طور والے تری تنویر لیے بیٹھے ہیں
Appearance
طور والے تری تنویر لیے بیٹھے ہیں
ہم تجھی کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں
جگر و دل کی نہ پوچھو جگر و دل میرے
نگہ ناز کے دو تیر لیے بیٹھے ہیں
ان کے گیسو دل عشاق پھنسانے کے لئے
جا بجا حلقۂ زنجیر لیے بیٹھے ہیں
اے تری شان کہ قطروں میں ہے دریا جاری
ذرے خورشید کی تنویر لیے بیٹھے ہیں
پھر وہ کیا چیز ہے جو دل میں اتر جاتی ہے
تیغ پاس ان کے نہ وہ تیر لیے بیٹھے ہیں
مئے عشرت سے بھرے جاتے ہیں اغیار کے جام
ہم تہی کاسۂ تقدیر لیے بیٹھے ہیں
کشور و عشق میں محتاج کہاں ہیں بیدمؔ
قیس و فرہاد کی جاگیر لیے بیٹھے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |