صورت حال اب تو وہ نقش خیالی ہو گیا
صورت حال اب تو وہ نقش خیالی ہو گیا
جو مقام ماسوا تھا دل میں خالی ہو گیا
ممتنع جو تھا وہ ہے زیب بداہت قلب کو
جو یقینی امر تھا وہ احتمالی ہو گیا
چھوڑی خود بینی تو اب ہر شے میں حسن آیا نظر
دیدۂ حق بیں جلالی سے جمالی ہو گیا
ذوق نظارہ یہ ہے آنکھوں پر اب رکھتا ہوں میں
ذرے ذرے کو جو نذر پائمالی ہو گیا
زعم اور پندار کا حق الیقیں سے ہے بدل
وہ گھروندہ اب تو فانوس خیالی ہو گیا
آنکھ اٹھ کر حسن قدرت سے جو اپنے پر گئی
سب خودی کا رنگ رنگ انفعالی ہو گیا
پہلے اس میں سر تھا اے صمصام عشق اور جان تھی
کیونکہ ملتا تجھ سے آ اب ہاتھ خالی ہو گیا
غیرت دل دادہ و دل دار کی جاتی رہی
اب تو جو ہونا تھا اے آقائے عالی ہو گیا
وجہ علم ذات ہو کیوں کر نہ عرفان صفت
کیا عرض کی شان جب جوہر سے خالی ہو گیا
جو رہا خوددار ہونے پر خودی سے دور دور
وہ دیار عشق و دل سوزی کا والی ہو گیا
ہے خطا اس کو اگر عاشق کہو تم جس کا عشق
ختم جب اس نے مراد اک اپنی پا لی ہو گیا
جذبۂ ایثار کیا قوت عمل کی پھر کہاں
جب شعور انساں کا صرف لاابالی ہو گیا
اے قدامت کیش سن یہ عالم ایجاد ہے
نام جدت کا ازل میں لا یزالی ہو گیا
چھوڑ کر لطف سخن مغز سخن سے کام لو
کیا ہوا کیفیؔ جو گرم خوش مقالی ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |