شہزادے کا بازار میں گھسٹنا
یہ دہلی جس کو ہندوستان کا دل اور حکومت کا تخت گاہ کہتے ہیں، جب آباد تھی اور لال قلعہ میں مغلوں کی آخری شمع ٹمٹما رہی تھی، آفت اور بلا میں مبتلا ہونے کو آئی تو پہلے اس کے باشندوں کے عمل میں فرق آیا۔ الناس علی دین ملوکھم۔ پہلے حاکموں کے اعمال خراب ہوئے۔ اس کی رعیت بھی بداعمالیوں میں پڑ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ راجا پرجا دونوں برباد ہو گئے۔ مثالیں ہزاروں ہیں مگر ذیل میں ایک نہایت عبرتناک کہانی سنا کر میں باشندگان ہند کو عموماً اور مسلمانوں اور صوفیوں کو خصوصاً خدا کے خوف سے ڈراتا ہوں۔(۱)غدر سے ایک برس پہلے کا ذکر ہے۔ دہلی سے باہر جنگل میں شہزادے شکار کھیلتے پھر تے تھے اور بے پرواہی سے چھوٹی چھوٹی چڑیوں اور فاختاؤں کو، جو دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے درختوں کی ہری بھری ٹہنیوں پر خدا کی یاد میں تسبیحاں پڑھ رہی تھیں، غلے مار رہے تھے کہ سامنے سے ایک گدڑی پوش فقیر آ نکلا اور اس نے نہایت ادب سے شہزادوں کو سلام کر کے عرض کیا کہ ’’میاں صاحبزادو! ان بے جان جانوروں کو کیوں ستاتے ہو۔ انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ ان کے بھی جان ہے۔ یہ بھی تمہاری طرح دکھ اور تکلیف کی خبر رکھتے ہیں مگر بے بس ہیں اور منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تم بادشاہ کی اولاد ہو۔ بادشاہوں کو اپنے ملک کے رہنے والوں سے محبت اور مہربانی برتنی چاہئے۔ یہ جانور بھی ملک میں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی رحم اور انصاف برتا جائے تو شان بادشاہی سے دور نہیں۔‘‘بڑے شہزادے نے جس کی عمر اٹھارہ برس کی تھی، شرما کر غلیل ہاتھ سے رکھ دی مگر چھوٹے مرزا نصیر الملک بگڑ کر بولے، ’’جا رے جا۔ دو ٹکے کا آدمی ہم کو نصیحت کرنے نکلا ہے۔ تو کون ہوتا ہے ہم کو سمجھانے والا، سیر و شکار سب کرتے ہیں، ہم نے کیا تو کون سا گناہ ہو گیا۔ فقیر بولا، ’’صاحب عالم ناراض نہ ہوں۔ شکار ایسے جانور کا کرنا چاہئے کہ ایک جان جائے تو دس پانچ جانوں کا پیٹ تو بھرے۔ ان ننھی چڑیوں کے مارنے سے کیا نتیجہ۔ بیس ماروگے تب بھی ایک آدمی کا شکم سیر نہ ہوگا۔‘‘ نصیر مرزا فقیر کے دو بارہ بولنے سے آگے بگولا ہو گئے اور ایک غلہ غلیل میں رکھ کر فقیر کے گھٹنے میں اس زور سے مارا کہ بیچارہ منہ کے بل گر پڑا اور بے اختیار اس کی زبان سے نکلا کہ ’’ہائے ٹانگ توڑ ڈالی۔‘‘فقیر کے گرتے ہی شہزادے گھوڑوں پر سوار ہو کر قلعے کی طرف چلے گئے اور فقیر گھسٹتا ہوا سامنے کے قبرستان کی طرف چلنے لگا۔ گھسٹتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، ’’وہ تخت کیوں کر آباد رہے گا جس کے وارث ایسے سفاک ظالم ہیں۔ لڑکے تو نے میری ٹانگ توڑ دی، خدا تیری بھی ٹانگیں توڑے اور تجھ کو بھی اس طرح گھسٹنا نصیب ہو۔‘‘(۲)توپیں گرج رہی تھیں۔ گولے برس رہے تھے۔ زمین پر چاروں طرف لاشوں کے ڈھیر نظر آتے تھے۔ شہر دہلی ویران اور سنسان ہوتا جاتا تھا کہ لال قلعہ سے پھر وہی چند شہزادے گھوڑوں پر سوار بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے نظر آئے اور پہاڑ گنج کی طرف جانے لگے۔ دوسری طرف بیس پچیس گورے سپای دھاوا کرتے چلے۔ انہوں نے ان نوعمر سواروں پر یک لخت بندوقوں کی باڑ ماری۔ گولیوں نے گھوڑوں اور سواروں کو چھلنی کردیا اور یہ سب شہزادے فرش خاک پر گر کر خون میں تڑپنے لگے۔گورے جب قریب آئے تو دیکھا وہ شہزادے جاں بحق ہو چکے ہیں مگر ایک سانس لے رہا ہے۔ ایک سپاہی نے زندہ شہزادے کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تو معلوم ہوا کہ اس کے کہیں زخم نہیں آیا۔ گھوڑے کے گرنے سے معمولی کھر ینچیں آگئی ہیں اور دہشت کے مارے غشی طاری ہوگئی ہے۔ صحیح سالم دیکھ کر گھوڑے کی باگ ڈور سے شہزادے کے ہاتھ باندھ دیے گئے اور حراست میں کر کے دو سپاہیوں کے ساتھ کمپ میں بھجوا دیا گیا۔ کمپ پہاڑی پر تھا جہاں گوروں کے علاوہ کالوں کی فوج بھی تھی۔ جب بڑے صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ بادشاہ کا پوتا نصیر الملک ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور حکم ہوا کہ اس کو حفاظت سے رکھا جائے۔(۳)باغیوں کی فوجیں شکست کھا کر بھاگنے لگیں اور انگریزی لشکر یلغار کرتا ہوا شہر میں گھس گیا۔ بہادر شاہ ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار ہو گئے۔ تیموری بزم کا چراغ جھلملا کر گل ہو گیا اور جنگل شریف زادیوں کے برہنہ سروں اور کھلے چہروں سے آباد ہونے لگا۔ باپ بچوں کے سامنے ذبح ہونے لگے اور مائیں جوان بیٹوں کو خاک و خون میں لوٹتا دیکھ کر چیخیں مارنے لگیں۔اسی داروگیر میں پہاڑی کمپ پر مرزا نصیر الملک رسی سے بندھے بیٹھے تھے کہ ایک پٹھان سپاہی دوڑا ہوا آیا اور کہا، ’’ جائیے، میں نے آپ کی رہائی کے لیے صاحب سے اجازت حاصل کر لی ہے۔ جلدی بھاگ جاؤ، ایسا نہ ہو کہ دوسری بلا میں پھنس جاؤ۔‘‘مرزا بچارے پیدل چلنا کیا جانیں۔ حیران تھے کہ کیا کریں، لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ پٹھان کا شکریہ ادا کرکے نکلے اور جنگل کی طرف ہو لیے۔ چل رہے تھے مگر یہ خبر نہ تھی کہاں جاتے ہیں۔ ایک میل چلے ہوں گے کہ پیروں میں چھالے پڑ گئے۔ زبان خشک ہوگئی۔ حلق میں کانٹے پڑنے لگے۔ تھک کرا یک درخت کے سائے میں گرپڑے اور آنکھوں میں آنسو بھر کر آسمان کی طرف دیکھا کہ الٰہی یہ کیا غضب ہم پر ٹوٹا۔ ہم کہاں جائیں، کدھر ہمارا ٹھکانہ ہے۔ اوپر نگاہ اٹھائی تو درخت پر نظر گئی۔ دیکھا کہ فاختہ کا ایک گھونسلا بنا ہوا ہے اور وہ آرام سے اپنے انڈوں پر بیٹھی ہے۔ اس کی آزادی اور آسائش پر شہزادے کو بڑا رشک آیا اور کہنے لگے کہ فاختہ مجھ سے تو تو لاکھ درجے بہتر ہے کہ آرام سے اپنے گھونسلے میں بے فکر بیٹھی ہے۔ میرے لیے تو آج زمین آسمان میں کہیں جگہ نہیں ہے۔تھوڑی دور ایک بستی نظر آتی تھی۔ ہمت کر کے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔ اگر چہ پاؤں کے چھالے چلنے نہ دیتے تھے مگر لشتم پشتم گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو عجیب سماں نظر آیا۔ ایک درخت کے نیچے سینکڑوں گنوار جمع تھے اور چبوترہ پر ایک تیرہ سال کی معصوم لڑکی بیٹھی تھی جس کے چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، کان لہو لہان ہو رہے تھے اور دہقانی اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ جونہی مرزا کی نگاہ اس بچی پر پڑی اور اس بچاری نے مرزا کو دیکھا، دونوں کی چیخیں نکل گئیں۔بھائی بہن کو اور بہن بھائی کو چمٹ کر رونے لگے۔ مرزا نصیر الملک کی یہ چھوٹی بہن اپنی والدہ کے ساتھ رتھ میں سوار ہو کر قلعہ سے قطب صاحب کو چلی گئی تھیں۔ مرزا کو گمان بھی نہ تھا کہ وہ اس آفت میں مبتلا ہوگئی ہوں گی۔ پوچھا، ’’ملکہ! تم یہاں کہاں؟‘‘ رو کر بولی، ’’آکا جی! گوجروں نے ہم کو لوٹ لیا، نوکروں کو مار ڈالا، اماں جان کو دوسرے گاؤں والے لے گئے اور مجھ کو یہاں لے آئے۔ میری بالیاں انہوں نے نوچ لیں۔ میرے طمانچے ہی طمانچے مارے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر لڑکی کی ہچکی بند ھ گئی اور پھر کوئی لفظ اس کی زبان سے نہ نکلا۔بے کس شہزادے نے اپنی غریب بہن کو دلاسا دیا اور ان گنواروں سے عاجزی کرنے لگا کہ اس کو چھوڑ دو۔ گو جر بگڑ کر بولے، ’’ارے جا۔ آیا بڑا بچارا۔ ایک گنڈاسا ایسا ماریں گے کہ گردن کٹ جائے گی۔ اس کو ہم دوسرے گاؤں سے لائے ہیں۔ لا دام دے جا اور لے جا۔‘‘ مرزا نے کہا، ’’چودھر یو! دام کہاں سے دوں۔ میں تو خود تم سے روٹی کا ٹکڑا مانگنے کے قابل ہوں۔ دیکھو ذرا رحم کرو۔ کل تم ہماری رعیت تھے اور ہم بادشاہ کہلا تے تھے۔ آج آنکھیں نہ پھیرو۔ خدا کسی کا وقت نہ بگاڑے۔ اگرہمارے دن پھر گئے تو مالا مال کر دیں گے۔‘‘ یہ سن کر گنوار بہت ہنسے اور کہنے لگے، ’’اوہو! آپ بادشاہ سلامت ہیں۔ تب تو ہم تم کو فرنگیوں کے ہاتھ بیچیں گے اور یہ چھوکری تو اب ہمارے گاؤں کی ٹہل کرے گی۔ جھاڑو دے گی۔ ڈھوروں کے آگے چارہ ڈالے گی، گوبر اٹھائے گی۔‘‘یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سامنے سے انگریزی فوج آگئی اور گاؤں والوں کو گھیر لیا اور چار چودھریوں کو اور ان دونوں شہزادے شہزادی کو پکڑ کر لے گئے۔(۴)چاندنی چوک کے بازار میں پھانسیاں گڑی ہوئی تھیں اور جس کو انگریز کہہ دیتے کہ یہ قابل دار ہے، اسی کو پھانسی مل جاتی تھی۔ ہر روز سینکڑوں آدمی دار پر لٹکائے جاتے۔ گولیوں سے اڑائے جاتے اور تلوار سے ذبح ہوتے تھے۔ ہر طرف اس خون ریزی سے تہلکہ تھا۔ مرزا نصیر الملک اور ان کی بہن بھی بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئے اور صاحب نے ان دونوں کو خورد سال دیکھ کر بے قصور سمجھا اور چھوڑ دیا۔ دونوں نجات پا کر ایک سوداگر کے ہاں نوکر ہوگئے۔ لڑکی سودا گر کے بچے کو کھلاتی تھی اور نصیر الملک بازار کا سودا سلف لایا کرتے تھے۔ چند روز کے بعد لڑکی تو ہیضہ میں مبتلا ہوکر مر گئی اور مرزا کچھ دن ادھر ادھر نوکر یاں چاکر یاں کرتے رہے۔ آخرکار سرکار نے ان کی پانچ روپیہ ماہوار پنشن مقرر کر دی اور نوکری کے وبال سے مرزا نصیر الملک کو سبکدوشی حاصل ہوگئی۔(۵)ایک برس کا ذکر ہے۔ دہلی کے بازار چتلی قبر کمرہ بنگش وغیرہ میں ایک پیر مرد جن کا چہرہ چنگیزی نسل کا پتہ دیتا تھا، کولہوں کے بل گھسٹتے پھرا کرتے تھے۔ ان کے پاؤں شاید فالج سے بیکار ہوگئے تھے، اس لیے ہاتھوں کو ٹیک کر کولہوں کو گھسیٹتے ہوئے راستے میں چلتے تھے۔ ان کے گلے میں ایک جھولی ہوتی تھی۔ دو قدم چلتے اور راہ گیروں کو حسرت سے دیکھتے، گویا آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنی محتاجی ظاہر کرکے بھیک مانگتے تھے۔ جن لوگوں کو حال معلوم تھا، ترس کھا کر جھولی میں کچھ ڈال دیتے تھے۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ ان کا نام مرزا نصیر الملک ہے اور یہ بہادر شاہ کے پوتے ہیں۔ سرکاری پنشن قرضے میں برباد کردی اور اب خاموش گدا گری پر گذارہ ہے۔مجھ کو ان کے حال سے عبرت ہوتی تھی اور جب ان کا ابتدائی قصہ جو کچھ خود ان کی زبانی اور کچھ دوسرے شہزادوں کی زبانی سنا تھا، یاد آتا تھا تو دل دہل جاتا تھا کہ اس فقیر کا کہنا پورا ہوا، جس کی ٹانگ میں انہوں نے غلہ مارا تھا۔ شہزادہ صاحب کا بازار میں گھسٹتا ہوا پھرنا سخت سے سخت دل کو موم کر دیتا تھا اور خدا کے خوف سے جی کانپ جاتا تھا۔ اب ان شہزادہ صاحب کا انتقال ہوگیا۔ کیا اس سچے اور تازے قصے سے ہمارے دولت مند بھائی عبرت نہیں پکڑیں گے اور اپنے غرور و تکبر کی عادت کو ترک نہیں کریں گے، جبکہ ان کے سامنے تکبر کرنے والوں کا انجام موجود ہے۔سب سے زیادہ مجھے مشایخ کی اولاد کو متنبہ کرنا ہے، جو مریدوں کے ہاتھ پیر چومنے سے تباہ ہوجاتے ہیں اور ا پنے سامنے کسی کی ہستی نہیں سمجھتے۔ اپنے بزرگوں کی کمائی پر بھروسہ کرنا اور کچھ قابلیت نہ پیدا کرنا، انسان کو ایک دن اسی طرح ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ ہر پیر زادہ کو چاہیے کہ وہ، وہ کام سیکھے جس کے سبب اس کے بزرگ پیر کہلاتے تھے۔ محض پیر زادگی کے طفیل نذرو نیاز کا امید وار رہنا اور اپنی ذات میں نذر لینے کی لیاقت پیدا نہ کرنا حد درجہ کی بے غیرتی ہے۔ میں نے بعض مرشد زادوں کو دیکھا ہے کہ وہ بچپن سے شاہانہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور مرید کو اپنے باپ کی رعیت سمجھ کر حکمرانی کرتے ہیں، لیکن جس طرح زمانہ نے دنیاوی حکومت کے تاج و تخت کو مٹا دیا اور شہزادوں سے گلی کوچوں میں بھیک منگوا دی، اسی طرح نئے زمانہ کا الحاد دینی بادشاہت یعنی درویشی کے برباد کرنے پر آمادہ ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ تخت جنبش میں آئے اور پیر زادوں کو شہزادوں کی طرح کہیں ٹھکانا نہ ملے۔ اس لئے چاہیے کہ وقت سے پہلے سب ہوشیار ہو جائیں اور اپنے احوال و اعمال کو درست کر کے غنیم کا دلیری سے مقابلہ کریں اور اپنی پر امن اقلیم کو ہر طرح محفوظ و برقرار رکھیں۔ یہی میں اب کہتا ہوں اور یہی اس وقت کہتا رہوں گا جب تک زبان و قلم یاری دیں۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |