Jump to content

شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے

From Wikisource
شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے
by پنڈت جواہر ناتھ ساقی
317242شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہےپنڈت جواہر ناتھ ساقی

شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے
ادھر تو یہ قتل عام دیکھا ادھر وہ کیسی کٹا چھنی ہے

ہوا ہے نیرنگ آج کیسا یہ دل میں قاتل کے کیا ٹھنی ہے
جدھر سے گزرا زباں سے نکلا یہ کشتنی ہے وہ کشتنی ہے

بگڑ کے ہم کو بگاڑ ڈالا سنوارنا ہی تمہیں نہ آیا
بنو جو منصف بتائیں دل بر کہ اس بگڑنے سے کیا بنی ہے

کبھی ہنساتی ہے یاد تیری کبھی رلاتا ہے ہجر تیرا
یہ قابل دید ہے تماشا یہ سیر بے مہر دیدنی ہے

سنا ہے مقتل میں آج کوئی قتیل حسرت شہید ہوگا
ہوئی جو شہرت یہ شہر میں ہے ہر اک طرف ایک سنسنی ہے

کرم ہے دریا دلوں کی زینت کہاں بخیلوں کی ہے یہ طینت
اسے تونگر نہیں کہیں گے جو کوئی محتاج دل غنی ہے

شکست پیماں کا ہم کو عادی کیا ہے اک مست نوش لب نے
بہ مصلحت ہم ہوئے ہیں تائب یہ توبہ آخر شکستنی ہے

دکھا کے ہم کو جمال رعنا کیا ہے کیوں رہ نورد وحشت
بنے تھے خود رہنما ہمارے یہ رہبری میں بھی رہزنی ہے

طریق ان کا ہی صلح کل ہے جو بے ہمہ با ہمہ نظر ہیں
ہمیں یہ برتاؤ نے دکھایا کہ دوستی میں بھی دشمنی ہے

وفا شعاری ہے جاں نثاری ہے عذر شکوہ نہ عرض مطلب
ہمیں ہیں اک بے نظیر طالب حریف جو ہے وہ یک فنی ہے

وہ آیا تربت پہ بے وفا گل ہر اک سے افسردہ ہو کے پوچھا
یہ کس کی مشہد پہ ہے چراغاں جو عبرت انگیز روشنی ہے

فنائے قلبی ہے فتح عینی ہوا ہے گر محو شرح صدری
یہی ہے مفتاح دل کشائی یہ کشف باطن کی جانکنی ہے

ہوئے جو یہ مبتلائے الفت اسیر دام وصال کے ہیں
ہوائے زلف خیال جاناں بنی ہوئی طوق گردنی ہے

یہ کس قلندر کو مار ڈالا غضب کیا جامہ پوش نخوت
کھڑا ہوا رو رہا ہے جذبہ گری ہوئی پاک دامنی ہے

کبھی نہ ہوں گے مرید جدت نہیں ہیں مشتاق حسن بدعت
ہمارا مشرب ہے صوفیانہ ہمارا مذہب سناتنی ہے

کیا ہے عبرت مثال کیسا خیال عبرت نظر نے ہم کو
کریں تعلق کسی سے کیا ہم جو شکل دیکھی گزشتنی ہے

صفات میں ذات ہے نمایاں ہوئی وہ بالغ نظر ہے نسبت
کیا ہے محو جمال جاناں یہ سیر قلبی کی روشنی ہے

نہ ہوں غرابت اثر یہ اے دل نقوش نیرنگ شان فطرت
کوئی ہوا بے نیاز عالم کوئی ہے مفلس کوئی غنی ہے

ہوئے نہ ایثار و بذل سے اے کریم ہم مستفیض اب تک
تمہارا شیوہ جو ہے سخا کا پسند اخلاق محسنی ہے

فراق گل سے جو نالہ کش ہے قفس میں بلبل شہید جلوہ
بہار گلشن خزاں نما ہے جنوں زدہ ابر بہمنی ہے

ملا نہ جام شراب ساقیؔ کوئی قدح بنگ کا عطا ہو
ہمارے پیر مغاں خضر ہیں سبو میں سبزی بھی تو چھنی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.