Jump to content

طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں

From Wikisource
طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316374طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاںغلام علی ہمدانی مصحفی

طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں
زندگانی کا بھلا کون سا اسباب ہے یاں

چاہ سیماب سے سیماب جو جوشاں ہے ہنوز
میں سمجھتا ہوں کہ مدفوں کوئی بیتاب ہے یاں

خم ابرو کی ترے کیونکے نہ تعریف کروں
اس سے بہتر بھی کوئی تیغ سیہ تاب ہے یاں

مقتل عشق کی بھی کیا ہی ہے جائے کھٹکی
کہ نہ سر اور نہ سجدہ ہے نہ محراب ہے یاں

میری تربت کے تو آنگن میں نہ ٹھہرا اک دم
یہ ترے جی میں نہ آیا شب مہتاب ہے یاں

کشتگاں کو تری شمشیر یہی کہتی ہے
کیجیے اس پہ قناعت تو دم آب ہے یاں

اس کو بھی گر نہ فلک دیکھ سکے چر والے
اور تو کیا ہے پریشانی کا اسباب ہے یاں

اعتبارات ہیں یہ ہستیٔ موہومی کے
فی الحقیقت تو کوئی خاں ہے نہ نواب ہے یاں

خاک تربت کی مری دیکھ چمکتی احباب
جی میں کہتے ہیں مگر معدن سیماب ہے یاں

کیا خط عاشق و معشوق کو کوئی سمجھے
کچھ کنایت سی ہے آداب نہ القاب ہے یاں

مصحفیؔ آپ ہی ہم قتل ہیں اپنے ہاتھوں
ورنہ کیں خواہ تو رستم ہے نہ سہراب ہے یاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.