صد شکر بجھ گئی تری تلوار کی ہوس
Appearance
صد شکر بجھ گئی تری تلوار کی ہوس
قاتل یہی تھی تیرے گنہ گار کی ہوس
مردے کو بھی مزار میں لینے نہ دے گی چین
تا حشر تیرے سایۂ دیوار کی ہوس
سو بار آئے غش ارنی ہی کہوں گا میں
موسیٰ نہیں کہ پھر ہو نہ دیدار کی ہوس
رضواں کہاں یہ خلد و ارم اور میں کہاں
آئے تھے لے کے کوچۂ دل دار کی ہوس
صیاد جب قفس سے نکالا تھا بہر ذبح
پوچھی تو ہوتی مرغ گرفتار کی ہوس
یوسف کو تیری چاہ کے سودے کی آرزو
عیسیٰ کو تیرے عشق کے آزار کی ہوس
دست ہوائے گل میں گریبان ہے مرا
دامن جنوں میں کھینچتی ہے خار کی ہوس
جب ہو کسی کا رشتۂ الفت گلے کا طوق
دیوانہ پن ہے سبحہ و زنار کی ہوس
مانع ہے ضبط چرخ پھنکے کیونکر اے جلالؔ
کس طرح نکلے آہ شرربار کی ہوس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |