عالم حیرت کا دیکھو یہ تماشا ایک اور
عالم حیرت کا دیکھو یہ تماشا ایک اور
یار نے آئینے میں اپنا سا دیکھا ایک اور
مرنے والوں میں رہا جاتا ہے جیتا ایک اور
نیم بسمل ہوں میں قاتل ہاتھ پورا ایک اور
رفتہ رفتہ دل کو دل سے راہ ہو جائے کہیں
ان سے ملنے کا رہے پوشیدہ رستہ ایک اور
ایک تو مسی کا نقشہ جم رہا ہے شام سے
پان کی لالی نے رنگ اپنا جمایا ایک اور
میں نے مانا آپ نے بوسے دیئے میں نے لیے
وہ کہاں نکلی جو ہے میری تمنا ایک اور
یاد میں اک شوخ پنجابی کے روتے ہیں جو ہم
آج کل پنجاب میں بہتا ہے دریا ایک اور
ان کا جھومر دیکھ کر کہنے لگے اہل زمیں
دیکھ لے اے آسماں عقد ثریا ایک اور
جیتے جی تو دامن صحرا کا خلعت مل گیا
بعد مرنے کے ملے ان کا دوپٹہ ایک اور
بزم سے ساقی کے ہم سے رند نکلے پاک صاف
اپنا اب کعبہ میں پہنچے گا مصلیٰ اک اور
شاعران عصر کی تجھ کو تو ہے پیغمبری
بو سیلمی بھی ہوئے اے مہرؔ پیدا ایک اور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |