عاشق کہیں ہیں جن کو وہ بے ننگ لوگ ہیں
Appearance
عاشق کہیں ہیں جن کو وہ بے ننگ لوگ ہیں
معشوق جن کا نام ہے وہ سنگ لوگ ہیں
کس طرح کسبیوں سے رکھے کوئی جی بچا
سب جانتے ہیں ان کو یہ سرہنگ لوگ ہیں
مجنوں تو جا کے دشت میں فریاد کر کہ آئے
نالے سے تیرے شہر کے دل تنگ لوگ ہیں
عالم کے صوفیوں کے کوئی کیا سمجھ سے
ہر رنگ سے جدا ہیں یہ بے رنگ لوگ ہیں
ہم تو نہ لعل لب کا ترے بوسہ لے سکے
رکھتے ہیں یہ خیال جو بے ڈھنگ لوگ ہیں
اترا ہے کون آب میں یہ جس کے حسن سے
حیراں کھڑے ہوئے بہ لب گنگ لوگ ہیں
میرے لغات شعر کے عالم کو مصحفیؔ
سمجھیں ہیں وہ جو صاحب فرہنگ لوگ ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |