صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
Appearance
صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
ہے ہجر کی شب وصال کے ساتھ
اے سرو رواں ٹک اک ادھر دیکھ
جی جاتے ہیں تیری چال کے ساتھ
ہے تیغ و کمان کی سی نسبت
ابرو کو ترے ہلال کے ساتھ
مت زلف کو شانہ کر مرا جی
وابستہ ہے بال بال کے ساتھ
دل اپنا ہنوز سادگی سے
پیچیدہ ہے زلف و خال کے ساتھ
مہمان تھا کس کا تو شب اے ماہ
آتا ہے جو اس ملال کے ساتھ
رخساروں نے کچھ عرق کیا ہے
کچھ چشم ہے انفعال کے ساتھ
میں شیر ہوں بیشۂ سخن کا
صحبت ہے سگ و شغال کے ساتھ
اکسیر ہے مصحفیؔ کا ملنا
یعنی کہ وہ ہے کمال کے ساتھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |