صبح ہو شام جدائی کی یہ ممکن ہی نہیں
Appearance
صبح ہو شام جدائی کی یہ ممکن ہی نہیں
ہجر کی رات وہ ہے جس کے لیے دن ہی نہیں
صبح کرنا شب غم کا کبھی ممکن ہی نہیں
آ کے دن پھیر دے اپنے وہ کوئی دن ہی نہیں
دل بے تاب محبت کو ہو کس طرح سکوں
دونوں حرفوں میں جب اس کے کوئی ساکن ہی نہیں
کیا مذمت ہے مجھے صبح شب ہجر ان سے
جن سے کہتا تھا کہ بچنا مرا ممکن ہی نہیں
شب فرقت اسے موت آ گئی میرے بدلے
دے اذاں صبح کی کون آج موذن ہی نہیں
بستر غم سے اٹھا کر یہ بٹھاتا ہے ہمیں
کوئی جز درد جگر اور معاون ہی نہیں
راہ چلتے بھی یہ پوچھیں کہ کدھر آ نکلے
جیسے ہم کوچۂ محبوب کے ساکن ہی نہیں
یاد گیسو نے دکھایا ہے وہ عالم ہم کو
رات رہتی ہے جہاں آٹھ پہر دن ہی نہیں
بندۂ عشق ہیں ایمان کی کہتے ہیں جلالؔ
ہم کو کافر جو سمجھتا ہے وہ مومن ہی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |