عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں
Appearance
عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں
خیر جگہ تو مل گئی دیدۂ اعتبار میں
توڑ رہا ہے باغباں پنکھڑیاں بہار میں
کوئی تو ہو فدائے گل ایک نہیں مزار میں
محو ہوں یاد چہرۂ شاہد گل عذار میں
اب یہ خزاں نصیب دل جا کے ملا بہار میں
اوج نہاد طبع کی مٹ کے بھی شان رہ گئی
مر کے میں سوئے آسماں مل کے اڑا غبار میں
میرے لباس کہنہ سے ہٹتی نہیں ہے ان کی آنکھ
شاید الجھ گئی نظر جامۂ تار تار میں
تم نے شب فراق میں دیکھیں نہیں جو حالتیں
آج وہ آ کے دیکھ لو عالم احتضار میں
جذب شمیم زلف ہے دانۂ دام سے سوا
سیکڑوں دل کھنچ آئے ہیں گیسوئے مشکبار میں
فیصلہ ہو ہی جائے گا چھنٹنے دے بھیڑ حشر کی
ثاقبؔ دل حزیں ہے آج تو بھی کسی شمار میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |