طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے
طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے
اپنے ہی واسطے بنیاد خرابی ہوتے
وہ جو سوتے ہیں فراغت سے انہوں کے سینے
کاش یک شب ہدف تیر شہابی ہوتے
مے نہ پیتے کبھی گل زار میں ہم یار بغیر
پھول شبو کے جو یک دست گلابی ہوتے
دل سے گرد غم کونین تو دھوئی جاتی
کاش ہم کشتۂ شمشیر دو نابی ہوتے
گر سمجھتے وہ کبھی معنیٔ متن قرآں
چہرے شراح کے ہرگز نہ کتابی ہوتے
عمر کے فوت کا ہم مرثیہ پڑھتے جو کبھو
آن کر خضر و مسیح اپنے جوابی ہوتے
اپنی قسمت میں تو محرومیٔ جاوید تھی آہ
ورنہ ہم شیفتۂ روئے نقابی ہوتے
روکشی کرنے کو ہم بحر سے جاتے مجنوں
آبلے پائے جنوں کے جو حبابی ہوتے
آتش دل ہی فروزاں نہ ہوئی ورنہ ہمیں
الف تیغ بتاں سیخ کبابی ہوتے
ہم کو دشوار تھا پھر روئے زمیں پر رہنا
کوکب بخت ہمارے جو شہابی ہوتے
کوئے عشاق سے گزرا نہ وہ کافر ورنہ
لوگ رستے کے بہ تقلید شرابی ہوتے
ماہ ہی بس ہے ہمیں گو کہ نہ ہووے خورشید
مردہ کیوں ڈھونڈتے فرنی کی رکابی ہوتے
نیم رنگ اس کی حنا دیکھ نہ مرتے گر ہم
پھول تربت کے ہمارے نہ گلابی ہوتے
مصحفیؔ نالہ خموشی سے کیا میں نے بدل
تا کجا تار نفس تار ربابی ہوتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |