Jump to content

عاشق کے لیے ہجر کا آزار کہاں تک

From Wikisource
عاشق کے لیے ہجر کا آزار کہاں تک (1940)
by سید ہمایوں میرزا حقیر
324254عاشق کے لیے ہجر کا آزار کہاں تک1940سید ہمایوں میرزا حقیر

عاشق کے لیے ہجر کا آزار کہاں تک
دکھ سہتا رہے آپ کا بیمار کہاں تک

آخر یہ ستم چرخ جفاکار کہاں تک
جھیلے مرض ہجر دل زار کہاں تک

ہو جائے لب بام سے اب جلوہ نمائی
بیٹھا رہوں آخر پس دیوار کہاں تک

دیکھوں جو کبھی آؤ سوئے گور غریباں
جی اٹھتے ہیں مردے دم رفتار کہاں تک

آتا نہیں اب کوئی عیادت کو بھی اے دل
بہلاتے بھلا بیٹھ کے غم خوار کہاں تک

سجدہ ہی کی خو ڈالوں کہ مقبول ہو خدمت
بیٹھا رہوں در پر ترے بے کار کہاں تک

کرنا نہ حقیرؔ آبلہ پائی کی شکایت
دیکھو تو رہ عشق ہے دشوار کہاں تک


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).