شگوفہ محبت/نامۂ سلطان فیروز کوہ پُرشکوہ کا طعن آمیز شکایت بیز شورش انگیز سمت والیِ قاف بعزم مصاف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

نامۂ سلطان فیروز کوہ پُرشکوہ کا طعن آمیز شکایت بیز شورش انگیز سمت والیِ قاف بعزم مصاف


بعد حمد خالق انس و جان و نعت حضرت سلیمانؑ لکھا تھا کہ درینولا ہم نے سنا ہے کہ تم نے کاشانۂ دولت خانۂ مذلت نئی صورت سے آباد کیا ہے یعنی غیر جنس قسم بشر کو داماد کیا ہے۔ بایں شوکت و شان کہ سلطان ابن سلطان ہو، سلطنت کی وقعت شاہی کی شوکت خاک میں ملائی۔ عجب پوچ لچر حرکت تم سے ظہور میں آئی۔ یہ حماقت کثرتِ سِن کی ہے، زندگی چار دن کی ہے۔ اس پر کلنک کا ٹیکا پیشانی پر لگایا، ننگ و ناموس کا پاس ہم سے خوف و ہراس نہ آیا۔ نہ یہ سوچے کہ سلطنت جاتی رہے گی، خلقت ہم کو کیا کہے گی۔ باہم کا رنج و ملال مُنجِز بجنگ و جدال ہوگا۔ ہزاروں کی مفت میں جان جائے گی۔ بے گناہوں کے خون کا گردن پر وبال ہوگا۔ روزِ رستخیز جس دم حرارت آفتاب تند و تیز ہوگی، جوابدہی میں بریز بریز ہوگی۔ سریر آرا مُسن ہو کے ذی اعتبار ہوتا ہے نہ کہ تمھاری طرح سے زیست بیکار کھو کے رعایا کی نظر میں ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ بادشاہ کو لازم ہے وہ بات کرے رعیت جس کو سند جانے، یا مضحکہ ہونے لگے اس فعل کو بد از حد جانے۔ معلوم ہوا کوئی تازہ مشیر پواج ہوا ہے جو اس قبیح امر کا رواج ہوا ہے۔ کچھ دنوں میں پریاں بنی آدم کو شہروں سے اٹھا لائیں گی، مزے اڑائیں گی، پرستان میں غیر جنس کے جوڑے پیدا ہوں گے۔ مخنث بچے تھوڑے پیدا ہوں گے۔ کس منہ سے منع کرو گے، ان کو بُرا کہو گے۔ گریبان میں منہ ڈال کے کیا کہو گے۔ خدا نہ کرے بادشاہ سے خلاف وضع حرکت سرزد ہو بچشم کم خلق اس کو دیکھنے لگے، زبان زد نیک و بد ہو، والی ملک کا فعل دستور العمل ہوتا ہے: الناسُ علیٰ دین مُلوکھم۔ تم نے شیطان کی تحریک سے وہ کام کیا جس سے آبرو میں خلل ہوتا ہے۔ سُنا نہیں بشر کی خلقت یشر عالم میں اسی کے ذات سے تمام شور و شر ہے۔ جو ذی حیات ہے اس کی ذات سے اس کو ضرر ہے۔ کُشت و خون کہ یہ کام سب سے زبون ہے، اس کا رواج انسان سے ہے۔ عداوت قلبی قوم بنی جان سے ہے۔ یہ بکھیڑا تمھارے وقوف پر موقوف رہا۔ لازم ہے کہ بمجرد ورود نامہ خائن متاع عصمت آوردہ علامہ طوق و زنجیر ہوگی، قید شدید میں اسیر ہوگی۔ بے آب و دانہ حضور میں روانہ ہو، ورنہ سرانِ سپاہ یلان ترقی خواہ کہ نشۂ جرأت میں دیوانہ وار سر شار ہیں، خلاف کلمے جو سنے ہیں، آمادۂ حرب مستعد پیکار ہیں، مثل قضائے مبرم اُسی جا سمجھو۔ تمہاری مملکت کا ہر قریہ و دہ دھاوے سے ویران ہوگا، بڑا گھمسان ہوگا۔ پھر عذر بیجا قبول نہ ہوگا، خفت کے سوا دشمنوں کو حصول نہ ہوگا ؂

مجنبان مرا تا نہ جنبد زمین

ہمیں گویمت باز گویم ہمیں


والسلام ۔

نامہ تمام ہوا۔ جس وقت یہ تحریر سراسر خلاف اور عزم مصاف تاجدار قاف کے گوش زد ہوئی، دل صفا منزل مکدر ہوگیا، طبیعت منغص از حد ہوئی۔ فرط غضب سے ابرو میں بل آیا۔ پیشانی پر شکن پڑی، مزاج بگڑا۔ بجز جواب درشت مصلحت نہ بن پڑی۔ وزیر صاحب تدبیر سے فرمایا: یہ بات تازی نہیں، جواب ترکی ترکی ہوتا ہے، ناحق وہ سلطنت کھوتا ہے۔ اسی دم کاتب آئے، اس کا نوشتہ تقدیر لکھا جائے۔ منشی حاضر ہوا۔ نیستان قلمدان سے نیزۂ واسطی اٹھا کے صفحۂ قرطاس کو فقرات دلیرانہ کلمات رستمانہ سے دشت نبرد بنایا، جوہر تیغ زبان چستیِ مضمون بران تیزی دست دکھا کے سہام خامہ کو دم اختتام لب معشوق پہنچایا۔