عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
Appearance
عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
مجھ سا تو کوئی بندۂ فرماں نہ ملے گا
ہوں منتظر لطف کھڑا کب سے ادھر دیکھ
کیا مجھ کو دل اے طرۂ جاناں نہ ملے گا
کہنے کو مسلماں ہیں سبھی کعبے میں لیکن
ڈھونڈوگے اگر ایک مسلماں نہ ملے گا
ناصح اسے سینا ہے تو اب سی لے وگرنہ
پھر فصل گل آئے یہ گریباں نہ ملے گا
رہنے کے لیے ہم سے گنہ گاروں کے یا رب
کیا شہر عدم میں کوئی زنداں نہ ملے گا
ہونے کی نہیں تیری خوشی سرو خراماں
تا خاک میں یہ بے سر و ساماں نہ ملے گا
دل اس سے تو مانگے ہے عبث مصحفیؔ ہر دم
کیا فائدہ اصرار کا ناداں نہ ملے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |