Jump to content

صحبت نا جنس

From Wikisource
صحبت نا جنس
by سجاد حیدر یلدرم
277934صحبت نا جنسسجاد حیدر یلدرم

(دو لڑکیوں میں خط و کتابت)

حیدرآباد دکن، 24 ستمبر 1925ء

میری پیاری سلما جانی! جو باتیں میں کسی سے کہہ نہیں سکتی وہ تمھیں لکھنا چاہتی ہوں۔ ہائے وہ مدرسے کے دن کہ جب مجھے کوئی تکلیف ہوئی یا مرضی کے خلاف کوئی بات ہوئی اور میں تمھارے کمرے میں پہنچی، اگر تم کسی بات کسی کام میں مشغول بھی ہوتیں تو بے تحاشا تم سے لپٹ کے، گلے میں بائیں ڈال کر، تمہارا منہ چوم کے اپنی طرف متوجہ کرلیا اور اپنا درد دل تمھیں کہہ سنایا اور دل کی بھڑاس نکال لی۔ حیدرآباد! آہ کتنی دور ہوں، پھر اللہ رکھے۔ تم میاں رکھتی ہو، بال بچے رکھتی ہو، گھر کے کام دھندے میں مشغول ہو، دیکھوں تمھیں اس خط کے پڑھنے کا وقت بھی ملتا ہے یا نہیں۔

مجھے یہ خط ’’میں خیریت سے ہوں اور تمہاری خیروعافیت کی خواہاں‘‘ سے شروع کرنا چاہیے تھا۔ مگر طبیعت یکسو ہوتی تو کرتی، تمہاری طرح تھوڑا ہی ہوں، تمھاری زندگی میں نہ کوئی شے زیادہ نہ کوئی شے کم، جو تم چاہتی تھیں وہ سب موجود ہے، مجھے دیکھو؟ مجھ پہ کیا بپتا پڑی! پوچھو تو سناؤں اور دل نہ بھرے، نہ پوچھو پھر بھی سناؤں گی۔

میں نے تمھیں نہیں لکھا، تین مہینے ہوئے میں دلہن ہوگئی، وہ عذرا جسے تم ہمیشہ ’’دیوانی لڑکی‘‘ کہا کرتی تھیں اب ’’عقل والی عورت‘‘ ہے، مصیبتوں نے سنجیدگی سکھادی۔

ابھی آدھ گھنٹہ ہوا، ایک دیو گھر سے باہر گیا ہے اور میں نے ایسا سانس لیا ہے، گویا بڑے ضیق سے نجات پائی، میرے ہول دل کو تھوڑا سا آرام ہوا تو میں نے یہ خط لکھنا شروع کیا، ان تین مہینوں میں ہر روز تمھیں خط لکھنے کا ارادہ کرتی تھی، مگر پریشانیوں سے جو سستی، اور خوف سے جو عطالت بدن میں پیدا ہوجاتی ہے اس نے اس ارادے کو پورا نہ ہونے دیا، صبح نہیں ہوتی کہ شام ہوجاتی ہے، صبح کھانے کے وقت ہم اپنے کمرے سے نکلتے ہیں اور اس وقت میرا پیارا دیو پنجہ، دیو جثہ، اپنی ٹوپی عجب لا ابالی ڈھنگ سے آدھے سر پر رکھ کر کوٹ عجب بے پروائی سے پہن کر باہر جاتا ہے، میری جان میں جان آتی ہے کہ اتنے میں عورتیں ملاقات کے لیے آجاتی ہیں، ان سے سرکھپاتی ہوں، تیسرے پہر کو میں کپڑے بدل کے تازی ہوا کھانے کے لیے اپنے ایک قفس سے نکل کر، دوسرے قفس میں بیٹھ کر (جس کی جھلملیاں بند ہوتی ہیں) باغ عامہ کا نظارہ کرتی ہوں، شام ہوتے ہی گھر پہنچتی ہوں، لیکن وہ مجھ سے پہلے وہاں موجود ہوتا ہے، رات کو گھر میں سناٹا ہوجاتا ہے اور اس خوفناک قوی ہیکل بت سے میری نفرت اور بڑھ جاتی ہے۔

یہ شادی کس طرح ہوئی، اس کی تاریخ میں تمھیں نہ لکھونگی کیا فائدہ۔ صرف ان تین مہینوں کی زندگی کی تصویریں ایک ایک کرکے پیش کرتی ہوں، انھیں دیکھو، اور میری سلما! مجھ پر دل دکھاؤ۔

وہ لڑکپن کی امیدیں ایک لال کی ہلکی پرواز کی طرح غائب ہوگئیں، اڑگئیں، ایک چھوٹی چڑیا کی طرح ان کا خون ہوگیا۔ بیاہ کے بعد تیسرا یا چوتھا دن تھا، میں پیانو کے پاس بیٹھی تھی، وہ مجھ سے ذرا دور آرام کرسی پر ڈھیر ہورہے تھے، میں یونہی بیٹھی بیٹھی پیانو کو بجا نہیں رہی تھی، بلکہ کھیل رہی تھی کہ میرے کانوں میں وہ بھاری اور کرخت آواز آئی۔

’’ہم سنے ہیں آپ بہت اچھے گائن گاتی ہیں، اگر دو ایک ہم کو سنائیں گا، تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘

میں رکی اور استعجاب آمیز سوال کی نظر سے ان کی طرف دیکھنے لگی، معلوم نہیں کہ اس نظر کے انھوں نے کیا معنی لیے کہ کہنے لگے۔

’’کوئی راگنی، کوئی ٹپہ، کوئی غزل ہمارے واسطے ہونا، ہم یہ نہیں کہتا کہ کیا سناؤ، آپ کو جو پسند ہو وہ سناؤ۔۔۔‘‘

میں مبہوت نظر سے دیکھ رہی تھی اور اس تقریر کو سن رہی تھی، وہ پھر فرمانے لگے۔

’’اچھا اور کچھ نہیں تو یہ غزل تو سناؤ۔‘‘

’’دونوں ہاتھوں میں مہندی لگالے پری

لگا لے پری، ہاں لگالے پری‘‘

میں کیا جواب دیتی، حیران تھی، وہ مسلسل گانے کے لیے چیزیں پیش کرتے جاتے تھے۔

’’اچھا صاحب! غزل نہیں تو کوئی ناٹک کی چیز،

دیتا ہوں تجھ کو تخت سلیمان کی قسم

(اور اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر پورے جوش اور نہایت محبت اور حرص بھری نظر سے مجھے دیکھ کر)

مل مجھ سے اے پری تجھے انسان کی قسم‘‘

مجھے چپ لگی ہوئی تھی، آخر کار وہ اٹھ کر اور پیانو کے قریب آکر فرمانے لگے۔

’’صاحب! کیا غضب ہے میں اس قدر التماس کیا ہوں آپ قبول نہیں کرتے ہو، مہربانی کرکے مداری لال یا امانت کی کوئی چیز آپ سنا دینگے تو کیا ہوگا۔‘‘

میں نے بہت چاہا کہ ان کا خیال کسی اور طرف ہٹ جائے، لیکن میں دیکھتی تھی کہ ان کا اصرار بڑھتا ہی جاتا ہے، آخر میں نے مجبور ہوکر کہا۔

’’مداری لال اور امانت کون ہیں؟ میں نے تو کبھی ان کا نام بھی نہیں سنا۔‘‘

میں نے یہ صفائی سے جواب دے دیا تھا، تم ہی بتاؤ تم نے بھی کبھی ان کا نام سنا ہے؟ ہم نے تو نہ مدرسے میں، نہ گھر میں، نہ کسی کتاب میں یہ نام دیکھے، مگر انھوں نے اسے بناوٹ سمجھا اور فرمانے لگے۔

’’ایں! آپ نہیں جانتے، پر میں تو جانتا ہوں، ہندوستان کیا، دکن کیا ہر جگہ ان کا نام مشہور ہے۔‘‘ اور تھوڑے سے سکوت کے بعد، ایک پر نزاکت مگر معنی دار تبسم کے ساتھ فرمایا۔

’’خفا نہ ہو صاحب! جوگانے آپ کو پسند ہوں وہی ہم کو سناؤ۔ البتہ وہ اچھے ہونگے۔‘‘ پیاری سلما! پیاری بہن! تم ہی خیال کرسکتی ہو کہ میں کس مصیبت میں تھی، میرا چہرہ کچھ شرم، کچھ غصہ سے تمتما اٹھا اور قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاؤں، مگر ضبط کیا اور طبیعت کو تھاما۔

آہ! مس میری، آئیے اور اپنی چہیتی شاگرد کو دیکھیے کہ پیانو کے سامنے عاجز صم بکم بیٹھی ہے۔ وہ انگلیاں جنھیں آپ پیانو بجاتے ہوئے دیکھ کر تعجب کیا کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ خدا نے انھیں محض موسیقی کے لیے پیدا کیا ہے، آئیے اور ان انگلیوں کی ذلت کو دیکھیے، سات برس متواتر اسی دن کا خیال کرکے، اسی دن کے لیے تیاری کی تاہم ان تمام کوششوں کا نتیجہ دیکھیے۔ مداری لال اور امانت آتے ہیں اور آپ کی تعلیمات سب بیکار رہ جاتی ہیں۔ کیا یہ ہونا تھا، کیا اس لیے میں نے اتنی محنت اٹھائی تھی، اگر یہ تمام تعلیم بے سود تھی، یعنی اگر مینڈ لسوں اور ڈیگیز(دونوں یورپ کے مشہور موسیقی داں ہیں) مداری لال کے حضور میں سرجھاکر بھاگ جانے والے تھے، تو یہ تعلیم ہی کیوں دی گئی تھی۔ میری سلما! بتاؤ؟ آخر کیا فائدہ، بتاؤ؟ میں اپنے امانت کے شیدا خاوند سے کیا کہوں، کیا عذر کروں؟

ہاں، میرا خاوند مجھ سے ’’دونوں ہاتھوں میں مہندی لگالے پری‘‘ یا ’’مل مجھ سے اے پری تجھے انسان کی قسم‘‘ کا طلب ہے۔ ’’میں کیا جواب دوں؟ میں ان چیزوں سے واقف نہیں، مجھے ہندی گانے نہیں سکھائے گئے۔‘‘

میں نے سات آٹھ برس انگریزی گانے سیکھے ہیں یہی جواب تھے جو میں دے سکتی تھی اور یہی دئیے۔

اس پر انھوں نے نہایت اخلاق اور نرمی سے کہا۔

’’بہتر! انگریزی گانے ہی سنائے، میرے کو وہ بھی پسند ہوتے ہیں۔‘‘

میں اتنی دیر تک انکار کرنے سے شرمارہی تھی، میں نے سوچا کہ جو کچھ میں جانتی ہوں انھیں سنانا چاہیے اس لیے میں نے پوچھا، ’’کونسا گانا گاؤں۔‘‘

’’صاحب! جو آپ کی خوشی ہو گاؤ، میں کیا کہوں۔‘‘

اس جواب سے میرا دل بیٹھ گیا، مگر میں نے پھر ہمت کرکے کہا، ’’میں (Bulbul and the Rose) سناتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کے میں نے پیانو کے نوٹ پر نظر گاڑ کر، بجانا شروع کیا۔ پیانو سے ایک درد انگیز فریاد (یاد ہے، یہ مس میری کے الفاظ ہیں، وہ اس راگ کے بجانے کے وقت کہا کرتی تھیں کہ پیانو سے ( Plaintive Cry نکلتی ہے) نکلنا شروع ہوئی اور میں اس میں محو ہوگئی، غیاث الدین (میرے خاوند غیاث الدولہ، غیاث الملک کا یہ نام ہے، معاف کرنا بھول گئی، میں اب انٹروڈیوس کرتی ہوں) کچھ دیر تک پیانو کے قریب آکر کھڑے رہے، پھر آنکھیں اس طرح کھول دیں، گویا پیانو کے شور سے گھبرا رہے ہیں، لیکن سننے کی وضع قائم رکھی، دو ایک منٹ سنا بھی، آخر اس حالت میں نہ رہا گیا، بیٹھے، اٹھے، پھر بیٹھے، پھر اٹھے، ایک سگریٹ جلایا، پھر آہستہ آہستہ کمرے میں ٹہلنا شروع کیا۔ میں نے جب دیکھا تو راگ کے پہلے ٹکڑے کو تو خواہ نخواہ پورا کیا، اور آخری الفاظ کے لیے پردوں پر نہایت زور سے انگلی مار کر ختم کیا، ختم ہوتے ہی فرمایا، ’’ماشاءاللہ، بہت خوب، لیکن اب سونا چاہیے‘‘، کیا دل شکن داد ہے، اے بیداد! وہ یہ داد دے کر کپڑے بدلنے کے لیے چلے گئے اور وہاں سے بلی کی خر خر کی طرح یہ آواز آنے لگی۔

میں قربان زلفوں کے لٹکانے والے

مرے دل کو گلیوں میں بھٹکانے والے

اور میری نظروں میں یہ تصویر پھر گئی کہ مس میری اور دیگز کو مداری لال نے کیچڑ میں پھینک دیا ہے، اور خود خشکی پر کھڑا ہوا زور زور سے قہقہ لگا رہا ہے۔

سلما جانی! ذرا خیال کرنے کا مقام ہے۔ میں کہ دیوانہ وار ہوس کے ساتھ موسیقی کی عاشق ہوں اور سات آٹھ برس سے اسے سیکھ رہی ہوں، ہندوستانی راگ کتنے جانتی ہوں؟ مولانا حالی کا

’’اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے‘‘

اور غلام احمد خاں احمدی کا۔

’’آہمت مردانہ جگر میں تری جاہے

تو ہو مرے ہمراہ تو پروا مجھے کیا ہے

مت آنکھ چرا مجھ سے اگر شرط وفا ہے

سایہ ترے شہ پر کابہ ازبال ہما ہے‘‘

یا شاد یا مولانا محمد اسماعیل میرٹھی کی اور ایک آدھ نظم، جسے مس میری نے بدقت تمام اجازت دی تھی کہ ہم لوگ یاد کرلیں اور پیانو یاہارمونیم پر بجائیں کیونکہ وہ کہا کرتی تھیں کہ ہندوستانی راگ یاد کرنے سے تمہارا انگریزی مذاق بگڑ جائیگا۔

وہ ہیں کہ رات دن ہندی راگوں میں محو ہیں اب بنے تو کیسے بنے لطف تو جب آتا ہے، جب میں خیال میں مستغرق ہوکر اولڈ لینگ سائین (Old Lang Syne) گانے لگتی ہوں تو وہ فوراً کوئی گیت شروع کردیتے ہیں، جس میں ہجر، وفا، وصل، زخم، تیر یا سانولیا، رسیا، جوبن، سیان، پیان وغیرہ لفظوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ نہ وہ میری کہی کو سنتے ہیں، نہ میں ان کی کہی کو سمجھتی ہوں، کمرہ منارہ بابل ہوجاتا ہے، ایسے وقت میں اگر کہیں دردانہ خانم (یہ ایک ایرانی ماما ہے جسے والد ماجد کربلائے عملی کی زیارت سے واپسی کے وقت اپنے ساتھ لائے تھے اور جس نے مجھے پالا ہے) کمرے میں آگئی اور اس نے مجھ سے فارسی میں باتیں کرنی شروع کردیں، تو غیاث کا چہرہ پر غضب ہوجاتا ہے، آنکھیں انگارا ہوجاتی ہیں۔ ایک دن تو برس پڑے۔ میں لکھنے کی میز پر بیٹھی تھی، پیاس معلوم ہوئی تو میں نے درادانہ خانم کو آواز دی، اس نے سنا نہیں، مجھے غصہ آگیا، تو میں پوری آواز سے چلائی،

’’چار یک ساعت است، متصل صد امیکنم، کسے ملتفت نمی شود، پنبہ درگوش کردند مگر۔‘‘

وہ نہ معلوم کب کے بھرے بیٹھے تھے، کہ دوسرے کمرے سے برس پڑے، کہنے لگے۔

’’یا اللہ ہمارے کو سمجھ میں نہیں آتا، اپن طہران میں ہیں کہ لندن میں، اتنا ہم کو سمجھ میں آتا ہے کہ ہندوستان میں نہیں ہوں۔‘‘

میں چپ ہوگئی اور سخت نادم ہوئی، مگر میرا قصور کیا تھا، خیر مگر آیندہ سے میں ان کے سامنے دردانہ خانم سے کبھی کسی کام کو نہیں کہتی ہوں۔

ایک دن خود لہر میں جو آئے تو دردانہ خانم سے فارسی میں گفتگو فرمانے لگے، مگر فارسی کے گلے پر وہ کند چھری پھیری کہ مجھ سے دیکھا نہ گیا اور میں اٹھ کے دوسرےکمرے میں چلی گئی۔

سلما! سلما! آ میرے حال زار کو دیکھ! کھانے کے بعد متواتر زور سے ڈکار لینے والے آدمی کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہوں، کل جو خیال آیا تو دن بھر رویا کی، پیٹ پر ہاتھ پھیر کر ’’عا، عا‘‘ اونٹ کی طرح ڈکار لینا! اف، غضب، غضب، یہ میں سوائے تمھارے کسی کو نہیں لکھ سکتی اور اگر تم نے کوئی تدبیر نہ بتائی، تو تمہاری عذرا گھل گھل کر مرجائے گی۔۔۔

ایک دن نہ معلوم کس طرح ادبیات کا ذکر آگیا، پوچھنے لگے۔ تمہارے کو اردو کا کونسا شاعر اچھا معلوم ہوتا ہے؟ یہ ایسا بیڈھب سوال تھا کہ میں بہت گھبرائی، صاف یوں ہے کہ میں نے اردو کی ادبیات سے بہت ہی کم فائدہ اٹھایا ہے، میں تو یہی سنا کرتی تھی کہ اردو کی ادبیات بہت خراب ہیں، اخلاق بگاڑتی ہیں، مدرسے میں سوائے مولانا حالی کے (کہ ان کا بھی کلام نہایت مختصراور منتخب پڑھایا جاتا تھا) اور کسی شاعر کا نام سنا نہیں بس میں نے بغیر اس خیال کے کہ دوسرے شاعروں سے مقابلہ کیا نہیں، یہ کہہ دیا۔

’’مولانا حالی کو‘‘

’’حالی کو پسند کرنے کی وجہ؟‘‘

سمجھیں؟ یعنی وہ ہمہ تن سوال تھے، اور میں ہمہ تن استعجاب؟ اور اس طرح ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

میرے پاس کیا جواب تھا کہ میں دیتی۔

آخر کہنے لگے، ’’میں حالی کو تو کچھ بھی نہیں پسند کرتا، ہم قافیہ نثر لکھتے ہیں۔ میرے کو ’’پیام یار’’ میں غزلیں لکھنے والے سب پسند ہیں اور داغ کے کلام کا تو کیا کہنا، واہ واہ سب سے اچھا ہے، کیا ہجر، کیا وصل کی تصویریں ہیں، کیا معاملہ ہے، کیا چوچلا، آغا شاعر بھی بہت اچھا ہے۔‘‘

پھر کہنے لگے، ’’یہ کیا بات ہے تم مدرسے میں پڑھی ہو؟ لیکن داغ کو نہیں جانتیں۔‘‘

اس پر مجھے بھی غصہ آگیا، اور میں نے جواب دیا، ’’بیشک! لیکن آپ بھی تو شیکسپیئر اور ملٹن سے واقف نہیں۔‘‘

انھوں نے تڑپ کر جواب دیا ’’میں انگریز ہوتا تو بیشک واقف ہوتا۔‘‘ بس اس پر ہم دونوں چپ ہوگئے، میرے ہونٹوں کو داغ نے سی دیا، ان کے ہونٹوں پر ملٹن نے مہر سکوت لگادی۔

غرض یوں بسر ہوتی ہے، میں تو سمجھتی ہوں کہ کسی غیر ملک باشندے کے ساتھ میری شادی ہوئی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ہندوستانی بی بی نہیں ملی۔

ابا جان کی بے پروائی سے تم واقف نہیں۔ عجب بے پروا آدمی ہیں۔ اماں جانی نمایش پرست، دولت پرست ہیں۔ میں یہاں کیوں بیاہی گئی؟ اس سوال کے جواب کی غالباً اب ضرورت نہ رہی ہوگی۔

اس شادی پر جب کبھی غور کرتی ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ میں کنوئیں میں دھکیل دی گئی، اور ماں نے مجھے کنوئیں میں دھکیلا، پہلے یہ ارادہ کرلیا کہ مجھے کنوئیں میں دھکیلیں گی اور پھر پہلا موقعہ جو انھیں ہاتھ آیا اسے نہ جانے دیا اور میری پیٹھ پر ایسے زور سے دھکا مارا کہ میں سر کے بل اندر گرپڑی، زندگی کچھ نہیں؟ ہاں بیشک، مگر زندگی سب کچھ ہے؟ اس کے لیے بھی ہاں بیشک، بات یہ ہے کہ میں اب عقل ہی نہیں رکھتی کہ کسی چیز میں ٹھیک محاکمہ کرسکوں۔

کیا عجب بات ہے، میری سلما! عجیب بات ہے کہ جس شخص کی قابلیت، حالت تربیت ایسی ہو کہ وہ کہا جاسکے کہ یہ دنیا میں ضرور خوش قسمت اور خوش حال رہیگا۔ وہی بدبخت، ناکام، ناشاد رہتا ہے اور آخر عمر میں اس نتیجہ کو پہنچتا ہے کہ دنیا میں خوبی، امید وسعادت نہیں ہے، برخلاف اس کے، وہ جو ہر طرح سے ناقص ہے، ناکارہ ہے۔ بے علم ہے، وہ خوش قسمت رہتا ہے۔ا پنی زندگی میں کامران، شادمان اور ہر طرح کی خوبی اس کے لیے دوڑی ہوئی آتی ہے. مثلاً میں خدا کے فضل سے اچھے گھر میں پیدا ہوئی، اچھی طرح پلی، تعلیم پائی! بیاہی گئی تو سب کہتے تھے کہ کیا قسمت ہے، واہ ایسا بڑا گھرانا، ایسی بڑی ثروت، ایسی بڑی دولت یہ لڑکی بہت خوش رہے گی۔‘‘ لیکن میں اسی حسرت میں مررہی ہوں کہ کاش غیاث نے میری طرح اعلی تعلیم و تربیت حاصل کی ہوتی، لیکن وہ ہیں کہ شام کو نوکروں پر گالیوں کی بوچھاڑ، ناٹک کے گانوں کے عاشق زار، گھوڑ دوڑ کے اور اس میں جوا کھیلنے کے دلدادہ، یہ حالت دیکھ کر تمام امیدوں کا خون ہوجاتا ہے۔

میں خوش قسمت ہوں یا بدقسمت؟ تمھیں ان تین مہینے کے واقعات میں جو میں نے تمھیں لکھے ہیں پڑھ کر بتاؤ اور یہ بھی بتاؤ کہ میں کیا کروں کس راستے پر چلوں اسے اپنے راستہ پر لاؤں یا اس دیو پر اپنی جان ضائع کردوں۔

بعض لحاظ سے دیکھا جائے تو میر اخاوند برا نہیں، نہایت امیر ہے اور چونکہ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے اس لیے کل دولت کا خود ہی مالک ہے۔ حیدرآباد کے مدرسے میں کچھ دن گزارے ہیں اس لیے پڑھ لکھ بھی سکتا ہے، اس کی شکل کی کیفت شاید میں اوپر لکھ چکی ہوں، ویسے بھی تم نے اس خط سے اس کی تصویر ذہن میں کھینچ لی ہوگی، سراپا صحت ہے، اس قدر قوی کہ پہلوان معلوم ہوتا ہے، آواز بھاری گویا ہاتھی پانی پی رہا ہے، بال موٹے موٹے بڑی بڑی موچھیں، چوڑی چوڑی بھویں، باہر کو نکلی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں سیاہ اور چمکیلی اور خوفناک اس کے جسم و طبیعت کی تمام ہیئت مادی ان آنکھوں میں جمع ہوگئی، دن کو جب وہ باہر چلا جاتا ہے تو بھی میں ڈر ڈر کے نفرت کرکرکے ان آنکھوں کا خیال کیا کرتی ہوں، جو مجھے گھورتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کیونکہ غیاث مجھے بے انتہا بیتابی کے ساتھ چاہتا ہے اور اس محبت سے مجھے وحشت ہوتی ہے تم جانتی ہو کہ مجھے انسان کے کل اعضا میں آنکھیں بہت پسند ہیں، خدا نے اچھی آنکھیں کچھ عجب شے بنائی ہیں، لیکن اس کو دیکھیے کہ آنکھیں ہی مجھے نفرت اور خوف دلارہی ہیں۔

یہ آنکھیں، یہ ڈکار، یہ آواز، یہ ’’دونوں ہاتھوں میں مہندی لگالے پری‘‘ کا عشق، کچھ نہیں سوجھتا کہ کہاں پناہ لوں۔

اب ان کی طبیعت کا حال سنئے، نچلا خاموش کبھی بیٹھا ہی نہیں جاتا، ہر بات میں دخل درمعقولات کی بے انتہا شوق ہے۔ سیاہ ابر کی طرح گھر پر چھایا ہوا معلوم ہوتا ہے، بے انتہا باتونی، مگر شاید میں دسویں حصے کو بھی کان دھر کر نہیں سنتی، کیا عمر بھر یوں ہی زندگی گذرےگی؟ میں اس بوجھ کو یوں ہی اٹھاؤں گی۔ میں ایسے خاوند کی تو تمنا نہ رکھتی تھی، ایسا خاوند نہ چاہتی تھی، مگر انسان جو نہیں چاہتا وہی اسے ملتا ہے۔

ممکن ہے کہ میرا جسم اس کے جسم سے نفرت نہ کرے مگر میں تمھیں یقین دلاتی ہوں کہ میری روح، میری طبیعت، اس کی روح، اس کی طبیعت سے ہمیشہ ہمیشہ اور پوری پوری نفرت کرے گی۔ باقی تم سے ملنے اور تمھیں ہزار بار چومنے اور زبانی درد دل سنانے کی تمنا۔

تمہاری

عذرا

مأخذ : خیالستان


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.