ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
Appearance
ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
میری سی خدایا نہ ہو تقدیر کسی کی
ناحق میں بگڑ جانے کی عادت یہ غضب ہے
ثابت تو کیا کیجیے تقصیر کسی کی
قاصد یہ زبانی تری باتیں تو سنی ہیں
تب جانوں کہ لا دے مجھے تحریر کسی کی
بے ساختہ پہروں ہی کہا کرتے ہیں کیا کیا
ہم ہوتے ہیں اور ہوتی ہے تصویر کسی کی
ایسی تو نظامؔ ان کی نہ عادت تھی وفا کی
وہ جانے نہ جانے یہ ہے تاثیر کسی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |