاتا تھا۔ بعد مغرب ثریا کا طلوع کرنا بھی سردی کی علامت تھی اور سردی قحط کی۔حیوانات میں عرب کے اونٹ اور گھوڑے خاص کر مشہور ہیں۔ ان کی سینکڑوں نسلیں تھیں۔ ان دو جانوروں کا ذکر عرب کی شاعری میں کثرت سے آیا ہے۔ ان کے علاوہ جن جانوروں کے نام لیے گئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں: کتا جس سے پہرے اور شکار کا کام لیا جاتا تھا۔ کبوتر، فاختہ، قمری، ان کا ذکر عاشقانہ شاعری میں بہت آتاہے۔ شیر، بھیڑیا، گورخر، لومڑی، نیل گائے، شترمرغ، بکری، چیتا، گرگٹ، کفتار، عقاب، بازاتو، گد، شکرا، لوا، ہد ہد، شہد کی مکھی، ٹڈی، چمگادڑ، مینڈک، مچھلی، چیونٹیاں، چوہا، بلی وغیرہ۔ ایک چھوٹے سے جانور کا ذکر بھی آتا ہے جس کو جد جد کہتے تھے اور جو چمڑا کاٹ کر کھاتا تھا۔ نباتات میں سب سے زیادہ کھجور کا ذکر آتا ہے۔ اس کے علاوہ جن جنگلی درختوں کا نام لیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے،ببول، جھاؤ پیلو، تھور، جانڈ آکھی، ارنڈ، کھمبی، اندراین وغیرہ۔ کنبھل، بشام، طلح، سیال، عرفنج، اصحل خاص عرب کے درخت ہیں۔ شیزی ایک آبنوس جیسے درخت کی لکڑی تھی، جس کے بڑے بڑے پیالے بنائے جاتے تھے۔ مرار ایک نہایت کڑوی گھاس کانام تھا۔ بنعہ ایک درخت تھا، جس کی لکڑی کمانوں کے لیے موزوں تھی۔ حرم بھی ایک ایسے ہی درخت کا نام تھا۔ درخت تنوم پر سانپ لپٹے رہتے تھے، پھولوں میں گلاب، سنبل، اعرار خیری، بابونہ، چمبیلی اور بنفشہ کا ذکر اکثر آیا ہے۔ اند اور بان دو نازک درخت ہیں، جن کا نام عاشقانہ شاعری میں بار بار کیا جاتا ہے۔ ورس ایک گھانس کا نام ہے جو رنگنے کے کام میں آتی تھی۔ مہندی کا بھی نام لیا گیا ہے۔ کالی مرچیں شراب میں ڈالی جاتی تھیں تاکہ نشہ تیز ہو۔ میووں میں انگور اور انار کا بھی ذکر آیا ہے۔تاریخی حوالےایام جاہلیت میں مختلف قبائل جو عرب میں آباد تھے، ان میں ذرا ذرا سی بات پر لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں اور بعض لڑائیاں طول پکڑ جاتی تھیں۔ شاعری نے ان قبائل کے نام کو اب تک زندہ رکھا ہے۔ جابجا ان قبائل کے نام عربی اشعار میں لیے گئے ہیں۔ مثلاً: آل ماذن، آل زیبان، آل رباب، آل ضرار، آل مطرف، آل حیہ بنی مطر، بنی اسد، بنی کلب، بنی نمیر، بنی طریف، بنی زہیر ثعلب، بنی شیبان وغیرہ۔ اہم معرکے جو پیش آئے ہیں ان کے نام عرب نے رکھ لیے ہیں، یہ نام بھی جابجا مذکور ہیں۔ مثلاً: یوم ہریر، یوم کلاب، یوم بردان، یوم خزاز، یوم بہیماوغیرہ۔ گھوڑے ان لڑائیوں میں خوب کام دیتے تھے۔ عربوں کو گھوڑوں سے خاص محبت تھی اور وہ ان کو اپنی اولاد کے برابر عزیز رکھتے تھے، وہ اعلیٰ اور شریف نسل کے گھوڑوں اور گھوڑیوں کے نام رکھتے تھے۔ یہ نام بھی عرب کی شاعری میں مذکور ہیں۔ مثلاً گھوڑوں کے نام، شمر، ورد، صموت، جون، عرقوب۔ عصا، ادہم، سبط، اغبراغر، خطار وغیرہ۔گھوڑیوں کے نام، اسکاب، وہمار، شولہ، ثقراء، خصاف، غبرا۔ نعامہ، حنفا وغیرہ۔ تلواروں اورزرہوں کے نام پر بھی عرب فخر کرتے تھے، اور ان کے بھی خاص خاص نام تھے۔ مثلاً تلواروں کے نام: مغلوب۔ اصرم۔ ذدی الحیات وغیرہ۔ زرہوں کے نام، ذات الحواشی۔ ذاتالسلاسل وغیرہ۔ عربوں کی رزم آرائیاں، غارت گریاں، فتح وشکست صلح و معاہدے عہد شکنیاں، خونبہا اور انتقام وغیرہ سب کچھ ان کے اشعار سے معلوم ہو سکتا ہے۔ ابن ایثر اور طبری وغیرہ مورخوں نے عرب کی شاعری ہی سے مدد لے کر اس زمانہ کی تاریخ مرتب کی ہے۔ یہ شاعری ہی کی برکت ہے کہ آج تک اس زمانہ کے واقعات زند ہیں۔اخلاق و تمدنعرب کے اخلاق و معاشرت و تمدن کا حال معلوم کرنا چاہو تو ان کی شاعری کا مطالعہ کرو۔ وہ اس سارے دفتر کو تمہاری آنکھوں کے سامنے کھول کر رکھ دےگی۔ عرب جس طرح جنگجو اور بہادر ہیں، اسی طرح عاشق مزاج بھی ہیں۔ ان کی عشق کی داستانیں بھی ان کے اشعار میں قلم بند ہیں۔ جن جن حسین عورتوں کے ساتھ عربوں نے عشق کیا ہے، ان کے نام انہوں نے بے تکلف اپنے اشعار میں درج کر دیے ہیں۔ مثلاً ملیں، عبلہ، امامہ، طریفہ، عنیزہ، زینب، ام رباب نواز، سحابہ، لیلیٰ، سلمیٰ، ذلفاء، ریا، خولہ، سعاد، تماضر، ام عامر، سیمہ، رونیہ، ام احسان وغیرہ۔اگر عاشق ایک قبیلے کا اور معشوقہ دوسرے قبیلے کی ہوتی اور دونوں قبیلوں میں رسم و راہ نہ ہوتی تھی تو عاشق و معشوق چھپ کر راتوں کو ملتے تھے اور عاشق اپنی معشوقاؤں کو بھگا لے جانے کی کوشش کرتے تھے اور اگر ضرورت ہوتی تو اس مطلب کے لیے لڑنے اور خون بہانے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ خانہ بدوش قبائل جہاں کہیں پانی کے چشمے دیکھتے، چند روز کے لیے ٹھیر جاتے تھے۔ پھر گھاس اور پانی نہ ہونے کی صورت میں سفر کرتے تھے۔ ایسے ہی موقعوں پر نوجوان مردوں اور نوجوان عورتوں کی آنکھیں لڑ جایا کرتی تھیں۔ نقل مکانی کے بعد جب کوئی عاشق ایسے مقام پر پہنچتا تھا جہاں پہلے اس کی معشوقہ ٹھیری تھی، تو وہ اس کے قیام کے نشانوں کو دیکھ کر خطاب کرتا تھا اور اس کے فراق میں دردناک اشعار کہتا تھا اور شعرائے عرب کے قصائد کی تمہید اسی خطاب اور نوحہ سے ہوئی ہے۔رہزنی اور غارت گری عربوں کی فطرت میں داخل تھی۔ اس کو عیب نہیں سمجھتے تھے بلکہ فخر کرتے تھے۔ اسی پر ان کی معاش کا مدار تھا۔ موقع پاکر ایک قبیلہ کے آدمی دوسرے قبیلے پر چڑھ دوڑتے تھے اور ان کے مویشی لوٹ لاتے تھے۔ لوٹ کے لیے دھاوا اکثر صبح کے وقت ہوتا تھا، جب کہ لوگ غافل سوئے ہوئے ہوں۔ غارت گری کے دھاووں میں تیز رفتار اونٹوں اور اونٹیوں سے کام لیتے تھے۔ اونٹوں کی خاص خاص نسلیں مشہور تھیں۔ ایک نسل کو مہاری کہتے تھے۔ یہ نسل مہرہ بن حیدان کی طرف منسوب تھی جو یمن کا باشندہ تھا۔ شریف نسل کے اونٹوں کے ذرا ذرا سے کان کاٹ دیتے تھے ان کو مزنم کہتے تھے۔ اونٹیاں جن کی آنکھیں سیاہ اور بال سرخ ہوں نہایت قیمتی خیال کی جاتی تھیں۔گھوڑے دوڑانے اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا شوق بھی عربوں کو تھا۔ گھوڑ دوڑ کے گھوڑے خاص اہتمام سے پالے جاتے تھے۔ شریف اور نسل دار گھوڑوں پر نشان لگائے جاتے تھے تاکہ وہ دور سے پہنچانے جائیں۔ گھوڑ دوڑ کی ہار جیت میں منجملہ دس گھوڑوں کے ساتھ گھوڑوں کو حصہ دیا جاتا تھا۔ تین گھوڑے محروم رہتے تھے، دوڑ میں جو گھوڑا سب سے اول آتا تھا، اس کو بجلی، دوسرے کو مصلی، تیسرے کو سلی، چوتھے کو تالی، پانچویں کو مرتاح، چھٹے کو عاطف اور ساتویں کو مول کہتے تھے۔ باقی تین محروم گھوڑے خصی، یطم اور سکیت کہلاتے تھے۔جو اطرح طرح سے کھیلا جاتا تھا۔ جوے کا مشہور طریقہ تیروں سے کھیلنے کا تھا۔ اونٹ کے دس حصے کیے جاتے تھے اور جو تیر آتے ان کا حصہ معینہ اونٹ کے گوشت میں سے دیا جاتا۔ جوے کے تیروں کے نام حسب ذیل تھے۔ فذ، توام، رقیب، لس، نافس، میل، منعلق۔ ان سات تیروں میں سے پہلے تیر کا ایک ایک حصہ تھا، دوسرے کے دو، تیسرے کے تین۔ اس حساب سے رقیب کے تین اور معلی کے سات حصے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص رقیب اور معلی نام کے تیر جیت لیتا تھا، اونٹ کے دسوں حصے اسی کو ملتے تھے۔ تین تیر اور تھے جن کے نام یہ تھے۔ سفیح، فبیج، وغذ۔ ان تیروں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ اگر قحط کا زمانہ ہوتا تو جوا کھیلنے میں زیادہ فخر تھا۔ اس زمانے میں اگر کوئی مہمان آ جاتا تو باہم جوا کھیلتے تھے۔ جو شخص جیت جاتا وہ جیت کی آمدنی سے مہمان نوازی کرتا تھا۔شراب پینے کا رواج بھی عربوں میں تھا۔ مختلف قسم کی شرابوں کے مختلف نام تھے۔ شراب کی اعلیٰ قسمیں اکثر ملک شام سے آتی تھیں۔ اس کو عام طور پر مشکیزوں میں رکھتے تھے۔ اکثر صبح یا شام کے وقت پی جاتی تھی۔ صبح کی شراب کو صبوح اور شام کی شراب کو غبوق کہتے تھے۔ صبح کے وقت اکثر چار جام پیے جاتے تھے۔ شراب نوشی کو عیب نہیں مانتے تھے بلکہ اس پر فخر کرتے تھے۔ مے فروش کی دوکان پر ایک جھنڈی لہرایا کرتی تھی جس کو دیکھ کر شراب پینے والے لوگ وہاں جمع ہو جاتے تھے۔ سردی میں اکثر شراب میں گرم پانی ملا کر پیتے تھے۔ نشہ تیز کرنے کے لیے کالی مرچیں ملا دیتے تھے۔ جو لوگ خودکشی کرنا چاہتے تھے وہ خالص شراب پیتے تھے۔ چنانچہ زہیر، عمروبن کلثوم جو نامور شاعر تھے اور ابو عامر ملا عب الانہ نے اسی طرح خوکشی کی تھی۔ جب دشمن سے انتقام لینے کی قسم کھاتے تھے تو قمار بازی کی طرح شراب نوشی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے۔ انتقام لینے کے بعد البتہ جی کھول کر جوا کھیلتے اور شراب پیتے تھے۔مہمان نوازی تو گویا عربوں کے خمیر میں تھی۔ اگر اتفاقاً کوئی شخص مہمان نواز نہ ہوتا تو اس کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ رات کے وقت میدانوں میں یا ٹیلوں پر آگ روشن کی جاتی تھی تاکہ بھولا بھٹکا مسافر وہاں آکر پناہ لے۔ مہمانوں کے لیے اونٹ ذبح کیے جاتے تھے۔ شیری کے بڑے بڑے بادیوں میں لوہے کے بڑے بڑے چمچوں سے گوشت نکالا جاتا تھا اور مہمانوں کے آگے رکھا جاتا تھا۔ اعلیٰ درجہ کی مہمان نوازی یہ تھی کہ ایسی اونٹیاں مہمانوں کے لیے ذبح کی جائیں جو ہمیشہ مادہ بچے جنتی ہوں کیونکہ ایسی اونٹیاں قیمتی ہوتی تھیں۔ گوشت کھانے کے وقت علی العموم چھریوں سے کاٹا جاتا تھا۔ مہمان نوازوں کی دیگوں کا سیاہ رہنا تعریف کی بات تھی، کیونکہ ہمیشہ کھانا پکنے کی علامت تھی۔ شاعر جو اپنی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہیں، اپنی قیام گاہ پر آگ جلانے، دیگوں کے سیاہ ہونے، ان میں گوشت کے جوش کھانے، آگ کے شعلے اور دھویں کے بلند ہونے، دیگوں میں پیالے یا چمچے ڈال کر شوربا اور گوشت نکالنے اور اس وقت کنیزوں کی پھرتی اور سرگرمی کی تعریف مزے لے لے کر کرتے ہیں۔ہجو کے موقع پر کہتے تھے کہ فلاں شخص کی اونٹنیاں موٹی تازی ہیں یعنی وہ مہمانوں کی خاطر ان کو ذبح نہیں کرتا۔ عورتیں البتہ اپنے شوہروں کو حد سے زیادہ مہمان نوازی پر ملامت کیا کرتی تھیں مگر اس کی پروا نہیں کی جاتی تھی۔ مہمان نوازی کے علاوہ قیدیوں کو چھڑانا، تاوان و دیت ادا کرنا، سائلوں کو دینا اور یتیموں کی پرورش کرنا بھی عربوں کے نزدیک نیکی اور بھلائی کے کاموں میں داخل تھا۔ عورتوں کا درجہ عربوں کے نزدیک نہایت ادنیٰ تھا۔ وہ گھروں میں باندیوں سے زیادہ قیمت نہ رکھتی تھیں۔ ان کی بات کی مطلق پروا نہیں کی جاتی تھی۔ وہ لوٹ کے مال کی طرح لوگوں کے ہاتھ آ سکتی اور غیروں کے ہاں باندیاں بنائی جا سکتی تھیں۔ عربوں کا قول تھا کہ عورتوں کی موت ان کی زندگی سے بہتر ہے۔ چنانچہ اس خیال کو بار بار عرب شعرا نے بیان کیا ہے۔ لڑکیاں ذرا بالغ ہوتیں تو اکثر زندہ دفن کردی جاتی تھیں۔ اس رسم کو اسلام نے آکر فنا کیا اور عورتوں کے درجہ کو بلند کیا، اس زمانے کی عورتیں، طرح طرح کے توہمات میں مبتلا تھیں، اس کا ذکر آگے آتا ہے۔آسودہ حال عورتیں ریشم کا سفید یا زرتار لباس پہنتی تھیں۔ وہ اکثر آرام طلب ہوتی تھیں اور چاشت کے وقت تک سوتی رہتی تھیں۔ وہ رات کے جامۂ خواب پر ٹپکا نہیں باندھتی تھیں۔ یہ عادت خادمہ عورتوں کی تھی۔ کرتی اور انگیا کا بھی رواج تھا مگر کرتی جوان عورتیں پہنتی تھیں اور انگیا وہ لڑکیاں جو قریب بلوغ ہوں۔ بدن کے حصوں کو سوئی سے گودنے اور ان میں سرمہ یا نیل بھرنے کا بھی رواج تھا۔ دولت مند اور آسودہ حال گھرانوں کی عورتیں جو ریشم کی چادریں استعمال کرتی تھیں، ان پر کجاوہ کی تصویر اور دوسری قسم کی تصویریں اور گل بوٹے بنے ہوتے تھے۔ زیوروں میں خلخال، بازو بند، کنگن اور ہار کا رواج تھا۔ اکثر عورتیں سرمہ سے دانتوں اور مسوڑھوں کو سیاہ کرتی تھیں اور یہ بات ان کے نزدیک زیبائش و آرائش میں داخل تھی۔عرب کوتاہ قد اور دبلی پتلی عورتوں کو پسند نہ کرتے تھے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا موٹا تازہ ہونا اور دراز قد ہونا ممدوح تھا۔ مردوں کی پوشاک عام طور سے تہ بند اور کرتہ اور دھاری دار چادر تھی۔ لڑائی کے وقت چرمی کرتہ پہنتے تھے اور اس پر زرہ پہنا کرتے تھے اور اس کو داؤدی زرہ کہتے تھے۔ سند ایک زرہ ساز کا نام تھا۔ اس کی بنائی ہوئی زرہیں مشہور تھیں۔ سر پر خود لگاتے تھے۔ تلواروں اور برچھیوں سے لڑتے تھے۔ یمنی اور ہندی تلواریں اور ر دینی نیزے مشہور تھے۔ روس ایک حیرہ سار کا نام تھا۔ دور کی لڑائی میں تیروں کا استعمال کرتے تھے۔ اگر تیر نہ رہتے تو کمانوں کو لاٹھیاں بنا کر لڑتے تھے۔ لڑائی کے بردے فروخت کردیے جاتے تھے یا ان کے ناک کان کاٹ لیے جاتے تھے۔ عورتیں باندیاں بنائی جاتی تھیں۔ ان باندیوں سے گھر کا تمام کام کاج لیا جاتا تھا۔ وہ جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتی تھیں۔ پانی بھرتی تھیں، مہمانوں کی خدمت کرنا بھی ان کے فرائض میں داخل تھا۔ ان کا لباس بمقابلہ گھر کی عورتوں کے ادنیٰ درجہ کا تھا۔ باندیوں کو ناچنا گانا بھی سکھایا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک گویا ابن محرز باندیوں کو گانا سکھانے کا کام انجام دیتا تھا۔باجوں میں رباب، دف، عود اور بربط کا رواج تھا۔ لڑائی میں جو باندیاں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں وہ رواسی کہلاتی تھیں۔ یہ کام عرب بذات خود عیب سمجھ کر نہیں کرتے تھے۔ فوج کے سرداروں کو لڑائی فتح ہونے کے بعد مال غنیمت کا چوتھائی حصہ ملتا تھا۔ اپنے گروہ اور دشمن کے گروہ میں جنگ کے وقت تمیز کرنے کے لیے کوئی علامت مقرر کر لیتے تھے۔ مثلاً سرمنڈا لیتے۔ عربوں کے نزدیک بستر پر گل سڑ کر مرنا سخت عیب تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ چلتے ہاتھ پاؤں لڑ کر مارے جائیں۔ ان کی عورتیں اپنے شوہروں کی جواں مردی پر فخر کرتی تھیں۔ اسی لیے شاعر لڑائی کا ذکر عورتوں سے مخاطب ہوکر کرتے ہیں۔ وہ نسب پر فخر کرتے تھے۔ دوغلوں کو نامرد اور بہادری ان کے نزدیک شریفوں کی علامت تھی۔ لڑائی میں پیٹھ پھیرنا ان کے نزدیک بہت معیوب تھا۔ ان کا قول تھا کہ ہمارے زخموں کا خون ہماری ایڑیوں پر نہیں گرتا بلکہ قدموں پر گرتا ہے۔لڑائی کے تازہ مقتولوں کا ماتم عورتیں ننگے سر ہوکر صبح شام کیا کرتی تھیں۔ مردوں کو کفن دے کر دفن کرنے کا رواج تھا۔ قبر اکثر چار گز لمبی اور پانچ بالشت چوڑی ہوتی تھی۔ کوشش کی جاتی تھی کہ اپنے مقتولوں کا انتقام لیا جائے یا دیت لی جائے مگر دوسری صورت اکثر کمزور اور نامردی کی علامت خیال کی جاتی تھی۔ دستور تھاکہ صلح کی گفتگو کے وقت ہر ایک فریق دوسرے کی طرف نیزہ کی بوڑی رکھ کر بیٹھتا تھا۔ اگر صلح منقطع ہو جاتی تو نیزے کی بھال ایک دوسرے کی طرف کر دی جاتی تھی۔ قوم کے سردار ایسی محفلوں میں کوٹ باندھ کر بیٹھتے تھے اور آگے تلوار رکھتے تھے۔ معاہدوں کی پابندی کی جاتی تھی مگر کبھی کبھی عہد شکنی پر مائل ہوجاتے تھے۔ اس صورت میں عہد شکنی کرنے والا شخص یا فریق تمام عرب میں بدنام ہو جاتا تھا۔ اس کے بدنام کرنے کے لیے اونچے مقامات پر آگ جلائی جاتی تھی۔ اگر کوئی شخص پناہ میں آتا اور قتل سے بچایا جاتا تو جو آدمی پناہ دیتا تھا، وہ پناہ مانگنے والے پر چادر ڈال دیتا تھا۔عرب اکثر خیموں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ مکان بناکر بہت کم رہتے تھے۔ شہروں اور قصبوں میں مکان بھی تھے تو وہ معمولی قسم کے تھے۔ اس زندگی کے علاوہ عربوں کے اخلاق و تمدن کے متعلق متفرق باتیں عرب کی شاعری سے معلوم ہوتی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں۔ زمانہ امن کا مشغلہ اکثر شکار ہوتا تھا۔ نیل گایوں اور ہرنوں کا شکار نہایت پھرتی اور مستعدی کے ساتھ کیا جاتا۔ شکاری کتوں سے بھی شکار میں کام لیا جاتا تھا۔ اعلیٰ نسل کے شکاری کتوں کی بڑی قدر کی جاتی تھی، ان کے کان لٹکے ہوئے اور کمر پتلی ہوتی تھی۔ ان میں سے بعض کے نام بھی عرب کے اشعار میں مذکور ہیں۔ مثلاً کساب اور سخام دو اعلیٰ نسل کے شکاری کتوں کے نام تھے۔ شکار میں تیر اور نیزہ کا استعمال کرتے تھے اور شکار کے وقت پھرتی کی غرض سے چادر سر سے اتار کر کمر سے باندھ لیتے تھے۔ زبردست لوگ اپنے اونٹوں کو داغ دیا کرتے تھے تاکہ لوگ پہچان جائیں کہ یہ فلاں سردار کے ہیں اور ان کو چشموں پر پہلے پانی پینے دیں۔اس کے علاوہ طاقت ور لوگ اپنی ہیکڑی جتانے کے لیے طرح طرح کی تجویزیں کراتے رہتے تھے۔ مثلاً کلیب نے ایک کتا پالا تھا۔ لوگوں کا فرض تھا کہ اس کتے کے دائیں بائیں سے گزریں۔ اس کے پاس نہ آئیں۔ بنی ابیعہ داڑھیاں منڈواتے اور مونچھیں کترواتے تھے۔ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو گویا ان سے لڑائی مول لیتا تھا۔ بنی عبدالقیس کا دستور تھاکہ اگر کوئی گالی دے تو یہ اس کے طمانچہ مارتے تھے۔ اگر وہ بھی طمانچہ مارے تو قتل کیا جاتا تھا۔ بنی بکر ایک پرندہ کو وسط سڑک میں باندھ دیتے تھے۔ ضرور تھا کہ لوگ اس رستے سے نہ جائیں۔ اشد ضرورت کی حالت میں اس کے دائیں بائیں سے گزریں۔ عرب اپنے بچوں کو سونگھتے تھے اور اسی لیے ان کو ریحان کہتے تھے۔ ان کے گلوں میں اکثر کوڑیوں کا ہار ڈالتے تھے۔ بچے کپڑے کو کوڑے بناکر ایک دوسرے کو مارتے اور کھیلتے تھے۔ بچوں میں پھر کیوں سے کھیلنے کا رواج تھا۔بچوں کے ایک خاص کھیل کا نام اشعار میں آیا ہے، جس کو خیال کہتے تھے۔ مٹی یا ریت کو دوحصوں میں تقسیم کرکے کسی حصے میں کوئی چیز دبا دیتے اور پوچھتے کہ وہ چیز کس حصے میں ہے۔ اسی پر ہار جیت کا مدار تھا۔ رات کا سفر اور دوپہر کے وقت کا سفر عرب کے نزدیک پسندیدہ تھا کیونکہ اس میں جفاکشی اور جرأت پائی جاتی۔ سفر کے وقت ان کی عادت تھی کہ تجربہ کار اونٹ کو آگے بڑھاتے تھے اور وہ زمین کو سونگھ کر معلوم کر لیتا تھا کہ پانی یہاں سے کس قدر دور ہے اور منزل مقصود کتنے فاصلہ پر ہے۔ اگر دونوں مقام دور ہوتے تو وہ جلد جلد چلنے لگتا تھا۔ سوف عربی میں سونگھنے کو کہتے ہیں اور اسی سے مسافت کا لفظ بنایا گیا ہے۔سرسبز مقامات مثلاً یمامہ وغیرہ میں پانی سے زمین کو سینچنے کے لیے رہٹ بھی جاری تھے، جن کو عرب منجنوں کہتے تھے۔ اس کے علاوہ عرب کے اشعار سے پن چکی کے رواج کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لکھنا پڑھنا عرب کے لوگ بہت کم جانتے تھے۔ عہد رسالت میں بھی اس فن کے جاننے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں اسی سبب سے عرب کی قوم امی بتائی گئی ہے۔ ایام جاہلیت کے شعرا فن کتابت کو روم و فارس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ہرن کی پتلی کھال پر لکھنے کا رواج تھا، جس کو عربی زبان میں رق رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ آیا ہے۔عقائد و توہماتاسلام سے پہلے حجاز اور وسط عرب میں بت پرستی ہوتی تھی۔ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت بتائے جاتے ہیں۔ ان میں سے مشہور بتوں کے نام حسب ذیل ہیں۔ لات، منات، عزیاساف، نائلہ، دوار۔ دان میں سے دوار کا ذکر اکثر آتا ہے اور کہیں کہیں لات اور عزی کا بھی۔ دوار کے گرد نوجوان عورتیں سروں پر چادریں ڈالے طواف کرتی تھیں۔ عیسائی، یہودی اور مجوس بھی عرب میں جابجا تھے۔ حضرت ابراہیم کا دین توحید ماننے والے تھے۔ ایام جاہلیت میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو حشرونشر کے قائل تھے اور اس بات پر عقیدہ رکھتے تھے کہ مرنے کے بعد ایک دن آئےگا جب کہ نیکیوں اور بدیوں کی جزا اور سزا دی جائےگی۔عوام عرب طرح طرح کے توہمات میں گرفتار تھے۔ عورتیں مختلف رنگ کے ڈورے گلے میں ڈالتی تھیں تاکہ نظر بد سے بچیں۔ ان دوڑوں کو بریم کہتے تھے۔ عرب مراد پوری ہونے کے لیے طرح طرح کی منتیں مانتے تھے۔ ان منتوں کے پورا کرنے میں کبھی کبھی لوگ چالاکی بھی کرتے تھے۔ مثلاً بعض لوگ منت مانتے تھے کہ اگر ان کا بکریوں کا گلہ سو تک پہنچ جائےگا تو بتوں کے نام پر بکری ذبح کی جائےگی مگر منت پوری ہونے پر بکری کی جگہ ہرن کا بچہ ذبح کیا جاتا تھا۔ دستور تھا کہ کسی شخص کے مرنے پر اسی کی اونٹنی اس کی قبر پر باندھ دی جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے تھے اور بھوکا پیاسا رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ مر جاتی تھی۔ خیال تھاکہ قیامت کے دن مرنے والااس اونٹنی پر سوار ہوگا۔ ایسی اونٹنی کو بلیہ کہتے تھے۔عرب خیال کرتے تھے کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک جن رہتا ہے، جو شعر کا القا کرتا ہے۔ اگر کوئی شعر لکھنے میں عاجز ہوتا تو کہتے کہ اس کا جن بھاگ گیا۔ جن لوگوں سے عجیب و غریب یا غیرمعمولی کام سرزد ہوں ان کو دیونی کی اولاد بتاتے تھے۔ وہ بھوتوں کے بھی قائل تھے۔ ان کے سروں کے گرد آلود ہونے اور تیزی کے ساتھ چلنے کا ذکر بھی اشعار میں آتا ہے۔ اگر کسی مقتول کابدلہ نہ لیا جائے تو خیال کرتے تھے کہ اس کی قبر میں ہمیشہ اندھیرا رہےگا۔وہ گھوڑوں کی سعادت ونحوست کے قائل تھے۔ منحوس گھوڑوں کو ایک منحوس گھوڑے کی اولاد بتاتے تھے جس کا نام راحس تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر تیر چلانے والا اپنے تیر پر تھوک دیتا ہے تو پھر اس کے تیر کا نشانہ جو شخص ہو، وہ زندہ نہیں بچتا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر بادشاہ کے بائیں ہاتھ کی بیچ کی انگلی میں پچنے لگاکر خون لیا جائے اور یہ خون چھوارے میں رکھ کر اس شخص کو کھلایا جائے جسے باولے کتے نے کاٹا ہے تو اس کو شفا ہو جاتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب مردہ گل کر مٹی ہو جاتا ہے، تو اس کے سر میں سے ایک پرندہ نکلتا ہے اور اس قبر پر آواز لگاتا ہے۔ اس پرندہ کو صدیٰ یا ہامہ کہتے تھے۔ عرب شگونوں کے بھی قائل تھے اور اکثر پرندوں سے شگون لیا کرتے تھے۔ جب وہ کسی دوست کو رخصت کرتے تو اسے بار بار مڑ کر دیکھتے تھے۔ یہ ایک شگون تھا اور اس غرض سے کیا جاتا تھا کہ جانے والا جلد واپس آئے۔ نامرد کو ابن صبح کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر عورت صبح کو حاملہ ہو تو بچہ نامرد پیدا ہوتا ہے۔ عربوں کے نزدیک قزح ایک فرشتے کا نام تھا جو بادلوں پر مامور ہے۔ اسی کی کمان کو قوس قزح کہتے تھے۔غرض کہ عرب کی شاعری کے مطالعہ سے عرب کے متعلق جغرافی آثار و تاریخی واقعات، اخلاقی و تمدنی مناظر اور ان کے عقائد و توہمات کے متعلق سب کچھ معلوم ہو سکتا ہے اور یہ جو کچھ لکھا گیا، اسی مطالعہ سے معلوم ہوا ہے۔ اگر مضمون کی طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو اور بہت کچھ بیان ہو سکتا تھا۔ تاہم اس قدر بیان سے بھی ناظرین اس مقولہ کی صداقت مان جائیں گے کہ فی الحقیقت عرب کی شاعری عرب کے حالات و خیالات کا دفتر ہے۔ اب آخر مضمون میں مجھے یہ بیان کرنا ہے کہ عرب کی شاعری میں اظہار خیالات کے کیا طریقے تھے۔خیالات کے سانچےخیالات کے اظہار کے لیے جو اہم پیرایے عرب کے شعرا نے استعمال کیے ہیں، وہ تین ہیں (۱) کنایہ (۲) استعارہ (۳) تشبیہ ذیل میں تینوں طریقوں کی مثالیں لکھی جاتی ہیں۔عربی شاعری کے کنایے: پاؤں کا جوتی کے تسمے سے نکل جانا موت سے کنایہ ہے۔ اونٹ کا کسی پر اپنی چھاتی ٹیک کر بیٹھنا ہلاک ہونے سے کنایہ ہے۔ مادرکر گس یا گدوں کی ماں موت سے کنایہ ہے کیونکہ موت لوگوں کو ہلاک کرکے گدوں کے لیے خوراک مہیا کرتی ہے۔ تبالہ میں اتر پڑنا مالامال ہونے سے کنایہ ہے۔ تبالہ یمن کا ایک زرخیز شہر تھا۔ بے دانت کی درانتی تلوار سے کنایہ ہے۔ کانوں کا جڑ سے کٹ جانا ذلیل ہونے سے کنایہ ہے۔ نامرد کتے والا سخی سے کنایہ ہے کیونکہ مہمانوں کی کثرت آمدورفت کے سبب کتا بھونکنا چھوڑ دیتا ہے۔ دبلے شتر بچے والا بھی سخی سے کنایہ ہے کیونکہ اونٹنی کا دودھ مہمانوں کو پلایا جاتا ہے، اس لیے اس کا بچہ دبلا ہو جاتا ہے۔ بہت راکھ والا بھی سخی سے کنایہ ہے کیوں کہ مہمانوں کی کثرت کے سبب اس کے ہاں کھانا بھی کثرت سے پکتا ہے اور باورچی خانے میں راکھ کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔اندراین توڑنا بے اختیار آنسو جاری ہونے سے کنایہ ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص اندراین کا پھل توڑتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ ہونٹوں نے دانتوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہ خوف سے کنایہ ہے۔ کیونکہ خوف کے وقت منھ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ چمڑے کے خیمے والے بڑے اور مالدار آدمیوں سے کنایہ ہے کیوں کہ اس کا مقدور امیروں اور بڑے آدمیوں ہی کو تھا۔ پنڈلی کھلنا مصیبت سے کنایہ ہے، کیونکہ مصیبت کے وقت پردہ نشین عورتیں گھر سے باہر نکل بھاگتی ہیں۔ پریشان ہوا میں چلنا قحط سے کنایہ ہے کیونکہ عرب میں ہمیشہ ایسی ہواؤں کا چلنا قحط کی علامت خیال کیا جاتا تھا۔ سر کی چادر بائیں ہاتھ میں لینا عورتوں سے خوف زدہ ہونے سے کنایہ ہے، کیوں کہ خوف کے وقت وہ اکثر یہی عمل کیا کرتی تھیں۔ لونگوں یا سنبل کا سرمہ لگانا رونے سے کنایہ ہے، کیوں کہ ایسا کرنے سے آنکھوں سے بے اختیار پانی جاری ہو جاتا ہے۔اس زمین میں شترمرغ کے انڈے کثرت سے ہیں یا پھیلے پڑے ہیں۔ یہ زمین کے سرسبز ہونے سے کنایہ ہے، کیونکہ شترمرغ ایسی ہی زمین میں انڈا دیتے ہیں۔ لمبے پر تلے والا، دراز قد انسان کے کنایہ ہے کیونکہ جس کا پرتلا لمبا ہوگا، اس کی تلوار لمبی ہوگی اور جس کی تلوار لمبی ہوگی اس کا قد بھی دراز ہوگا۔ ہمارے گھوڑے بنات النعش کی طرف جا رہے ہیں یعنی ہم شام کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔ یہ بھی کنایہ ہے، کیونکہ بنات النعش شامی ستارے سمجھے جاتے ہیں۔ آگ میں لکڑیاں یا ایندھن ڈالنا فتنہ فساد بڑھانے سے کنایہ ہے۔ تہ بند ڈھیلا ہونا خوف سے کنایہ ہے۔ دامن کمر پر باندھنا مستعدی سے کنایہ ہے۔ گرگٹ کا درخت پر دم ہلانا گرمی کے وقت سے کنایہ ہے، کیونکہ گرمی کے وقت گرگٹ یہی حرکت کرتا ہے۔عربی شاعری کے استعارےمیں موت کے تھنوں سے اس وقت دودھ نکالتا ہوں جب کہ بڑے بڑے بہادر آدمی بھاگ نکلتے ہیں۔ یہاں موت کا استعارہ ناقہ سے ہے۔ لڑائی کا استعارے اس درندہ سے جو ڈاڑھیں نکال کر اپنے شکار کو ڈراتا ہو۔ نسب کے صاف و خالص ہونے کا استعارہ بارش کے پانی سے، کمزور اور نامرد کا استعارہ اس گوشت سے جو قصائی کے تختے پر رکھا ہو کہ جو چاہتا ہے اسے خرید کر لے جاتا اور اپنے کام میں لاتا ہے۔ ذلیل و خوار آدمی کا استعارہ چھوٹے کان والے شترمرغ سے۔ گلے کا ہار بدنامی کا استعارہ ہے۔ موت کے قریب ہونے کا استعارہ اس شکاری پرندے سے جو منڈلاتا اور پر تول کر شکار پر گرنا چاہتا ہو۔ ڈولوں میں ڈول ڈالنا اوروں کے ساتھ خود بھی کوشش کرنے کا استعارہ ہے۔شعری ستارہ کا ڈوب کر نکلنا تنزل کے بعد ترقی حاصل ہونے کا استعارہ ہے۔ تنور گرم ہونا لڑائی کی شدت کا استعارہ ہے۔ سمندر کی موجوں کا چاروں طرف سے گھر آنا رات کی تاریکی پھیلنے کا استعارہ ہے۔ دبی ہوئی چنگاریوں کا سلگ اٹھنا کینوں کے ظاہر ہونے کا استعارہ ہے۔ موتی خاک پر بکھرنا نصیحت ضایع کرنے کا استعارہ ہے۔ صبح کی روشنی میں جاگنا بڑھاپے میں ہوشیار ہونے کا استعارہ ہے۔ دل کے کناروں پر ابر چھایا رہنا شک و ترد کی حالت میں مبتلا رہنے کا استعارہ ہے۔ یمن کے ریشمی منقش تھانوں کا وادی میں پھیلایا جانا رنگ برنگ کی نباتات کا نمایاں ہونے کا استعارہ ہے۔ پردے کے انڈے کنواری پردہ نشین لڑکیوں کے لیے استعارہ ہے۔ بچھو کے سوراخ سے کئی بار کاٹا جانا، بار بار ایک ہی مصیبت میں مبتلا ہونے کا استعارہ ہے۔بان یا اند کی شاخوں کا لچکنا معشوق کے ساتھ چلنے کا استعارہ ہے۔ ریت میں تیرنے والے سفینے اونٹوں کا استعارہ ہے۔ اس کے چہرہ پر خالص کندن کی اشرفیاں بکھری ہوئی ہیں یا اس کے رخسار پر شعری ستارہ نے طلوع کیا ہے یا ثریا اس کی پیشانی سے آویزاں ہے، یہ سب حسن وجمال کے استعارے ہیں۔ موت کا ہنستے ہوئے گھات سے نکلنا میان سے تلوار کھینچنے کا استعارہ ہے۔ وادی جواء کی نیل گائیں یا وجیرہ کی سفید ہرنیاں حسین عورتوں کا استعارہ ہے۔ لہراتے سانپ لچکتے نیزوں کا استعارہ ہے۔ لباس کا داغ دار ہونا عزت بگڑنے کا استعارہ ہے۔ تلوار کی دھار کند ہونا جذبہ شجاعت کے فنا ہونے کا استعارہ ہے۔عربی شاعروں کی تشبیہات:حملہ آور کی تشبیہ غضبناک اور بھوکے شیر سے۔ نیزے کے کوچے سے خون تیزی کے ساتھ جاری ہونے کی تشبیہ بھری ہوئی مشک کے دھانے سے، جب کہ مشک کھول دی جائے۔ لڑائی کی تشبیہ چکی سے۔ سینے میں عداوت کے جوش کی تشبیہ ہانڈی کے جوش سے۔ چوکنے آدمی کی تشبیہ شکرے سے۔ پہاڑ کی گھاٹی سے تیزی کے ساتھ اترنے کی تشبیہ شہباز کے جھپٹنے سے جو اپنے شکار پر آ رہا ہو۔ گھوڑوں کے دم اٹھاکر بھاگنے دوڑنے کی تشبیہ دودھ والی اونٹنی سے جو بچا کھچا دودھ دہنے سے گھبراکر دم اٹھاتی ہے۔ تیز نگاہی کی تشبیہ گھوڑے کے بچے کی نگاہ سے جس کی عمر دو سال کی ہو۔ لڑائی کے گھوڑوں کی تشبیہ بھوتوں سے جو تیز چلتے ہیں اور جن کے سرگرد آلودہ ہوتے ہیں۔ جنگجو بہادروں کی تشبیہ شرای کچھار کے شیروں سے۔ زرہ پوش کی تشبیہ چیتے سے۔غصے سے ہلاک کرنے والے کی تشبیہ مقید اونٹ سے جو ہری گھاس کو روند ڈالتا ہے۔ انبوہ لشکر کی تشبیہ ٹڈی دل سے۔ مددگار انسان کی تشبیہ تلوار سے جو وقت پر کام دینے میں کبھی خطا نہیں کرتے۔ بڑی اور موذی اولاد کی تشبیہ وجع القلب (درد دل) سے۔ چھوٹی لڑکیوں کی تشبیہ لوے کے بچوں سے۔ غلام کی تشبیہ ترکش سے کہ جیسے وہ تیروں کا مخزن ہوتا ہے، اسی طرح غلام اسرار کا مخزن ہوتا ہے۔ چغل خوروں کی تشبیہ بچھووں سے۔ دباؤ نہ ماننے کی تشبیہ اونٹنی کی اس حالت سے جب کہ وہ باوجود پاؤں باندھنے کے دودھ نہ دے۔ بہادر آدمی کی تشبیہ شیر کی ناک سے جس نے ذلت کی بو کبھی نہیں سونگھی۔ عورت کی تشبیہ ہرن سے، نیل گائے سے اور پتھر کی مورت سے۔ نیزوں کے باہم ٹکرانے کی تشبیہ بھوکے مینڈکوں کی آواز سے۔ لڑائی کے سخت دن کی تشبیہ ایسے تاریک دن سے جس میں تارے نظر آئیں۔ایسا شخص جو دوسروں کو تکلیف پہنچائے اور اس کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے، اس کی تشبیہ نیلی مکھی سے، جو اونٹ کو کاٹتی ہے اور اونٹ کا اس پر قابو نہیں چلتا۔ لڑائی ہوتی دیکھ کر لڑائی میں شامل ہونے والے کی تشبیہ خارشی اونٹ سے کہ اس کے سبب سے تندرست اونٹوں کو بھی خارش ہو جاتی ہے۔ رات کی تاریکی کی تشبیہ سمندر کی موج سے۔ گانے میں دردناک آواز کی تشبیہ بچہ دار اونٹوں کے رونے سے، جن کے بچے ایام بہار میں مر چکے ہوں۔ نازک اندام عورتوں کی تشبیہ آکھی یا ارنڈ کے پودوں سے۔ ارادے کے پکے انسانوں کی تشبیہ سانپ کے سر سے کہ جہاں چاہتا ہے بے تکلف گھس جاتا ہے۔ اونٹنی کی چال کی تشبیہ ایسے بادل کی چال سے، جو جنوبی ہوا کے ساتھ دوڑتا ہو اور پانی سے خالی ہو۔ گھوڑی کی رفتار کی تشبیہ پیاسی کبوتری کے اڑنے سے۔سخی آدمی کی تشبیہ موسم بہار سے۔ گوری پنڈلیوں کی تشبیہ ہاتھی کے دانت یاسنگ مرمر کے ستونوں سے۔ لیٹروں اور حملہ آوروں کی تشبیہ عقاب سے۔ شراب کے پینے سے انگلیوں کے پوروں میں جو دوران خون ہوتا ہے، اس کی تشبیہ چیونٹیوں کے رینگنے سے۔ نازنین عورتوں کے نزاکت کے ساتھ چلنے کی تشبیہ سفید پتلے سانپ کے رینگنے سے جس کو صبح کی شبنم نے ٹھنڈا کر دیا ہو اور اپنے پورے نہ کھول سکتا ہو۔ عاشق کے رونے کی تشبیہ کبوتری کے رونے سے۔ آگ کے شعلوں کی تشبیہ اونٹ کے سرخ پھیپھڑوں سے۔ نامرد انسان کی تشبیہ کفتار، خرگوش اور شترمرغ سے۔ آسانی سے مطلب حاصل ہونے کی تشبیہ خرما کھانے سے۔ تکلیفیں برداشت کرنے کی تشبیہ ایلوا چاٹنے سے۔ ذلیل آدمی کی تشبیہ میدان کی کھمبی سے کہ جو چاہے اسے توڑ کر لے جائے۔ جو لوگ کاہل ہوں اور سفر کے عادی نہ ہو، ان کی تشبیہ بنات النعش سے کیوں کہ وہ قائم ہیں اور دیگر ستاروں کے ساتھ حرکت نہیں کرتے۔ وہ شخص جو کسی کا مطیع و محکوم ہو جائے، اس کی تشبیہ خارشی اونٹ سے جو روغن قاز ملنے والے کا مطیع ہو جاتا ہے۔ (خارشی اونٹوں کے بدن پر روغن قاز ملا جاتا تھا اور اس سے ان کی خارش کو سکون حاصل ہوتا تھا۔)(ہمارے ہاں روغن قاز ملنا محاورہ ہے یعنی خوشامد کی باتوں سے کسی کو خوش کرنا۔ عجب نہیں کہ اس محاورہ میں روغن قاز کی جگہ روغن غاز ہو، کیونکہ جس طرح روغن قاز ملنے سے خارشی اونٹ کو سکون حاصل ہوتا ہے، اسی طرح خوشامد پسند انسان خوشامد کی باتوں سے خوش ہوتا ہے۔ اگر کاتبوں نے رکوز بنا دیا ہو تو کیا عجب ہے۔ سلیم)اونٹوں کے کوہانوں کی تشبیہ مٹی کے ان ڈھیروں سے جو چیونٹیوں کے گھروں کے آس پاس جمع ہوتے ہیں۔ دانتوں کی تشبیہ بابونہ کے پھولوں سے۔ اونٹنی کی چربی کی تشبیہ بٹے ہوئے سفید ریشم کی جھالر سے۔ عورتوں کی تشبیہ شترمرغ کے انڈوں سے (یہ تشبیہ رنگ کے لحاظ سے ہے شترمرغ کے انڈے کے رنگ میں سفیدی کے ساتھ ہلکی زردی ہوتی ہے اور یہ رنگ اہل عرب کے نزدیک پسندیدہ تھا۔) معشوقہ کی گردن کی تشبیہ گردن آہو سے۔ حسین عورتوں کی کمر کی تشبیہ اونٹ کی مہار سے۔ ساق کی تشبیہ نوکل کی شاداب پوری سے۔ گھنے بالوں کی تشبیہ درخت خرما کے خوشے سے۔ نرم و نازک انگلیوں کی تشبیہ موضع طبی کے ان کیڑوں سے جو سفید رنگ کے ہوتے ہیں اور جن کے سر لال ہوتے ہیں اور جن کو اسروع کہتے ہیں۔ انگلیوں کی تشبیہ اسحل کی مسواکوں سے (یہ عرب کا ایک درخت ہے جس کی شاخیں پتلی اور نرم اور سیدھی ہوتی ہیں اور ان شاخوں کی مسواکیں بنائی جاتی ہیں۔)ایسا آدمی جو شریر ہو اور جسے کوئی آدمی پاس بٹھانے کا روادار نہ ہو، اس کی تشبیہ جوے کے اس تیر سے جس کا کچھ حصہ نہیں ہوتا اور جسے ہر شخص اپنے پاس سے ہٹاتا ہے۔ ذلیل آدمی کی تشبیہ آب پاشی کے اونٹ سے جو چرس کھینچنے کی حالت میں کبھی آگے جاتا اور کبھی پیچھے ہٹتا ہے۔ یعنی آب پاشی کرنے والے شخص کے اشارے کا تابع ہوتا ہے۔ لشکر کی تشبیہ پھیلے ہوئے برسنے والے ابر سے یا سیلاب سے کہ جو کچھ اس کے سامنے آتا ہے اس کو بہالے جاتا ہے۔ جلاقوم شخص کی تشبیہ خارشی اونٹ سے جو تندرست اونٹوں سے الگ باندھا جاتا ہے۔ زلفوں کی تشبیہ درخت تنوم کے سانپوں سے جو اس کے گرد بیٹھے رہتے ہیں۔ تند خو آدمی کی تشبیہ شیر سے جو اپنے بچوں سے جدا کیا جائے۔ تیز رفتار گھوڑے کی تشبیہ ایسے شاہین سے جس نے میدان میں خرگوش کو دیکھا ہو اور درختوں کے جھنڈ میں اس کے بھاگ کر چھپ جانے سے اس کو آلیا ہو۔ بے صبر آدمی کی تشبیہ چتکبری اونٹنی سے جو دردزہ میں مبتلا ہو۔ (خیال تھا کہ اس رنگ کی اونٹنی صابر نہیں ہوتی۔)فریب زدہ اور احمق آدمی کی تشبیہ اس شخص سے جو سراب کی لہروں کو دیکھ کر اپنی مشک کا پانی بہادے۔ زرہ کی تشبیہ ایسی جھیل کی سطح سے جس کے پانی کو باد وبور آہستہ آہستہ حرکت دے۔ نیزوں کے پے درپے پڑنے کی تشبیہ جلا ہوں کے اس آلہ سے جسے برولہ کہتے ہیں اور جسے تھان کے ناہموار تاروں کے برابر کرنے کے لیے تھان پر پھیرتے ہیں اور وہ تھان کو خوب کھرچتا اور اس میں گھس جاتا ہے۔ جنگجو آدمی کی تشبیہ زرد رنگ کے پتلے سانپ سے جو زہر اگلتا رہتا ہے۔ چالاک اور پھرتیلے آدمی کی تشبیہ کفتار کے بچے سے۔ شراب کی صراحیوں کی تشبیہ بطخوں سے۔ حسین عورت کی تشبیہ شعری ستارے سے جو کہکشاں سے گزر رہا ہو۔شہد کی مکھی برابر ہاتھ پر ہاتھ مارتی ہے، جس طرح انگلی کٹا آدمی آگ نکالنے کے لیے چمقاق کے پتھروں کو ایک دوسرے پر مارتا رہتا ہے۔ وہ اور ہم ایک دوسرے سے اس طرح دور ہیں جیسے فرقدین کے ستارے۔ دنیا اس پر اس طرح تنگ ہو گئی جیسے وہ چھوٹا سا گول گڑھا جس پر صیاد اپنا جال بچھاتا ہے۔ ان کے ہمسایے آفتوں سے اس طرح محفوظ ہیں جیسے پہاڑی بکریاں جنگلی درندوں سے۔ دشمن جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس طرح زور لگا رہے ہیں جیسے کوئی حاملہ عورت بچہ جننے کے وقت کو نتھتی ہے۔ سردار کے گرد اس کے محافظ اس طرح گھومتے تھے جیسے دواربت کے پرستار اس کا طواف کرتے ہیں۔ محبوبہ میرے پاس اس طرح شوق سے چلی جیسے کوا پیاس میں چشمے کی طرف لپکتا ہے۔ناظرین ان کنایوں، استعاروں اور تشبیہوں پر بھی اگر غور کی نظر ڈالیں گے تو یہ بات ان پر روشن ہو جائےگی کہ عرب کے شاعروں نے ان میں بھی اپنی ملکی خصوصیات کا لحاظ رکھا ہے۔ غرض کہ عرب کی شاعری ان تمام خصوصیات کی ترجمان ہے، جو عرب اور اہل عرب سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب تک ہماری زبان کا ادب ہندی شاعری اور عربی کی طرح ہماری ملکی خصوصیات کا ترجمان نہ ہوگا، اس کو ملکی ادب کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم نے اپنے قومی اور مذہبی خیالات و روایات کو اپنے ادب میں بھر دیا ہے۔ اس کا کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم صدیوں سے جس ملک میں آباد ہیں، ان کی خصوصیات کی جھلک ہماری نظموں اور نثروں میں نہیں ہے۔ ہندوستان میں کون سی ایسی دل ربا اور شاندار چیز نہیں ہے جو ہندوستان سے باہر کے ملکوں ہی میں پائی جاتی ہے۔یہاں بلند اور شاندار پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہاں گنجان جنگل ہیں، جن میں عجیب اور خوفناک درندے آباد ہیں۔ یہاں ایسے دل کش سبزہ زار ہیں جن کے منظروں کو دیکھ کر انسان اش اش کرتا ہے۔ یہاں ایسے رنگ برنگ کے پھول ہیں جن کی رنگینیاں قوس قزح کو مات کرتی ہیں۔ یہاں ایسے خوش الحان طیور ہیں جن کی راگنیاں روحانی جذبات کو زندہ کرتی ہیں۔ یہاں ایسے دریا ہیں جن کے پانیوں کی روانی اور دوانی تخیل کی سطح میں ہلکورے پیدا کرتی ہے۔یہاں ایسی نسلیں آباد ہیں جن کے اسلاف تمدن کی شان دار عمارتیں کھڑی کر چکے ہیں۔ یہاں قدم قدم پر حسن ہے، عظمت ہے، رنگینی ہے، دل فریبی ہے۔ غرض کہ شاعر مزاج انسانوں کے لیے وہ سامان موجود ہے کہ اگر وہ ذرا کروٹ لیں اور غفلت کی آنکھیں کھول دیں تو ایک شاندار اور جمیل ادب کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ہندوؤں نے اب سے پہلے فطرت کے ان منظروں پر نگاہ دوڑائی ہے۔ اگر ہم بھی اسی عینک سے کام لیں تو ہمارا ادب اور ان کا ادب ایک ہو جائےگا۔ اور آج نہیں کل ضرور ایک علم کے سایے میں ترقی کے قدم بڑھائیں گے مگر اس وقت کے آنے سے پہلے اپنی غلطیوں اور غفلتوں کی تلافی کرنی ضروری ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.