عام حکم شراب کرتا ہوں
Appearance
عام حکم شراب کرتا ہوں
محتسب کو کباب کرتا ہوں
ٹک تو رہ اے بنائے ہستی تو
تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں
بحث کرتا ہوں ہو کے ابجد خواں
کس قدر بے حساب کرتا ہوں
کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث
تشنگی پر عتاب کرتا ہوں
سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق
اب تئیں آب آب کرتا ہوں
جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے
جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |