شگوفہ محبت/صلاح سے دبیر خجستہ تدبیر کی ایلچی روانہ کرنا آذر شاہ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

صلاح سے دبیر خجستہ تدبیر کی ایلچی روانہ کرنا آذر شاہ کا خاقان چین کو اور نامہ مسلل لکھنا منشی ترقی خواہ کا، طلب کرنا اُس مہ جبین کو


پس از حمد و سپاس خالق دو جہان، صانع انس و جان جس نے یہ خیمۂ زنگاری بے چوب و ریسمان ایستاد کیا اور ستاروں کی گلکاری بے مدد دست و قلم دکھا کے خاک کا فرش بروئے آبِ رواں ایجاد کیا اور اپنی صنعت نادر نگار سے فیضِ ترشح ابر بہار سے زمین کو پہنچا کے قوت نامیہ عطا کی۔ کیا کیا سرو شمشاد، نسرین و نسترن نے اس بے بنیاد گلشن میں سر اٹھایا اور کون کون سا گل بوٹا اس خاکدان پُر محن میں کھلایا اور اس کی بو باس اور جوبن سے کس کس پُر الم کا آسمان ٹوٹا، کوئی غریب دیار ہوا، کوئی دام میں گرفتار ہوا، کسی سے گلشن چھوٹا، پردہ بہار اور خزاں کا حائل کیا۔ کسی کا حلقۂ اطاعت قمری کی گردن میں ڈالا، کسی پر بلبل کا دل مائل کیا۔ ایک محبت کی شمشیر آبدار، اس کے زخمی ہزار در ہزار۔ اس رمز میں بڑے بڑے دور بینوں کو سرگردانی رہی، آخر کار آئینہ دار حیرانی رہی۔ جتنا چھانا، کرکرا پایا۔ جب آنکھیں بہم پہنچائیں کچھ نظر نہ آیا۔ مجبور ہو کے مبہوت ہوئے، جس قدر تخیلہ تھے منجربہ سکوت ہوئے۔ سر جھکانے اور خاموشی کے سوا چارہ نہ ہوا، دم مارنے کا یارا نہ ہوا۔ اور تحفۂ درود و سلام اس برگزیدۂ خاص و عام کے واسطے ہے جس نے شمع ہدایت روشن کر کے تیٖرۂ باطن جو گم کردہ راہ تھے، صراط مستقیم سے نہ آگاہ تھے، ان کو اسلام سے مشرف کیا۔ کفر و ضلالت سے بچایا، جہالت سے چھڑایا۔ زندگی کا لطف اٹھانے کو سلسلۂ اتحاد میں الجھایا، راحت اور آرام پانے کو سررشتۂ محبت و وِداد میں پھنسایا کہ خیر و شر سے ماہر ہو کے باہم بود و باش کریں۔ ؏

دو دل یک شود بشکند کوہ را


شراکت میں تلاش معاش کریں؛ چنانچہ کافۂ انام میں بلکہ خاص و عام میں بحکم شرع شریف قرابت قریبہ کا ظہور ہوا۔ وہ جو تہلکہ بیگانگی کا معاملہ خانہ بدوشی کا تھا، باہم کی روپوشی کا تھا درمیان سے دور ہوا۔ ہر چند ہر ملت و مذہب میں محبت کا طریقہ، مروت کا سلیقہ، قرابت کا ہونا، بیگانگی کا کھونا سب کو پسند ہے۔ دانا ہو یا نادان، اس کا بہت خواہشمند ہے۔ اس واسطے کہ ؏

بنی آدم اعضائے یک دیگر اند


بدہیں یا نیک ہیں، حقیقت میں دونوں ایک ہیں، نہ کہ دو سریر آرائے اریکۂ جہاں بانی اور دو تاجدار رونق افزائے دیہیم سلطانی۔ یہ رسم مرسلان ذو الجلال اور طریقہ آبا و اجداد ستودہ افعال باہم بجا لائیں تو بندہ ہائے نیکو کردار کہ بدائع و دائع پروردگار ہیں، کس قدر منفعت اور مسرت پائیں۔ محتاجوں کی حاجت روا ہو، اہل حرفہ کو نفع پہنچے بھلا ہو۔ گو صرف فی الحال زیادہ ہو مگر دو مملکت ایک ہوں تو دولت اور مال زیادہ ہو۔ جب دوستوں میں شادی ہوتی ہے تو بیشک دشمن کو غم ہوتا ہے، خانہ بربادی ہوتی ہے۔ درینولا دل صفا منزل کہ مِرأت جہاں نما ہے، بقول مشہور خانۂ خدا ہے، اس میں یہ امر عکس افگن ہوا ہے کہ فیما بین سوائے روابط دیرینہ کوئی سررشتہ جدید کا قرینہ پیدا ہو کہ اکثر جو مخفی امور ہیں ان کا نتیجہ اس کائنات بے ثبات میں ہویدا ہو، جو کام ہو حسب احکام خدا و رسول ہو کہ خاص و عام کو گفتگو کی جگہ نہ ہو، قبول ہو۔ یہ جو حکم مثنے و ثلث و رباع آیا ہے، یہ اشارہ گروہِ سلاطین کی طرف شارع متین نے فرمایا ہے۔ لہذا خالق کا فرمان بجا لانا مخلوق پر ضرور ہے، انکار میں فتور ہے اور یقین ہے کہ وقائع نگاروں سے گوش حق نیوش تک یہ خبر پہنچی ہو کہ مملکتِ دکن میں چند اشرار سرگشتۂ بادیۂ ادبار متفق ہو کے راہزنی کرتے تھے۔ کچھ مال حرام اور بدمعاش قلاش بد انجام بصد پریشانی جمع کر کے سیاحان رہ نورد کو تاجران جہاں گرد کو ایذا دیتے تھے، مال اسباب چھین لیتے تھے۔ جس وقت یہ خبر بیجا متکفلان اخبار ہر شہر و دیار سے گوش زد ہوئی، بیخ کنی اس گروہ دنی کی منظور ہوئی، قلع و قمع کی کد ہوئی۔ مقربان بارگاہ قلیل سپاہ ہمراہ لے کے روانہ ہوئے۔ جلوریز اُن خود سروں کو یلانِ خنجر گزار نے تہِ تیغ آبدار کیا۔ مسافر گل چھرے اڑاتے چلے جاتے ہیں، تمام راہوں کو بے خار کیا۔ دوسرے فتح ملک زنگبار اور تنبیہ اس فرقۂ تیرہ روزگار کی خاطر والا پر روشن ہوئی ہوگی۔ یہ امانت پروردگار جو ہماری ظل عنایت تحت حکومت ہے، دن رات ان کی پاسبانی اور راحت رسانی میں بسر ہوتی ہے تامظلوم کو ظالم سے، محکوم کو حاکم سے گزند و ضرر نہ پہنچے، تافلک ان کا شور و شر نہ پہنچے۔ انھیں مشغلوں کے باعث چندے رسل و رسائل میں توقف ہوا ورنہ بیشتر دل خیریت طلب، جویائے خبر صحت و سلامتِ ذات خجستہ صفات ہر اوقات میں رہتا ہے۔ والسلام

نامہ تمام ہوا۔ کچھ اور تحفہ ہائے شہر و دیار، نوادرِ روزگار مع نامہ جان نثار خان کابلی کو دے کے رخصت کیا اور یہ فرمایا جس قدر سریع السیری جانے آنے میں ہوگی، ناموری زمانے میں ہوگی، باعث تقرب بارگاہِ آسمان جاہ ہوگا، خورسند مزاجِ ظل اللہ ہوگا۔ ایلچی برق و باد سے چست و تیز، رہ نورد گرم خیز ہو کے عرصۂ قلیل میں برسر منزل مقصد پہنچا۔ وہاں اس کی آمد کی خبر ورود سے پیشتر ہو چکی تھی، سرِ راہ ناظموں کو فرمان اہالیان سلطان نے بھیج دیے تھے۔ ہر منزل و مقام میں صبح و شام اسے آسائش ملی، جو شے درکار ہوئی بے فرمائش ملی۔ جس دم بیت السلطنت میں داخل ہوا، وزیر کے روبرو ہاتھوں ہاتھ لوگ لے گئے۔ پہلے سے بود و باش کو مکان، اکل و شرب کا سامان تیار تھا۔ اس میں اس کو اتارا۔ ملازمت کا وعدہ دو دن کے وقفے پر ہوا۔ القصہ بروز معہود و ساعت مسعود وزیر اعظم نامہ بر کو ہمراہ لے کے حضور میں حاضر ہوا۔ طریقہ ملازمت شہر یار و شاہ سے یہ دستور دان آگاہ تھا۔ بعنوان شائستہ نامہ پیشکش کیا، تحائف گذرانے اور تقریر زبانی اپنی خوش بیانی سے بادشاہ کو بہت راضی کیا۔ تا دیر ذکر حال و ماضی کیا۔ منشی بدیع نگار دانائے روزگار طلب ہوا۔ نامہ سربستہ کھول کے زر و جواہر میں تول کے پڑھنے لگا۔ شہریار کا مگارنے حمد و نعت کو بہ کشادہ پیشانی سنا۔ وہ نکتہ جو مطلب خیز تھا، وہاں تجاہل عارفانہ کر کے بگوش نادانی سُنا۔ سطوت و صولت پر فرمایا: بادشاہوں کا یہی کام ہے۔ فتح و شکست کی جا زبان پر آیا: گردش ایام ہے۔ القصہ حرف حرف وہ ماجرائے شگرف سن کے ایلچی کو بقدر لیاقت خلعت و انعام دیا۔ چندے حکم قیام دیا۔ یہ تو رخصت ہو کر اپنے مکان پر آیا۔ وہاں مقربانِ بارگاہ، دانایانِ ترقی خواہ کو خلوت میں یاد فرمایا۔ بعد ردّ و قدح یہ بات نکلی کہ اگر اس کام کا انکار ہو تو ملک الموت کی گرم بازاری کیجیے، مرنے کی تیاری کیجیے۔وہ اولو العزم ہے آمادۂ نبرد، مستعد پیکار ہوگا۔ بندہ ہائے خدا کا ناحق کشت و خون ہو جائے گا۔ ملک ویران، رعیت نالاں، سب کا حال زار و زبون ہو جائے گا۔ مناسب یہی ہے کہ بخوشی و خرّمی اس امر کا اقبال ہو، موقوف جنگ و جدال ہوا۔ اس رائے کو بادشاہ نے بھی پسند کیا۔ نامہ کا جواب القاب آداب محرر نے قلمبند کیا۔