صرصر گیسو ہلا رہی ہے
صرصر گیسو ہلا رہی ہے
سر پر کالے کھلا رہی ہے
فرقت میں خوں رلا رہی ہے
تقدیر یہ رنگ لا رہی ہے
داغوں سے دل جلا رہی ہے
الفت سکے بٹھا رہی ہے
دامن میں ہے تیرے بوئے کاکل
کیوں مجھ کو صبا اڑا رہی ہے
حال تپ ہجر کچھ نہ پوچھو
دل کھا چکی جان کھا رہی ہے
جھیلی ہوئی ہے جفا طبیعت
برسوں ہی مبتلا رہی ہے
کسریٰ محل نہ طاق جم ہے
اے دل کس کی سدا رہی ہے
مرتا ہے دل بتوں کے اوپر
تقدیر پہاڑ ڈھا رہی ہے
طفلی و جوانی خوب گزری
دو دن اچھی ہوا رہی ہے
اڑتی ہے خاک اس جگہ پر
برسوں جس جا فزا رہی ہے
یہ بنت عنب بہار گل میں
یاروں کی بھی آشنا رہی ہے
لاتی نہیں بوئے یار نگہت
اس دل کی لگی بجھا رہی ہے
ہم بھی تھے کبھی جوان رعنا
اپنی بھی کبھی ہوا رہی ہے
کھلتا نہیں حال گل کا بلبل
شبنم پانی چوا رہی ہے
یہ فصل بہار بے خودی کا
رستہ ہم کو بتا رہی ہے
گلشن میں عروس گل کے اوپر
شبنم موتی لٹا رہی ہے
پھولے نہیں گل چمن کے اندر
وحشت آنکھیں دکھا رہی ہے
فقرے سے لے آئے اس صنم کو
کیوں منتہیؔ بات کیا رہی ہے
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |