صاف قاصد کو واں جواب ملا
Appearance
صاف قاصد کو واں جواب ملا
میرے خط کا یہی جواب ملا
آج ذرے کو آفتاب ملا
کہ مجھے ساغر شراب ملا
کہتے ہیں صبح دم وہ دیکھ کے منہ
جائے آئینہ آفتاب ملا
بے ثبات اپنی بزم عیش جو ہے
شیشۂ مے کی جا حباب ملا
بخت نے پائی جب کہ بیداری
میرے پائے طلب کو خواب ملا
ہو گیا دل جو آبلہ ساقی
سمجھے ہم شیشۂ شراب ملا
گور بھی کھد رہی ہے مہر کے ساتھ
آپ خوش ہو گئے خطاب ملا
کب سے ناسخؔ یہ جستجو ہے مجھے
آج وہ خانماں خراب ملا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |